Home تجزیہ یہ اچھا ہی ہوا ! -شکیل رشید

یہ اچھا ہی ہوا ! -شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )

نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو نے واضح کردیا ہے کہ وہ این ڈی اے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے ۔ یعنی این ڈی اے کی حکومت سازی کی راہ کی اڑچنیں دور ہو گئی ہیں ، اور اِن قیاس آرائیوں پر بھی روک لگ گئی ہے کہ مذکورہ دونوں سیاست داں ’ انڈیا ‘ الائنس کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔ اور یہ اچھا ہی ہوا ہے ۔ اچھا اس لیے کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو بھلے این ڈی اے کا حصہ ہوں مگر دونوں بی جے پی کے نظریات سے بہت دور ہیں ، اور یہ نظریاتی بُعد بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن بی جے پی اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے مجبور ہے ، کیونکہ اس کے بغیر اس کی سرکار اب کی بار نہیں بن سکتی ۔ لوگوں کو یاد ہی ہوگا کہ جب انتخابی ریلیوں میں نریندر مودی مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دینے کی قسمیں کھا رہے تھے اور کانگریس بلکہ پورے ’ انڈیا ‘ الائنس پر الزام دھر رہے تھے کہ یہ اتحاد اگر اقتدار تک پہنچا تو دلتوں ، قبائیلیوں اور پچھڑوں کے ریزرویشن میں سے مسلمانوں کو ریزرویشن دے دے گا ، اور وہ ’ انڈیا ‘ الائنس کو ایسا کرنے نہیں دیں گے ، تب چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی حمایت کی تھی ۔ چندرا بابو نائیڈو کی ساکھ سیکولر سیاست داں کی رہی ہے ، اور ان سے یہی امید ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ بی جے پی کو مَن مانی نہیں کرنے دیں گے ۔ نتیش کمار سے بھی بہت نہ سہی لیکن اس حد تک امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کھل کر ، اب جبکہ وہ حکومت میں شریک ہوں گے ، بی جے پی کو اپنے ہندوتوادی ایجنڈے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اتنی امید ان سیاست دانوں سے کی جانی چاہیے ۔ کم از کم یہ دونوں بی جے پی کو آئین سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ الیکشن سے قبل بی جے پی کے متعدد لیڈران کے بیانات سامنے آئے تھے کہ بی جے پی آئین بدلنا چاہتی ہے ، اور اس کے لیے چار سو پار سیٹیں مطلوب ہیں ۔ خیر چار سو پار کا خواب تو پورا نہیں ہوا ، ملک کے شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے اپنے ووٹوں کی طاقت سے بی جے پی کو 240 سیٹوں پر ہی محدود کر دیا ، لیکن جو خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل کی آرزو یقیناً دبی نہیں ہوگی ، مگر اب جو حالات بنے ہیں ان کے باعث آرزو آرزو ہی رہے گی ۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ’ انڈیا ‘ الائنس نے حکومت سازی کے لیے کوئی توڑ جوڑ نہیں کی ، ہاتھ پیر نہیں مارے ۔ یہ اس معنی میں اچھا ہوا کہ ہاتھ پیر مار کر اگر ’ انڈیا ‘ الائنس کی حکومت بن بھی جاتی تو بھی اس حکومت کی حیثیت ’ شاخِ نازک پر آشیانہ ‘ کے مصداق ہوتی ۔ خطرہ بنا رہتا کہ کہیں کوئی دغا نہ کر جائے ، کہیں بی جے پی ’ مشن کمل ‘ پر نہ لگ جائے اور کہیں اس کی حکومت کی راہ میں فرقہ وارانہ تشدد اور ذات پات کی بنیاد پر مسائل کھڑے کرکے مشکلات نہ کھڑی کر دی جائیں ۔ اب بی جے پی کو ایک دھڑکا لگا ہوگا کہ وہ اپنے حلیفوں کو ناراض نہ کرے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس بار این ڈی اے کی جو سرکار بنے گی وہ پہلے کی دو سرکاروں کی طرح مضبوط نہیں ہوگی ، کمزور ہوگی ، اور ایک کمزور سرکار مَن مانی کرنے سے بچے گی ۔ مَن مانی سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ انتخابی مہمات کے دوران جو ڈھیروں وعدے کیے ہیں ، جو قسمیں کھائی ہیں اُن پر عمل دشوار ہوگا ۔ مودی نے تو لوگوں کو غضب کے ’ سپنے ‘ دکھائے تھے ! بس یہ لگتا تھا کہ تیسری مرتبہ حکومت بنی نہیں کہ یہ سب کے سارے دلدر دور کر دیں گے ، غریبوں کو مالدار اور مالداروں کو مہا مالدار بنا دیں گے ! اور یہ وعدے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیے جا رہے تھے ۔ اب امید ہے کہ کم از کم کچھ دنوں کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا عمل بند ہو جائے گا ۔ ’ انڈیا ‘ الائنس چونکہ اس بار بڑی طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ پہنچا ہے اس لیے وہ مضبوط ہوگا ، اور ایک مضبوط اپوزیشن ملک کی جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اب تک اپوزیشن کمزور تھا ، اسے دبا جاتا تھا ، اب اپوزیشن کو دبانا آسان نہیں ہوگا ۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ’ انڈیا ‘ الائنس کو جو کامیابی ملی ہے اُسے ایک مضبوط بنیاد کی طرح استعمال کرکے وہ آگے کے لیے ایسا لائحۂ عمل بنا سکتی ہے جو مستقبل میں اسے اکثریت کے ساتھ مرکز تک پہنچنے میں مدد دے سکے ۔ اسے قدرے صبر سے کام لینا ہوگا ۔ یہ جو نتائج آئے ہیں ان کے اثرات اُن ریاستوں پر مرتب ہو سکتے ہیں جہاں اسمبلیوں کے الیکشن ہونا ہیں ، بالخصوص مہاراشٹر پر ۔ ’ انڈیا ‘ الائنس انتظار کرے ، این ڈی اے میں دراڑ کا ، آپس میں جوتم پیزاری کا ، جو کہ ہونی ہی ہے کیونکہ یہ جو سرکار بن رہی ہے وہ عوامی مفادات کے لیے نہیں اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہے ۔ جب مفادات کا ٹکراؤ ہوگا تو ، تو تو میں میں ہوگی ہی ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like