دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے گھر میں لگنے والی آگ اور اس میں کروڑوں روپے کے جلنے کے واقعے نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا رکھی ہے۔ ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں یہی خبر چھائی ہوئی ہے اور اس بات پر زوردار بحث ہو رہی ہے کہ کیا عدلیہ میں بدعنوانی کا بول بالا ہے اور کیا پیسوں سے فیصلہ خریدا جا رہا ہے۔ اس واقعے نے عدلیہ کی شفافیت اور اس کی ایمانداری کو داو پر لگا دیا ہے۔ اس آتش زدگی نے بے شمار سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ 14 مارچ کی رات میں نئی دہلی کے پوش علاقے میں واقع جسٹس ورما کی سرکاری رہائش گاہ کے آوٹ ہاوس میں آگ لگی تھی۔ اس وقت جسٹس ورما اپنی اہلیہ کے ساتھ دہلی سے باہر تھے۔ جب آگ لگی تو ان کے اہل خانہ نے فائر سروس کو فون کیا۔ فائر برگیڈ کے عملے نے جب آگ بجھانی شروع کی تو انھیں ایک کمرے میں بوریوں میں رکھے ہوئے کروڑوں روپے ملے جو کہ نیم سوختہ ہو چکے تھے۔ یہ ایک انتہائی سنسنی خیز اور حساس معاملہ تھا لہٰذا پولیس کو فون کیا گیا اور پولیس نے آکر موقع کا معائنہ کیا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس واقعے کا انکشاف ایک ہفتے کے بعد ہوا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو پراسرار بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک نیوز چینل نے ایک فائر آفیسر کے حوالے سے کہا کہ بوریوں میں نوٹ ملنے اور ان کے جلنے کی بات غلط ہے۔ لیکن بعد میں اس افسر نے تردید کی اس نے ایسا کوئی بیان دیا ہے۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ آگ کسی معمولی شخص کے گھر میں نہیں بلکہ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کے گھر میں لگی تھی۔ لہٰذا پولیس کو فوری طور پر سرگرم ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن پولیس نے بھی اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ پولیس نے جائے واردات کا پنچ نامہ نہیں کیا۔ جبکہ ایسے معاملات میں پنچ نامہ تیار کرنا پولیس کا پہلا کام ہوتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تادم تحریر ایف آئی آر تک نہیں لکھی گئی ہے۔ جو بہت سے سوالات ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کتنے نوٹ برآمد ہوئے اور وہ کہاں گئے۔ اگر کسی عام شخص کے گھر میں اس طرح مشکوک نوٹوں کی بوریاں ملتیں تو سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس کے محکمے سب سرگرم ہو جاتے اور مکان مالک کو گرفتار کر لیا جاتا۔ لیکن اس معاملے میں ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ نوٹوں کی بہتات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گھر کے باہر بھی جلے ہوئے نوٹ ملے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی سیاست داں اس قسم کی برآمدگی میں پھنستا ہے تو وہ فوری طور پر نوٹوں سے پلہ جھاڑ لیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ وہ میرے نہیں ہیں۔ بالکل یہی جسٹس ورما نے بھی کیا اور اس بات سے انکار کیا کہ نوٹ ان کے ہیں۔ اس معاملے میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب چیف جسٹس نے معاملے کی جانچ کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے کی رپورٹ کو عام کیا۔ اس رپورٹ میں جلے ہوئے نوٹوں کی فوٹو اور ویڈیو بھی شامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جسٹس اپادھیائے کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی جانب سے دی گئی اس ہدایت کے بعد کہ جسٹس ورما کو کوئی کام نہ دیا جائے، مذکورہ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ 25 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں جسٹس ورما کا موقف بھی شامل ہے۔ جسٹس اپادھیائے نے جسٹس سنجیو کھنہ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ کے ساتھ دہلی کے پولیس کمشنر کی وہ رپورٹ بھی اٹیچ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چار پانچ بوریوں میں ادھ جلے نوٹ پائے گئے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے جسٹس اپادھیائے سے کہا تھا کہ وہ جسٹس ورما سے پوچھیں کہ ان کی رہائش گاہ کے احاطے میں اتنے نوٹ کیسے اور کہاں سے آئے۔ وہ نوٹ ملنے کے ذریعے کا انکشاف کریں اور یہ بھی بتائیں کہ آگ لگنے کی اگلی صبح کو کس شخص نے کمرے سے نوٹوں کی بوریاں ہٹائیں۔ اس پر جسٹس ورما سے پوچھ تاچھ کی گئی جس میں انھوں نے اپنے اوپر عاید کیے جانے والے الزامات کی تردید کی۔ ان کے مطابق وہ حادثے کے وقت اپنے گھر پر نہیں تھے۔ نوٹ ان کے گھر میں نہیں بلکہ ملازموں کی رہائش گاہ میں واقع اسٹور روم میں تھے جو ان کے گھر کے کسی فرد نے نہیں رکھے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ نوٹ کسی اور نے رکھے ہوں گے تاکہ انھیں پھنسایا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹور روم ان کے رہائشی حصے سے الگ ہے اور درمیان میں دیوار ہے۔ واضح رہے کہ جس کمرے میں جلے ہوئے نوٹ پائے گئے وہ مقفل نہیں تھا۔ اس معاملے کے سامنے آتے ہی جسٹس ورما کا تبادلہ الہ آباد ہائی کورٹ کر دیا گیا جہاں سے وہ دہلی ہائی کورٹ آئے تھے۔ اس پر الہ آباد ہائی کورٹ کی بار کونسل نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اس نے اس فیصلے کے خلاف ہڑتال کر دی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ جسٹس ورما کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس محکموں کی جانب سے جانچ کی اجازت دے۔ اس کے علاوہ جسٹس ورما کے الہ آباد اور دہلی ہائی کورٹ میں دیے گئے تمام فیصلوں کی جانچ کی جائے تاکہ عدلیہ میں عوام کا اعتماد بحال ہو۔ دریں اثنا دہلی پولیس کے ان پانچ افسران کے فون، جو کہ آگ لگنے اور نوٹ ملنے کی اطلاع پر وہاں پہنچے تھے، سپریم کورٹ کے پاس جمع کرا دیے گئے ہیں تاکہ جانچ کے دوران ان کے ریکارڈ کی بھی چھان بین ہو۔
بہرحال ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا اور عدیم المثال واقعہ ہے۔ اس نے عدلیہ کی غیر جانبداری کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر اور ممبر آف پارلیمنٹ کپل سبل نے انکشاف کیا ہے کہ عدلیہ میں بدعنوانی برسوں سے جاری ہے۔ تاہم انھوں نے مذکورہ معاملے پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ واقعہ گہری جانچ کا متقاضی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ میں مبینہ کرپشن کے سلسلے میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا ایک بیان بھی سوشل میڈیا میں وائرل ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جسٹس ورما کے واقعے نے یہ سوال پیدا کر دیا کہ کیا ہندوستانی عدلیہ میں انصاف خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ ان کے مطابق جسٹس ورما نے اب تک جو بھی فیصلے سنائے وہ سب مشکوک ہو گئے ہیں۔ کیا پتہ انھوں نے کس کس سے پیسے لے کر فیصلے دیے ہوں اور ممکن ہے کہ مذکورہ رقم بھی کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف فیصلہ سنانے کے لیے لی گئی ہو۔ یاد رہے کہ جسٹس ورما بڑی تجارتی کمپنیوں کے مقدمات کی سماعت کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی عدلیہ ایک عرصے سے شکوک و شبہات کے دائرے میں رہی ہے۔ ایک بار سپریم کورٹ کے ایک جج نے یہ سنسنی خیز بیان دیا تھا کہ ہندوستان میں امیروں کے لیے الگ قانون ہے اور غریبوں کے لیے الگ۔ مذکورہ معاملے سے بھی ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔ حالانکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی جج کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں کی جا سکتی جیسی کہ دوسروں کے خلاف کی جاتی ہے۔ کسی بھی جج کو صرف پارلیمنٹ کے ذریعہ مواخذہ کی صورت میں ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جسٹس ورما کے خلاف سوائے اس کے کہ ان کا تبادلہ الہ آباد کر دیا گیا اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ البتہ محکمہ جاتی جانچ ہو رہی ہے۔ اگر جانچ رپورٹ میں وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ لیکن بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے سے عدلیہ کی ایمانداری اور شفافیت داغدار ہوئی ہے اور اس کے بہت سے فیصلے سوالوں کے گھیرے میں آگئے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)