دنیا میں جتنی بھی نظامِ حکومت ہے اس میں جمہوریت کو نہ صرف مقبولیت اور قبولیت ہے بلکہ جہاں کہیں جمہوری طرزِ حکومت نہیں ہے وہاں کے لوگ باگ بھی اس کو حاصل کرنے کے لیے جد وجہد میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے لیے دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں آواز بلند ہوتی رہتی ہے ۔ہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرزِ حکومت میں کچھ ایسی خامیاں ہیں کہ جس کی وجہ سے کبھی کبھی اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے کہ اس طرزِ حکومت میں بندوں کو تولا نہیں جاتا بلکہ اس کے اعداد وشمار کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔یہ مثل مشہور ہے کہ جمہوریت میں 49کی حیثیت صفر ہے اور 51کی حیثیت سو کی ہو جاتی ہے کہ 49ووٹ لا کر بھی کوئی امیدوار ناکام ہو جاتاہے اور 51ووٹ کی بدولت بر سراقتدار ہو جاتاہے۔یہی ایک معمہ ہے کہ محض دو ووٹ کے فاصلے سے جمہوریت کی تقدیر بدل جاتی ہے اس لیے کہا جاتاہے کہ جمہوریت میں ہر شہری کا سنجیدہ ہونا لازمی ہے کہ جمہوریت جذباتیت کو پسند نہیں کرتی ۔ہماری جمہوریت پوری دنیا کے لیے ایک مثالی جمہوریت اس لیے ہے کہ یہاں کسی بھی آمر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔جب کبھی کسی نے ہماری جمہوریت کے تانے بانے کو بکھیرنے کی کوشش کی تو نہ صرف وہ ناکام رہے بلکہ ان جیسے آمریت پسند کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے جو اس کی راہ پر چلنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔اس بار کے پارلیامانی انتخابات کے نتائج نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ہماری جمہوریت کی جڑیں کتنی مستحکم ہیں اور یہاں کے عوام کے دلوں میں اپنی جمہوری قدروں کی پاسداری کے لئے کس قدر مر مٹنے کا جذبہ ہے۔واضح ہو کہ حالیہ پارلیامانی انتخابات کے نتائج نے صاف طورپر کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں دی ہے ۔ ایک طرف برسرِ اقتدار پارٹی اکثریت کے نشانے کو پانے میں ناکام رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کو بھی حکومت سازی کاموقع نہیں دیا ہے ۔ ہاں البتہ انتخابی عمل سے قبل تشکیل شدہ قومی جمہوری اتحاد کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور اپوزیشن ’’انڈیا‘‘ اتحاد بھی ایک مضبوط اپوزیشن کے طورپر ابھر کر سامنے آئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس پارلیامانی انتخاب کو جس نہج پر لڑا گیا وہ کسی طورپر بھی جمہوری ضابطے کے مطابق نہیں تھا کہ بر سراقتدار پارٹی نے ملک میں مذہبی منافرت بالخصوص مسلم اقلیت کے خلاف جس طرح کی اشتعال انگیزی کو فروغ دیا وہ نہ صرف ایک خاص طبقے کے لیے مضر تھا بلکہ جمہوریت کے لیے بھی خسارہ عظیم ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر اس ملک کی مٹی اور آب وہوا ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کسی بھی آمرکے غیر جمہوری فعل کو قبول نہیں کرتی اور ملک کی سا لمیت کے شیرازہ کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیتی ۔ اس لیے اس پارلیامانی انتخابات کے نتائج نے ان تمام جیالوں کو تازگیٔ نوبخشی ہے جو اپنی مثالی جمہوریت کا پرچم بلند کرنے کی خاطر اپنی جان کو ہتھیلی پر لے کر آگے بڑھے اور طوفانوں کی زد میں رہ کر بھی چراغِ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو روشن کیا۔
