اترپردیش میں یوگی حکومت نے آتنک مچا رکھا ہے اور پورے زوروشور سے مسلم تنظیموں اور اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سی اے اے ، این پی آر، اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب پر عیاں ہے، کس طرح یوپی پولیس نے حکومت کی شہ پر لوگوں پر قہر ڈھایا اور ان پر گولیاں برسائیں یہ کسی سے مخفی نہیں، کس طرح رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس کر پوڑھوں بچوں اور عورتوں کو نہ صرف پیٹا گیا بلکہ ان کے بیش قیمتی مال وزر کو بھی لوٹا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس احتجاج میں لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ، اس کے باوجود طرفہ تماشہ دیکھئے کہ جگہ جگہ چوراہوں اور سڑکوں پر فوٹو کے ساتھ ان احتجاجیوں کے ہی ہورڈنگ لگائے گئے جن کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی نذرِ زنداں بھی کیا گیا اور جیل میں انہی کو پیٹا گیا اور ان کے ساتھ تشدد برتا گیا، نقصانات کی بھرپائی کے لئے حکومت اس قدر جلد بازی میں دکھی کہ مُردوں تک کو بھی نوٹس تھما دیا گیا۔
سی اے اے جیسے کالا قانون کی مخالفت میں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پہ بیٹھی خواتین پر بھی ہر ظلم روا رکھا گیا ، حکومت نے اپنی طرف سے پوری زور زبردستی کی کہ گھنٹہ گھر کے احتجاج کو ختم کردیا جائے ، اس ظالم حکومت نے کئی خواتین پر فرضی مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل بھی بھیجا لیکن وہ ان ماؤں اور بہنوں کا حوصلہ توڑنے میں مکمل ناکام رہی اور انہوں نے حکومت کو بتا دیا کہ:
چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے ہوا کا رخ بدلنا آگیا ہے
کہاں تک آگ برسائے گا سورج ہمیں شعلوں پہ چلنا آگیا ہے
ڈاکٹر کفیل کو ضمانت ملنے کے بعد ان پر این ایس اے لگا کر تین مہینے کے لئے واپس جیل بھیج دیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کو بے دردی سے مارا گیا اور پولیس محکمہ کو مکمل چھوٹ دی گئی کہ وہ جیسا چاہیں ظلم روا رکھیں، پولیس نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں، جس سے سیکڑوں طلبازخمی ہوگئے اور اس میں سے کچھ طلبازندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔
حکومت کے ظلم و زیادتی کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اجے بشٹ حکومت نے نیپال سے متصل اتر پردیش کے سرحدی اضلاع بہرائچ، شراوستی، سدھارتھ نگر، بلرامپور، سنت کبیر نگر، مہراج گنج اور گورکھپور کی ۲۵۷ مساجد و مدارس کی لسٹ ٹیرر فنڈنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں کو دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پوری تفصیل کھنگال کر یہ پتہ لگایا جائے کہ ان سارے اداروں اور مساجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں ؟ اور کون کون اس میں فنڈنگ کر رہا ہے ؟ یا کن کن ملکوں سے اس میں پیسہ آرہا ہے ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان اداروں کی ایکٹویٹیز کیا ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ فرمان اس کی مسلم دشمنی کو درشاتا ہے، یاد رہے یہ وہی یوگی ہے جس نے کہا تھا کہ مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبرستان سے نکال کر ان کے ساتھ ریپ کیا جائے، آپ اس کے اس بیان سے اس کی ذہنی خباثت کا اندازہ لگاسکتے ہیں،جس کے اندر اس حد تک مسلمانوں سے بغض اور عداوت موجود ہو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
وقت رہتے اگر ملی تنظیموں اور دیگر جمعیتوں کے ذمے داران نے اس پر دھیان نہیں دیا اور کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ان اداروں اور مساجد کے ذمے داران کے ساتھ ساتھ ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور ان میں مالی تعاون پیش کرنے والے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے اور ان پر ایسے ایسے مقدمات ٹھونک دیے جائیں گے کہ ان کی بقیہ زندگی زندان میں ہی گزر جائےگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)