Home قندیل یہ کیسی بدبختی ہے!

یہ کیسی بدبختی ہے!

by قندیل

نایاب حسن

ایک طرف توملک کے مختلف حصوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ مسلمان ہندووں کی ارتھی اٹھائے پھر رہے ہیں اور دوسری طرف خودمسلمان ہی اپنے ہم مذہب کی لاشوں کو قبرستان میں دفن نہیں کرنے دے رہے اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایک عجیب وحشت انگیز پیغام جارہاہے۔ممبئی میں کم سے کم دو ایسے واقعات پیش آچکے ہیں،ایک میں توقبرستان میں دفنانے پر مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے لاش کو جلاناپڑا،جبکہ دوسرے واقعے میں بھی کوروناسے مرنے والے ایک مسلمان کو چیتاکیمپ قبرستان میں دفنانے نہیں دیاگیاتواسے دیونارقبرستان لے جایاگیااور جیسے تیسے تدفین عمل میں لائی گئی۔ایک تیسراواقعہ جھارکھنڈ کے رانچی میں پیش آیاہے جہاں سیکڑوں مسلمان ایک مسلمان کی تدفین کے خلاف سراپااحتجاج ہوگئے؛کیوں کہ اس کی موت کورونا کی وجہ سے ہوئی تھی۔پولیس نے ایساکرنے والے آٹھ سو سے زائد لوگوں کے خلاف کیس درج کرلیاہے،مگر فی نفسہ یہ کیسا دلخراش واقعہ ہے۔جبکہ انہی وبائی دنوں میں اندور،جے پور،یوپی اور دیگر مقامات سے ہمیں کئی ایسی خبریں بھی مل چکی ہیں کہ بعض ہندووں کا انتقال ہوگیا، تو مسلمانوں نے ان کی ارتھیاں اٹھائیں اوران کی آخری رسوم اداکیں۔سوشل میڈیاپر ارتھی اٹھانے کی تصویریں اور ویڈیوزہندووں سے زیادہ مسلمانوں نے قومی یکجہتی اور بھائی چارہ فروغ دینے کے ”نیک مقصد“سے وائرل کیں۔
یہ ہماری بدبختی اور تباہی کی علامت ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ایک طرف توبھائی چارے کے فروغ کے لیے ہندووں کی ارتھی بھی اٹھارہے اور ان کی آخری رسمیں بھی اداکررہے ہیں،جبکہ دوسری طرف خود اپنے مذہبی بھائی کو قبرستان میں دفن تک نہیں کرنے دے رہے ہیں۔حالاں کہ جب ممبئی میں بی ایم سی نے کورونامتاثرین کی لاشوں کو بلاتفریق جلانے کا نوٹس جاری کیاتھا،تو وہاں کے علماودانشوران نے مل کر ان سے بات کی تھی،جس کے بعد مسلمانوں کی لاشوں کو دفنانے کی اجازت دے دی گئی تھی اور خود ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن بارہایہ واضح کرچکاہے کہ لاش کودفنانے کے بعد وائرس کاکوئی اثر باقی نہیں رہتااور مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہبی طریقے سے لاش کودفنانے یاجلانے کے مجاز ہیں،مگر اس کے باوجودیاتو ضرورت سے زیادہ خوف و دہشت کی وجہ سے یا جہالت و بدبختی کی وجہ سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں کہ خود مسلمان،مسلمانوں کوقبرستان میں دفنانے کی مخالفت کررہے ہیں۔ویسے ہم جیسے سیہ بختوں سے یہ عمل اتنا تعجب خیز بھی نہیں؛کیوں کہ ہم تو عام اور معمول کے دنوں میں بھی بارہاایک فرقے کی لاش کو اپنے فرقے کے قبرستان میں دفنانے سے منع کرچکے؛بلکہ قبر کھود کر لاش باہرنکال کر پھینکنے تک کا عمل کرچکے ہیں۔
یہ وقت صرف وبا،لاک ڈاؤن اور دیگر ظاہری مصائب اور پریشانیوں کاہی نہیں ہے،یہ وقت ہمارے ذہن و ظرف کی آزمایش کابھی ہے،یہ وقت سوچ اور فکر کو درست رکھنے،عمل و کردار میں خوبی پیدا کرنے،اندرسے باہر تک انسان بننے،اپنے عقیدہ ومذہب کو مذاق بنانے کی بجاے اس سے درست رہنمائی حاصل کرنے،بے جا خوف و دہشت میں مبتلا نہ ہونے،مطلوبہ احتیاطی تدابیر اپنانے اوران پر عمل کرنے اور ضرورت سے زیادہ محتاط ہونے سے بچنے اور یکجہتی و بھائی چارہ کے فروغ کے چکر میں ایمان ایسی انمول دولت ہاتھ سے چلی نہ جائے،اس پر توجہ دینے کاہے۔مسلم دانشوران،اہلِ علم،سوشل میڈیاپر متحرک افراد کثرت سے لوگوں تک یہ بات پہنچائیں کہ بھائیو!کوروناکی وجہ سے مرنے والے شخص کو دفنانے کے بعد وائرس کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں،قبرستان میں یااس کے اردگرد کے علاقے میں نہیں پھیلتے، یہ بات مولوی ہی نہیں،سائنس دان اور عالمی ادارۂ صحت بھی کہہ رہاہے؛لہذا خدارا احتیاط کے نام پربدمعاشیوں سے گریزکیجیے، غیرانسانی حرکتوں سے بچیے اور اپنی اور اپنے ہم مذہبوں کی جگ ہنسائی کاسامان مت کیجیے۔

You may also like

Leave a Comment