( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دنیا بھرمیں ملک کا سر فخر سے بلند کرنے والی خاتون پہلوان ساکشی ملک ، اور پہلوان بجرنگ پونیا ، بالترتیب کشتی کی دنیا سے مستعفی ہونے ، اور پدم شری ایوارڈ واپس لوٹانے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر راضی ہو گیے ہیں ۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جو پہلوانوں نے سخت فیصلہ کیا تھا ، اس سے پہلے انہوں نے سخت احتجاجی مظاہرے کیے تھے ، اور پھر اپنے تمغوں کو ہری دوار جاکر گنگا ندی میں وسرجن کرنے کا اعلان کیا تھا ، اور تمغے وسرجن کرنے کے لیے وہ ہری دوار پہنچ بھی گیے تھے ، اس موقعہ پر ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا کے ہمراہ ، ونیش پھوگاٹ اور دیگر پہلوان بھی تھے ، لیکن کسان لیڈر نریش ٹکیت نے ، پانچ روز کی شرط پر انہیں تمغوں کے وسرجن سے روک دیا تھا ۔ پہلوانوں نے ، کشتی کی دنیا کو الوداع کہنے ، گنگا ندی میں تمغے پھینکنے اور پدم شری ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ ، احتجاج کے طور پر کیا تھا ! سوال ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا ؟ کیوں ، ان تمغوں کو ، جو بڑی محنت سے جیتے گیے تھے ، وہ گنگا ندی میں بہا دینا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ؛ اس لیے کہ یہ تمغے اِن خواتین پہلوانوں کے لیے فخر کی نہیں ، شرمندگی کی نشانی بن گئے تھے ۔ اِن تمغوں کے حصول کے لیے انہوں نے محنت تو خوب کی تھی ، لیکن محنت کے بدلے میں ان کی عزت اور آبرو داؤ پر لگ گئی تھی ۔ اُن دنوں یہ کئی مہینوں سے چیخ چیخ کر یہ الزام لگا رہی تھیں کہ ، اُس وقت کے کشتی مہا سنگھ کے صدر ، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ، برج بھوشن شرن سنگھ نے خاتون پہلوانوں کا جنسی استحصال کیا ہے ، لہٰذا اُن کے خلاف کارروائی کی جائے ، لیکن کوئی ان کی پکار سننے والا نہیں تھا ، نہ حکومت ، نہ عدلیہ اور نہ ہی عام ہندوستانی ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے ۔ انہیں اپنے ہی ملک کے لوگوں سے وہ حمایت نہیں مل سکی ہے ، جو انہیں ملنا چاہیے تھی ۔ چند لوگوں کی حمایت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ۔ کسان تنظمیں ان کی حمایت میں ضرور سامنے آئیں ، لیکن یہ صرف کسانوں کا ہی معا ملہ نہیں ہے ، جن خاتون پہلوانوں کو ملک کی بیٹیاں کہا گیا تھا ، اُن کی عزت اور آبرو پر آنچ سارے ملک کا معاملہ ہے ۔ لیکن ایک رکن پارلیمنٹ کی عزت کو خاتون پہلوانوں کی عزت پر فوقیت دے دی گئی ۔ وہ حکومت جو نعرہ لگاتی ہے ’ بیٹی پڑھاؤ ، بیٹی بچاؤ ‘ اسے شاید بیٹیوں کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، کیونکہ اس نے اب تک شکایت کرنے والی خاتون پہلوانوں پر توجہ دینا تک گوارہ نہیں کیا ہے ۔ یہ سوال پہلے بھی بار بار اٹھتا رہا ہے اور آج بھی اٹھ رہا ہے کہ ، کیوں مرکز کی مودی سرکار برج بھوشن شرن سنگھ کو بچانے پر تُلی ہوئی ہے ؟ چند روز قبل ساکشی ملک نے کشتی کی دنیا سے مستعفی ہونے کا اعلان اس لیے کیا تھا کہ برج بھوشن کے دستِ راست سنجے سنگھ کو کشتی فیڈریشن کا صدر بنایا گیا تھا ، یعنی ایک طرح سے صدر برج بھوشن کا ہی راج واپس لَوٹ آیا تھا ۔ ساکشی ملک ، بجرنگ پونیا اور ونیش پھوگاٹ و دیگر کا احتجاج رنگ لایا ، اور وزارت کھیل نے سنجے سنگھ کو صدارت سے ہٹا کر فیڈریشن کو معطل کر دیا ۔ یہ پہلوانوں کی ایک طرح سے جیت ہے ، لیکن یہ حقیقی جیت نہیں ہے ، کیونکہ ابھی برج بھوشن سنگھ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ جان لیں کہ برج بھوشن شرن سنگھ صرف ایک ایم پی نہیں ، باہوبلی بھی ہیں ، اور عام زبان میں باہو بلی کا مطلب غنڈہ ہوتا ہے ۔ قیصر گنج سے ایم پی برج بھوشن کا بی جے پی میں کیا مقام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ داؤد ابراہیم جیسے ہندوستان کو مطلوب مافیا ڈان سے تعلقات کا الزام بھی ان پر اثرانداز نہیں ہوسکا ہے ۔ وہ ۱۹۹۱ ء سے لگاتار الیکشن جیتتے چلے آ رہے ہیں اور ان کی پکڑ اپنے علاقے میں ایسی سخت ہے کہ ، بی جے پی آنے والے لوک سبھا الیکشن میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے اُن پر منحصر ہے ، شاید اسی لیے وہ برج بھوشن کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتی ہے ۔ یہ وہ برج بھوشن شرن سنگھ ہیں جو ایودھیا تحریک میں پیش پیش تھے اور وی ایچ پی کے ایک لیڈر اشوک سنگھل کے منظورِ نظر بھی ۔ ظاہر ہے کہ اِن پر ہاتھ ڈالنا ایک ’ ہندتوادی ‘ پر ہاتھ ڈالنا مانا جائے گا ، اور کہاں مودی حکومت کسی ’ ہندتوادی ‘ پر ہاتھ ڈال سکتی ہے ! یہ ’ نیا ہندوستان ‘ ہے ، جس کا اعلان پی ایم مودی نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقعہ پر کیا ہے ، اسی لیے برج بھوشن سنگھ کے خلاف احتجاج کرنے والے پہلوانوں کو تو نشانہ بنایا گیا تھا ، انہیں احتجاج کرنے سے روکا بھی گیا تھا اور ان پر مقدمے بھی درج کر دیے گیے تھے ، لیکن برج بھوشن سنگھ پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔ فیڈریشن کی معطلی کا اور سنجے سنگھ کے فیصلوں پر روک لگانے کا ، وزارت کھیل کے اچھے اقدام ہیں ، لیکن بہتر یہ ہوگا کہ اس تنازعہ کی بنیاد کو ختم کیا جائے ، یعنی برج بھوشن کے خلاف کارروائی کی جائے ، وہ قصوروار ثابت ہوں تو انہیں سزا دی جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پہلوان خواتین کی شکایتوں کا ازالہ کرے ، کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)