واضح ہو کہ اس انتخابی نتائج نے بر سراقتدار جماعت کو یہ باور کرادیا ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور محبت کی دکان کبھی بند نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اتر پردیش میں ایودھیا سے بر سراقتدار پارٹی کے امیدوار کا ہار جانا اور پھر پوری ریاست میں متھورا ، کاشی کے نام پر اشتعال انگیز ماحول بنانے کے باوجود اگر اس جماعت کو ریاست کی اکثریت عوام نے رد کیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس ملک کے ذرے ذرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی چمک موجود ہے اور وہ کسی بھی تاریکی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔اس نتائج نے یہ بھی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان میں کسی غیر جمہوری سیاسی لیڈرکو قومی ذرائع ابلاغ کی یک طرفہ حمایت اور زہر فشانی کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے صنعت کاروں کی پشت پناہی بھی ایک آمر کے طورپر پاؤں جمانے نہیں دیتی۔یہ حقیقت بھی جگ ظاہر ہے کہ کس طرح ایک دہائی میں آئینی اداروں کو فالج زدہ بنایا گیا اور جمہوری قدروں کی پامالی کی گئی ۔باوجود اس کے انصاف پسندعوام الناس نے اپنی جمہوریت کے پرچم کو سر نگوں ہونے نہیں دیا اور آج پوری دنیا میں ہماری جمہوریت کی قصیدہ خوانی ہو رہی ہے اور یہاں کے لوگ باگ کا سر فخر سے بلند ہوا ہے ۔اس انتخابی نتائج نے یہ بھی سبق دیا ہے کہ کوئی بھی بر سراقتدار جماعت عوامی مسائل کو اپنے جھوٹ اور مکروفریب کے ذریعہ بہت دنوں تک بالائے طاق رکھ کرحکومت پر قابض نہیں رہ سکتی کیوں کہ پیٹ کی آگ برف کے تودے کو جلاتی تو نہیں لیکن اسے پگھلا کراس کے وجود کو ختم ضرور کردیتی ہے ۔اس لیے شاید اب اس ملک میں جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی وہ اس انتخاب کے نتائج سے سبق ضرور لے گی کہ یہاں کی زمین کسی بھی آمر کے لیے بہت سخت ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے تو اسے بھی اس پارلیامانی انتخابات کے نتائج نے کئی سبق دیا ہے کہ اگر اپوزیشن اتحاد اپنے تمام تر ذہنی تعصبات وتحفظات اور سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف جمہوریت کی پاسداری اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر آگے بڑھتی ہے تو اس کے حصے میں بھی کامیابی آتی ہے۔کاش ریاست بہار میں اپوزیشن اتحاد اس انتخاب کے تقاضوں کو سمجھ پاتی اور کانگریس بھی بہار کی سیاست کو سنجیدگی سے لیتی تو بہار کا نتیجہ بھی کچھ اور ہوتا۔واضح ہو کہ بہار میں ذات شماری کے بعد یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ کس ذات کا کتنا فیصد ہے اوروہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ بہار میں ذات پات کی سیاست کی زمین کتنی زرخیز ہے ۔لیکن یہ جانتے ہوئے کہ بہارمیں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کی غیر معمولی سیاسی اہمیت ہے، کانگریس نے اپنے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کی اورایک ایسے طبقے کے ہاتھوں میں کمان تھمائے رکھا جس طبقے کا ووٹ کانگریس کو برسوں سے نہیں مل رہاہے۔اگر کانگریس اپنے تنظیمی ڈھانچوں میں تبدیلی کیے ہوتی اور ریاستی کانگریس کی کمان کسی دلت یا انتہائی پسماندہ طبقے کے ہاتھوں میں دی ہوتی تو شایدبہار کا سیاسی منظر نامہ کچھ اور ہوتا۔ اتنا ہی نہیں ٹکٹ کی تقسیم میں تو ایسا لگا کہ کانگریس کو جو ٹکٹ ملا ہے اس میں چار پانچ ایسے امیدوار ہیں جن کی حیثیت ڈمی کی ہے ۔ مظفرپور میں کانگریس نے ایک ایسے امیدوار کو ٹکٹ دیا جس نے انتخابی اعلان کے بعد کانگریس کا دامن تھاما تھاکہ وہ گذشتہ دو انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا تھا ۔ اسی طرح سمستی پور میں جس کو کانگریس نے ٹکٹ دیا وہ بھی نو وارد تھا۔راشٹریہ جنتا دل نے بھی مکیش سہنی کے ساتھ یہ جانتے ہوئے ہاتھ ملایا کہ ریاست میں سہنی برادری کے کئی وزرا ہیں اور وہ مرکز کی برسراقتدار پارٹی کے لیے اپنی برادری کی صف بندی کے لیے برسوں سے محنت کر رہے ہیں۔ خود مکیش سہنی بھی انتخابی اعلان کے بعد انڈیا اتحاد میں شامل ہوئے تھے نتیجہ ہے کہ بہار سے جو انڈیا اتحاد کو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔اگرچہ بہار میں تیجسوی یادو کو ایک سنہری موقع ملا تھا کہ وہ خود کو ایک مقبول لیڈر کے طورپر اپنی شناخت مستحکم کر سکتے تھے۔ کاش کہ وہ اپنے خاندانی سیاست کے دائرے سے باہر نکل پاتے تو ریاست کا انتخابی نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ ظاہر ہے کہ نتیش کمار کی صاف وشفاف شبیہ اور ریاست بہار میں ان کی ایک ’وکاس پُرش ‘کی جو شبیہ ہے اس کا فائدہ نہ صرف ان کی جماعت کو ملا بلکہ ان کے اتحادی کو بھی ملا ہے۔اگر نتیش کمار انڈیا اتحاد سے الگ نہیں ہوئے ہوتے تو شاید نہ صرف بہار کی سیاسی تصویر کچھ اور ہوتی بلکہ قومی سیاست کی تصویر بھی کچھ الگ ہو سکتی تھی۔واضح ہو کہ نتیش کمار نے پورے انتخابی تشہیری جلسوں میں کبھی بھی کسی طبقے کو نشانہ نہیں بنایا اور وہ جمہوری طریقے سے اپنے ترقیاتی کاموں کے بدل میں ووٹ مانگتے رہے۔یہ حقیقت تو مسلّم ہے کہ بہار کی تصویر بدلنے میں نتیش کمار کی حصہ داری سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے میں ان کی مقبولیت کا گراف دنوں دن بلند بھی ہوتا رہاہے ۔
بہر کیف!اس انتخاب میں کئی علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کانگریس نے اتحاد بنا کر بر سر اقتدار جماعت سے مقابلہ کیا وہ بھی ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ تمام تر وسائل کی کمی کے باوجود ایک ایسی سیاسی جماعت جو دنیا کی سب سے دولت مند سیاسی جماعت ہے اس کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی اور ان کی کامیابی ہماری جمہوریت کے لیے کس قدر ضروری تھی اس کا اندازہ تو اب ہو گا کہ جب پوری دنیا یہ دیکھ سکے گی کہ ہندوستان میں اب حزب اختلاف کی آواز صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوگی۔تمام سیاسی جماعتوں کو اس انتخابی نتائج پر غوروفکر صرف اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ اقتدر کسے حاصل ہوا اورکسے نہیں بلکہ اس لیے بھی سوچنا ضروری ہے کہ جمہوریت کی پاسداری کے لیے کیا کچھ کیا جانا چاہیے ۔ ہمارا ملک جغرافیائی اعتبار سے بھی مختلف حصوں میں تقسیم ہے ۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کے عوام الناس کے کھان پان،لباس، رسم ورواج اور زبان بھی مختلف ہیں اور یہی کثرت میں وحدت ہماری شناخت کا ضامن بھی ہے۔اس پارلیامانی انتخاب میں بھی یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اگر ملک کے کسی ایک حصے میں ذات پات کی سیاست پروان چڑھتی ہے، نفرت انگیزی کو فروغ ملتا ہے تو دوسرے حصے میں نسلی مساوات اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا سازگار ہوتی ہے اور ملک کے تہذیبی وثقافتی توازن کو بگڑنے نہیں دیتی۔اپوزیشن اور بر سراقتدار دونوں جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری مٹی میں بقول سوامی وویکا نندکہ ’’سناتن میں سمیٹنے کی طاقت ہے ‘‘۔ واضح ہو کہ سوامی وویکا نند نے اپنے شکاگو کی تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ ’’ہماری سنسکرتی میں Incluson ہے Excluson نہیں‘‘۔
بہر کیف! اب نئی حکومت تشکیل پائے گی اور وہ حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں ہوگی بلکہ اتحادی حکومت تشکیل پائے گی اور ظاہر ہے کہ اس اتحاد کی تمام سیاسی جماعتوں کے افکار ونظریات الگ الگ ہوں گے اور شاید ان کی کوشش ہوگی کہ حکومت کے فکر وعمل سے کسی خاص طبقے کی دل آزاری نہ ہو اور ملک کی جو تہذیبی تاریخی شناخت ہے وہ مسخ ہونے نہ پائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف اتحادی حکومت کے
مفاد میں ہوگا بلکہ اس ملک کے لیے امید کی نئی کرنیں بھی نمودار ہوں گی۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ہماری مٹی کسی کو بھی زہر بونے نہیں دیتی اور اس ملک کی آب وہوا میں نفرت کی بیج کنی پروان نہیں چڑھتی۔طلوع آفتاب ازلی وابدی حقیقت ہے اور اندھیرا کا مقدر لمحاتی ہوتاہے اس لیے جمہوریت میں دھوپ چھائوں کا کھیل تو چلتا رہتا ہے مگر کسی آمر کے لیے اس کی زمین ہمیشہ تنگ ہوتی ہے ہندوستان کی جمہوریت نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیاہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ ’’ دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘‘۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)