( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
ایودھیا میں پران پرتشٹھا میں کسی مسلمان نے خلل ڈالنے کی کوشش نہیں کی ، ہاں دو روز پہلے کچھ ہندو ہی گرفتار ہوئے تھے جو ۲۲ ، جنوری کے روز تخریب کاری کا منصوبہ بنا کر وہاں داخل ہوئے تھے ، اتنا ہی نہیں مولانا عمیر الیاسی جیسے چند ’ صوفی ‘ مسلمان بھی پران پرتشٹھا میں شریک تھے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ مسلمان آج کے دن بہت خوش ہیں ، لیکن اس کے باوجود سارے ملک میں ’ رام بھکتوں ‘ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف شرم ناک شرانگیزی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ مہاراشٹر میں ممبئی کے کئی علاقوں میں شرانگیزوں نے فرقہ وارانہ تشدد کی کوششیں کیں ، جیسے کہ میرا روڈ ، ملّت نگر اور پنویل وغیرہ ، لیکن مسلمانوں نے مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ کرکے تشدد کو ٹالنے کی کوششیں کیں ، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کہیں بھی کوشش نہیں کی گئی ، حالانکہ یہ ممکن تھا کیونکہ شرانگیزی غیر معمولی تھی ۔ میرا روڈ میں اتوار ، ۲۱ ، جنوری کی شب میں شمس مسجد کے سامنے ، حیدری چوک پر ، بانیگر اسکول کے پاس ’ رام بھکتوں ‘ نے شرانگیز نعرے لگا کر مسلمانوں کو مشتعل کرکے تشدد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ، دونوں جانب سے کچھ بحث و مباحثہ ہوا اور اس کے بعد لات گھونسے بھی چلے ، گاڑیوں پر حملے بھی ہوئے ، پولیس نے بیچ بچاؤ بھی کرایا اور چند لوگوں کو حراست میں بھی لیا ، یہ حراست میں لیے گیے افراد ’ رام بھکتوں ‘ میں سے نہیں ہیں ، یہ سب کے سب مسلمان ہیں ۔ پولیس کو چوکس رہنا تھا تاکہ میرا روڈ میں سکون رہتا ، لیکن یوں لگتا ہے کہ پولیس کو شاید شرانگیزوں کی حرکتیں نظرانداز کرنے کے احکامات ملے ہیں ، کیونکہ پیر کے روز پھر میرا روڈ سلگ اٹھا ۔ پھر شمس مسجد کے پاس اور لودھا روڈ پر واقع عمارتوں کے اطراف فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوگیا ، اور اس کا بنیادی سبب کئی سو افراد کا وہ ہجوم تھا جو ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے وہاں جمع ہو گیا تھا ، لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیوں اور ڈنڈوں ، راڈوں کے علاوہ پستول بھی تھے ، گویا کہ بھیڑ تشدد کرنے کے لیے ہی جمع ہوئی تھی ۔ یہ معاملہ صرف میرا روڈ تک ہی محدود نہیں رہا ، ملّت نگر میں بھی تشدد کو ہوا دینے کے لیے شرانگیزی کی گئی ، ’ رام بھکتوں ‘ کی بھیڑ نے ایک کالونی کے اندر جبراً داخل ہونے کی کوشش کی ، اس پر کشیدگی بڑھی ۔ پنویل میں ریلوئے اسٹیشن پر ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے اور ’ اللہ اکبر ‘ کی گونج میں تناؤ پھیلا ۔ سب جگہ مسجدوں کے سامنے نعرے لگائے گیے ، آتش بازی کی گئی ، ڈھول بجایا گیا ، تلوجہ کی مسجدوں کے سامنے ، جنوبی ممبئی کی مسجدوں کے سامنے ، جگہ جگہ باریش مسلمانوں کو دیکھ کر شرانگیز نعرے لگے ، منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو اکسانے ، غصہ دلانے اور جذبات بھڑکا کر تشدد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن سچ کہیں تو مسلمانوں نے زبردست صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا اور چند جگہوں پر ہی ردعمل کا اظہار کیا ورنہ جو ہورہا تھا اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ گیے ۔ انتظامیہ کا کردار سوالوں کی زد میں ہے ، اور ہونا بھی چاہیے ، اس سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے اور پوچھا جانا بھی چاہیے کہ کیوں شرپسند بھیڑ کو مسلم محلوں میں اور مسجدوں کے پاس جمع ہونے ، نعرے لگانے اور آتش بازی کرنے کی چھوٹ دی گئی ؟ کیوں ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ؟ کیا انتظامیہ کی یہ خواہش ہے کہ ممبئی پھر فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں آ جائے ؟ کیوں وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے ؟ کیا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ردعمل کا اظہار کریں تو انہیں پکڑ پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جائے ؟ ایسا ہوتا رہا ہے ، اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے ، میرا روڈ میں مسلمان ہی حراست میں لیے گیے اور گرفتار کیے گیے ہیں ۔ کیا شرپسند ، جو لاٹھی ڈنڈوں سے اور پستولوں سے لیس تھے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ؟ یہ جانب داری ، یہ یکطرفہ کارروائی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شرپسند اس لیے بے خوف ہوکر ہلڑ مچا رہے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی ، وہ چاہے جو کریں ، پکڑے ہر حال میں مسلمان ہی جائیں گے ۔ یہی سچ ہے لہذا مسلمانوں کو مزید صبر و ضبط سے کام لینا ہوگا ، فی الحال حالات کا یہی تقاضہ ہے ۔ اب وقتِ دعا ہے کہ اللہ حالات کو سازگار بنا دے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)