لوک سبھا انتخابات میں ووٹوں کی گنتی سے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ جمہوریت کی فتح ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم نے اس سے قبل ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چار جون کو جو نتائج آئیں گے وہ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ یہ ملک جمہوری اور سیکولر رہے گا یا پھر آمریت کی راہ پر چل پڑے گا۔ اگر چہ عوام کا فیصلہ مکمل طور پر کسی کے حق میں نہیں ہے تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر رائے دی ہے۔ تمام پارٹیوں کو اس رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ اب جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر آگئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا فریضہ سرانجام دیتی ہیں یا نہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت پر بار بار یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ حکومت نے آئینی اور جمہوری اداروں کو اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے۔ لہٰذا یہ بھی کہا جا سکتا کہ یہ فیصلہ ان اداروں کے لیے پروانۂ آزادی ہے۔ اپوزیشن کے الزام کا تازہ تازہ ثبوت تو انتخابی مہم کے دوران ہی مل گیا جب الیکشن کمیشن آف انڈیا نے قوانین و ضوابط کے تحفظ کی خاطر اپنے اختیارات کے استعمال کے بجائے بعض طبقات کے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ان نتائج کے کئی پیغامات ہیں۔ سب سے بڑا پیغام تو یہی ہے کہ یہ ملک سیکولر اور جمہوری رہے گا۔ اسے اس راہ سے کوئی بھی ہٹا نہیں سکتا۔ ان نتائج نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ وارانہ میل جول اور برادرانہ یگانگت میں یقین رکھتی ہے، نفرت انگیز تقریروں اور بیانات میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کے خلاف کھل کر بیان بازی کی تو غیر مسلموں کی اکثریت نے ہی اسے پسند نہیں کیا۔ انھوں نے راجستھان کے بناس واڑہ میں پہلی بار مسلمانوں کے خلاف بیان دیا تھا۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے وہاں کی 25 لوک سبھا سیٹوں میں سے 24 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار وہ اپنی یہ تاریخ دوہرانے میں ناکام رہی۔ اسی طرح دیگر ریاستوں میں بھی اس کی فرقہ واریت پر مبنی مہم کامیاب نہیں ہوئی۔
بی جے پی کو سب سے بڑا دھچکہ اترپردیش میں لگا ہے۔ وہاں سب سے زیادہ 80سیٹیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہو کر جاتا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے 62 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس بار نصف سے بھی کم رہ گئی۔ دراصل کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے انتخابی اتحاد نے یہ کمال دکھایا ہے۔ راہل گاندھی نے بہت جھک کر اکھلیش یادو سے اتحاد کیا۔ دونوں نے متعدد مشترکہ ریلیاں بھی کیں۔ ان کی ریلیوں میں عوام کی زبردست بھیڑ آتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار تو پھولپور میں اتنی بھیڑ آگئی کہ اس کو قابو کرنا مشکل ہو گیا اور دونوں کو خطاب کیے بغیر واپس جانا پڑ گیا۔ بی جے پی رہنما اس بار ڈبل انجن کی سرکار کا حوالہ دے کر تمام سیٹوں پر کامیابی کا دعویٰ کر رہے تھے۔ لیکن یوپی کے عوام نے اس دعوے کی ہوا نکال دی۔ یوپی کے فیض آباد حلقے میں ایودھیا واقع ہے جو کہ کئی عشروں سے بی جے پی کی سیاست کا مرکز و محور ہے۔ وزیر اعظم مودی نے 22 جنوری کو نامکمل رام مندر کا افتتاح کرکے اپنی دانست میں ووٹ حاصل کرنے کا بہت بڑاقدم اٹھایا تھا۔ گودی میڈیا کا کہنا تھا کہ رام مندر کا افتتاح مودی کا ماسٹر اسٹروک ہے۔ افتتاح کے بعد کچھ دنوں تک مذہبی جوش و جذبات کا عالم رہا۔ لیکن چار ماہ کے اندر جذبات کا طوفان بلبلے کے مانند بیٹھ گیا۔ فیض آباد سے دو بار للو سنگھ بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار ان کا خیال تھا کہ وہ ہیٹ ٹرک بنائیں گے۔ لیکن وہ سماجوادی پارٹی کے اودھیش پرساد سے شکست کھا گئے۔ فیض آباد سے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایودھیا سے بی جے پی کے امیدوار کی شکست صرف ایک امیدوار کی شکست نہیں ہے بلکہ پوری بی جے پی کی شکست ہے۔ وزیر اعظم کے ماسٹر اسٹروک کی شکست ہے اور مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی حکمت عملی کی شکست ہے۔ اس کے ساتھ ہی وارانسی سے وزیر اعظم کی امیدواری پر بھی بات ہونی چاہیے۔ گزشتہ الیکشن میں وہ کانگریس کے اجے رائے سے چار لاکھ ووٹوں سے جیتے تھے۔ لیکن اس بار تو اس وقت تمام تجزیہ کار حیرت زدہ رہ گئے جب وزیر اعظم مودی ان سے پیچھے ہو گئے تھے۔ لیکن بہر حال پھر انھوں نے سبقت حاصل کی اور کامیاب ہوئے۔ تاہم اس بار جیت کا فرق دو لاکھ سے بھی کم ووٹوں کا رہا۔ امیٹھی سے اسمرتی ایرانی نے گزشتہ الیکشن میں راہل گاندھی کو تقریباً پچاس ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا لیکن اس بار کہیں زیادہ ووٹوں سے ہار گئیں۔ کے ایل شرما نے جن کی، بی جے پی والے کانگریس کا اسٹینو اور سونیا و راہل کا پی اے کہہ کر تحقیر کرتے تھے، اسمرتی کو ہرا دیا۔ رائے بریلی سے راہل گاندھی چار لاکھ ووٹوں سے جیت گئے۔ وہ کیرالہ کے وائناڈ سے بھی کافی فرق سے جیتے ہیں۔ یوپی میں کئی مرکزی وزرا شکست کھا گئے ہیں۔ اگر ہم شکست خوردہ امیدواروں کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ن میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو آئین، مسلمان، سیکورلرزم اور جمہوریت مخالف رہے ہیں۔ گویا عوام نے ایسے سیاست دانوں کو ایک سبق سکھایا ہے اور انہیں ہراکر یہ بتایا ہے کہ یہ ملک سیکولر جمہوری ملک رہے گا۔ اسے اس راہ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔
وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان کو کانگریس مکت یعنی کانگریس سے پاک بنانے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے کیا کیا اقدامات نہیں کیے۔ یہاں تک کہ ایک مجہول سے بیان کی بنیاد پر راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ ان کے خلاف فیصلہ آیا جس کی بنیاد پر ان کی لوک سبھا کی رکنیت اور رہائش چھین لی گئی۔ لیکن بہرحال عدالت عظمیٰ کی مداخلت سے وہ بحال ہوئی۔ اب وہی راہل گاندھی دو حلقوں سے اور زبردست مارجن سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ حکومت نے انتخابی مہم میں کانگریس کو بے دست و پا کرنے کے لیے ا س کے بینک اکاونٹس کو منجمد کیا۔ متعدد کانگریسی رہنماؤں کے گھروں اوردفتروں پر چھاپے مارے گئے۔ مودی حکومت صرف کانگریس کو نہیں بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو ختم کر دینا چاہتی تھی تاکہ اس ملک میں ایک ہی پارٹی کا راج ہو۔ ون نیشن ون الیکشن اینڈ ون ٹیکس اور اسی طرح بہت سے نعرے اسی لیے لگائے جا رہے تھے کہ ہندوستان کو ایک ہی سیاسی جماعت کے زیر نگیں کر دیا جائے۔ یا اگر کچھ جماعتیں بچیں تو ان میں اتنی طاقت نہ رہ جائے کہ وہ سر اٹھا سکیں۔ لیکن یہ کوششیں ناکام ہو گئیں۔ گوکہ اروند کیجری وال، منیش سسودیا اور ہیمنت سورین کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے لیکن جیل ان کے لیے قید خانے کے بجائے آشیرواد گھر بنتی جا رہی ہے۔ ان نتائج نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ اب کانگریس کے احیاء کے دن شروع ہو گئے ہیں۔ اگر کانگریسی رہنما سنجیدگی اور عقلمندی سے کام لیں تو وہ اپنی پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ واپس لا سکتے ہیں اور جو ان کی سیاسی زمین چھین لی گئی ہے وہ بھی انھیں مل سکتی ہے۔ کانگریس کے اس احیاء میں بلا شبہ راہل گاندھی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے دو کامیاب یاترائیں کرکے نہ صرف اپنے سیاسی قد کو بڑھایا ہے بلکہ ایک سنجیدہ سیاست داں کی امیج بھی حاصل کی ہے۔ عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کی سنجیدگی اور ایمانداری کا قائل ہو گیا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسے ہی سیاست دانوں کی ضرورت ہے۔ انھوں نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بدھ کو حلیف جماعتوں کے ساتھ میٹنگ میں یہ طے کیا جائے گا کہ حکومت بنانے کی کوشش کی جائے یا اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کانگریس کو ایک موقع ملا ہے۔ اسے حکومت سازی کی کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ وہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت نہ بھی پوری کرے لیکن وہ بننی چاہیے۔ تاکہ ملکی و حکومتی نظام میں جو جو خرابیاں درآئی ہیں وہ دور کی جا سکیں۔ ورنہ اگر سابقہ حکومت پھر قائم ہوئی تو وہ ایک بار پھر کانگریس کو ختم کرنے کی اپنی مہم شروع کر دے گی اور اس بار زیادہ کاری وار کیے جائیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)