سیاسی تحفہ کے طور پر تقرری پانے والے کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کو یہ آئینی عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی پانچ مہینے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس عرصہ میں وہ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ریاستی حکومت سے دس بار لڑچکے ہیں۔ وہ نہ صرف ریاستی حکومت سے مختلف معاملات میں اختلاف کر رہے ہیں بلکہ میڈیا کو اپنے نرم وگرم بیانات بھی جاری کر رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ عارف محمد خان گورنر کا نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف کیرالہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ممبر او راجا گوپال نے قدرے معقولیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ کیرالہ میں بائیں بازو کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سیاسی اور قانونی محاذ کھول رکھا ہے۔ حکومت کیرالہ نے اسمبلی میں قرارداد پاس کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ میں بھی سی اے اے کے خلاف رٹ دائر کردی ہے۔ اس پر گورنر عارف محمد خان آتش زیر پا ہیں ۔
گورنر صاحب کو دکھ ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کی اجازت’ مشورہ اور اطلاع کے بغیر کیسے یہ قدم اٹھایا۔ لہذا انہوں نے حکومت سے جواب طلب کیا۔گزشتہ روز جب ریاست کے چیف سیکریٹری ٹام جوز ریاستی حکومت کا موقف سمجھانے کے لئے ان سے ملے تو انہوں نے وہی رٹ لگائے رکھی کہ کوئی بھی دلیل مجھے مطمئن نہیں کرسکتی کیوں کہ ریاست نے غیر قانونی کام کیا ہے۔
گورنر دراصل صدر جمہوریہ کے توسط سے مرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کل گورنروں نے خود کو نمائندہ کم ایجنٹ زیادہ ثابت کرنے پر زور صرف کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاستی حکومت مرکزی حکومت سے شاکی ہے تو سپریم کورٹ میں کی جانے والی "شکایت” آپ سے پوچھ کر کیوں کی جائے۔ اور کیوں کر آپ اس کی اجازت دیں گے۔
ہاں اس سلسلے میں کیرالہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ممبر او راجا گوپال کا رویہ بہت مثبت رہا۔ انہوں نے اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا کہ گورنر بات بات پر میڈیا کو بیان دیتے ہیں اور ریاستی حکومت سے مسلسل متصادم ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گورنر اور وزیر اعلی کے درمیان کوئی بھی تنازعہ یا اختلاف ہو اسے آپس میں مل بیٹھ کر ہی حل کرنا چاہئے۔ یہ گورنر کا کام نہیں ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی ناگواری کا اظہار کرے۔
عارف محمد خان صاحب نے اسلام اور مسلم مخالفین کی بڑی دانشورانہ خدمات انجام دی ہیں۔ انہیں گورنر کا باوقار عہدہ بھی انہی خدمات کے صلہ میں بخشاگیا ہے۔ ایسے میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان سے درخواست کی جائے کہ کم سے کم بی جے پی ممبر اسمبلي کے دکھائے ہوئے آئینہ میں ہی اپنا کردار دیکھ لیں ۔