علم بغاوت کا پھر سے بڑھ کر سنبھال رکھاہے عورتوں نے
یہ ظلم کب تک؟یہ جبر کب تک؟سوال رکھاہے عورتوں نے
اندھیری راتوں کا گوشہ گوشہ اُجال رکھاہے عورتوں نے
اور اب دیوں کو جلاکے ظالم ہواکے چہرے پہ مارتی ہیں
پکارتی ہیں
کہ تم بھی آؤ
امڈتاآتاہجوم دیکھو
فضامیں ان کے غضب کے تیارتیوروں نے مچارکھی ہے جو دھوم دیکھو
یہ ایسا منظر ہے بس کہ آنکھوں سے چوم دیکھو
اوراتنا سوچوکہ برف راتیں،کھلی سڑک پریہ کس طرح سے گزارتی ہیں
پکارتی ہیں کہ تم بھی آؤ
خود اپنے شام و سحر سے نکلیں
سلام ان پر جو گھر سے نکلیں
زبانِ حق کا محاورہ ہیں،سمجھ سے ظالم کی ماوراہیں
جواپنی آنکھوں میں اتری راتوں کو صبحِ فرداپہ وارتی ہیں
پکارتی ہیں کہ تم بھی آؤ
اَلاؤپھر سے سلگ رہاہے،عوام سوئے تھے،جگ رہے ہیں
یہ دن بغاوت کے لگ رہے ہیں
اور ان دنوں میں یہ عورتیں ہیں جو ذکرِ حق کی،نئے افق کی جبیں کا
صدقہ اتارتی ہیں،پکارتی ہیں کہ تم بھی آؤ
کہ تم بھی آؤاور اس اندھیری مہیب شب میں ہر ایک اٹھتے قدم سے اپنا
قدم ملاؤ
کوئی بھی آندھی کہیں سے اٹھے،تم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالو،نظرملاؤ
دیے جلانا توایسی راتوں میں فرض ہے
تم دیے جلاؤ
کوئی تصور ہے اپنے گھرکا تو گھر سے نکلو
سڑک پہ آؤ
ترانے گاؤ
گلے ملواور گلے لگاؤ
جواب دواس اندھیری شب کو
دیے جلاؤ!