Home تجزیہ یہ سب کے لیے ہے ! شکیل رشید

یہ سب کے لیے ہے ! شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

( ناگپاڑہ میں اسکول کی نابالغ طالبہ کے ساتھ پیش آئے افسوس ناک واقعہ پر ایک تحریر) 

شہر ممبئی کے قلب ناگپاڑہ و ممبئی سینٹرل کے درمیان جو ایک گھناؤنا واقعہ پیش آیا ہے ، اس نے علاقہ بھر کے شہریوں کی تشویش بڑھا دی ہے ۔ اور تشویش کا بڑھنا جائز بھی ہے کہ معاملہ ایک نابالغ اسکولی بچی کا ہے ، جو اپنے اسکول جا رہی تھی کہ ایک اجنبی نے اُسے روکا اور کہا کہ وہ اُسے ، یعنی طالبہ کو ، پانچ ہزار روپیے دے گا اگر وہ اُس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو ! وہ موبائل پر پورن فلمیں لوڈ کیے ہوئے تھا ، جو اس طالبہ کو دکھاتا جا رہا تھا ۔ طالبہ نے اس کی شکایت اسکول میں بھی کی اور گھر میں بھی کی ، اس کے والدین مقامی پولیس اسٹیشن گیے تاکہ معاملہ درج کیا جائے ، پولیس افسران نے انہیں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ’ پوسکو ایکٹ ‘ کے تحت معاملہ درج کیا جائے گا ، ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ یہ معاملہ سنگین ہے ! جِس راستے پر یہ واقعہ پیش آیا اُس پر کئی اسکول ہیں ، جن میں چھوٹی بڑی بچیاں تعلیم کے حصول کے لیے آتی ہیں ۔ اسکولی بچیوں میں چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر نابالغ ہی ہوتی ہیں ، اور ان میں کچھ اتنی کمسن ہوتی ہیں کہ اُنہیں ورغلانا ناممکن نہیں ہے ۔ اس معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ بچی جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ، جس کی عمر گیارہ سال کی بتائی جا رہی ہے ، وہ صبح کے وقت اکیلی اپنے اسکول جا رہی تھی ، اس کے گھر والوں میں سے کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا ! اور یہ ایسی واحد بچی نہیں ہے ، نہ جانے کتنی ہی بچیاں روزانہ صبح کے وقت ، جب سڑکیں کچھ سنسان ہوتی ہیں ، اسکولوں کے لیے اکیلے سڑکوں سے گزرتی ہیں ، بالخصوص مسلم محلوں کی بچیاں ، لیکن اِن میں وہ بچیاں کم ہی کم ہوتی ہیں جو انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھتی ہیں ، ان کے والدین یا گھر کا کوئی بڑا ان کے ساتھ اسکولوں کے گیٹ تک لازماً جاتا ہے ! آخر کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا اگر اِن بچیوں کو اسکولوں تک چھوڑنے کے لیے ان کے گھر والے ساتھ جائیں ! کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ، لیکن مسلم گھرانے اکثر اپنی بچیوں کے ساتھ لاپروائی برتتے ہیں ۔ لاپروائی کا انجام خطرناک ہو سکتا ہے ، انہیں یہ خوب خبر بھی ہے ، لیکن سدھرنا شاید انہوں نے اپنی عادت سے نکال باہر کیا ہے ! اِن دنوں اس ملک میں بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں ، سب ہی جانتے ہیں ۔ بالغ لڑکیوں کے لیے اپنی حفاظت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ، کمسن اور نابالغ یا ستّرہ و اٹھارہ سال کی بچیوں کے لیے تو اپنی حفاظت مزید دشوار ہے ! اور پھر بہکنے کا خطرہ الگ سے ہے ! حالات اس قدر خراب ہیں کہ ایک جج نے اپنے ایک مشاہدے میں کہا ہے کہ اب والدین ’ بچوں کو پڑھائیں اور بچیوں کو بچائیں ‘ ! افسوس ناک صورتِ حال ہے ، مزید افسوس یہ کہ طالبات کے گزرتے وقت جو بڑے سڑکوں پر آ جا رہے ہوتے ہیں ، اور اسکولوں کے پاس جو والدین یا سرپرست موجود ہوتے ہیں وہ اپنے آس پاس سے تقریباً غافل ہوتے ہیں ، انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ جو طالبات آ جا رہی ہیں کوئی ان سے چھیڑ خانی بھی کر رہا ہے ! یہ غفلت عام ہے اور اس کے نتائج لوگوں کے سامنے ہیں ، لیکن لوگ ہیں کہ جاگ نہیں رہے ہیں ۔ اب ضروری ہے کہ لوگ اپنی اسکولی بچیوں کے تعلق سے باخبر رہیں ، انہیں تنہا نہ اسکول جانے دیں اور نہ اسکول سے تنہا آنے دیں ، کوئی نہ کوئی ساتھ ہو ۔ اس طرح طالبات چھڑخانی سے بھی محفوظ رہیں گی ، اور دیگر مسائل سے بھی ۔ یہ پیغام صرف ناگپاڑہ اور ممبئی سینٹرل کے درمیان رہنے والے مسلمانوں سے نہیں ہے ، یہ پیغام سارے ممبئی شہر ، سارے مہاراشٹر بلکہ سارے ملک کے لوگوں سے ہے ، اور تمام مذاہب کے لوگوں سے ہے صرف مسلمانوں ہی سے نہیں ہے ۔ اس ملک کی تمام ہی بچیاں محفوظ رہیں اس کی سب کو فکر ہونی چاہیے ۔ اسکولوں تک طالبات محفوظ پہنچ سکیں اس کے مزید راستے اور طریقے ہیں ، جیسے کہ اسکولی بسوں سے طالبات کو بھیجنا ، مگر تمام والدین اس کے اہل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ بسوں سے بھیجنے کا خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ لہذا سب سے بہتر راستہ اور طریقہ خود اپنی بچیوں کو اسکول تک پہنچانا اور اسکول کے ذمے داروں کے حوالے کرنا ہے ۔ اس معاملہ میں اسکولوں کی منتظمین کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا ، منتظمین کو چاہیے کہ وہ اسکولوں کے گیٹ پر ایسے ذمے دار تعینات کریں جو بچیوں کو بحفاظت کلاسوں تک پہنچانے کا کام کریں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like