Home ستاروں کےدرمیاں یحییٰ سنوار : مزاحمت کا استعارہ-عبدالعلیم الاعظمی

یحییٰ سنوار : مزاحمت کا استعارہ-عبدالعلیم الاعظمی

by قندیل

حماس کے پولیٹیکل بیرو کے سربراہ، غزہ میں حماس کے سربراہ، حماس کی عسکری تنظیم القسام بریگیڈ کے سربراہ اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے سب سے عظیم معرکہ طوفان الاقصیٰ کے قائد اور منصوبہ ساز، بانی حماس شیخ احمد یاسین کے اولین تربیت یافتہ افراد میں سے ایک ابو ابراہیم یحییٰ السنوار اسرائیلی سفاکیت اور جبر کے خلاف میدان جنگ کی اولین صفوں میں زندگی کی آخری رمق تک مزاحمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما لیا۔ یحییٰ سنوار جن کو اسرائیلی فوج گزشتہ ایک سالوں سے غزہ کے چپے چپے پر تلاش کررہی تھی، کبھی اسرائیلی فوج دعویٰ کرتی کہ آپ خان یونس کی کسی سرنگ میں قسام کے بہترین کمانڈروں کے ساتھ موجود ہیں، تو کبھی اسرائیلی فوج دعویٰ کرتی کہ آپ یرغمالیوں کو ڈھال بناکر سرنگوں میں موجود ہیں، تو کبھی اسرائیلی فوج آپ کو اسپتالوں اور عام رہائشی علاقوں اور ریفوجی کیمپوں میں ہونا کا دعویٰ کرتی رہی۔

لیکن خدا کا یہ کرم اور انعام ہوا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک عظیم تحریک کا سربراہ ایک عام مجاہد کی طرح میدان جنگ کی اولین صفوں میں لڑ رہا تھا۔

خدا کا یہ انعام اور کرم رہا ہے کہ حماس کے بدترین دشمن اسرائیل ہی کے ذریعہ وہ تمام مناظر کیمرے میں قید کرائے گئے، جس کی اشاعت نے یحیٰی سنوار کی قبولیت اور مرتبہ میں چار چاند لگا دیا۔ پوری دنیا کی تحریک کے سربراہوں کو پیغام دیا کہ قائد و سربراہ زیر زمین، یرغمالیوں کی ڈھال میں نہیں بلکہ اپنے مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ کی اولین صفوں میں رہتا ہے۔ یہ مناظر مزاحمت میں مزید تقویت اور فلسطینیوں کے اندر مزید جذبہ پیدا کریں گے۔ شیخ یحییٰ السنوار جیسے مرکزی قائدین کا میدان جنگ کی اولین صفوں میں ہونا اس بات کی شہادت اور گواہی ہے کہ حماس کے پاس قیادت اور معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک لمبی تعداد ہے۔ قیادت کا ایک پورا جال ہے اور ہر قائد خوشی خوشی خود کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ حماس کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب بھی ان پر مشکل دور آیا ہے، ان کے قائدین کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان میں نئی قیادت پیدا ہوئی ہے اور حماس کی مقبولیت اور عسکری طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 1992ء میں حماس کے مرکزی لیڈران کو لبنان کے ایک بنجر علاقے میں جلا وطن کردیا گیا تھا،اس وقت قیادت کے خلاء پر تبصرہ کرتے ہوئے عزام التمیمی لکھتے ہیں کہ ” یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی بڑے پیمانے پر قید و بند یا جلا وطنیوں کا سلسلہ چلتا ہے، قیادت کا ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے۔ حماس تحریک کو اس سے شدید دھچکے لگے مگر یہ صرف وقتی نوعیت کے تھے۔ہر دفعہ جب ایسا ہوا تو اس کے نتیجے میں نیچے سے لازماََ قائدین کی ایک نئی نسل ابھر آئی۔ جس نے نا تجربہ کاری کے باجود نہ صرف حالات کو سنبھال لیا بلکہ توقع سے بہتر نتائج دیے۔ "(حماس، 115) حماس کی قیادت کو لیکر کبھی بھی خلاء محسوس نہیں کیا گیا ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی شہادت کے 20/ سال گزر چکے ہیں اور ان بیس سالوں میں اسرائیلی فوج نے دسیوں حماس کے مرکزی قائدین کو نشانہ بنایا ہے؛ لیکن اس کے باوجود بھی حماس کی صفوں میں نہ صرف شیخ احمد یاسین کے تربیت یافتہ لوگوں کی ابھی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے؛ بلکہ شیخ احمد یاسین کے معتمد ترین لوگ ابھی بھی حماس کی صفوں میں موجود ہیں، گویا اتنی شہادتوں اور قائدین کے نشانہ بنانے کے باوجود بھی شیخ کے تیار کردہ لوگ ہی تحریک کی باغ دوڑ سنبھال رہیں ہیں۔ حماس کی صفوں میں عبد العزیز ریتیشی، شیخ اسمعیل ھنیہ،یحیحی سنوار، خالد مشعل، ابو موسیٰ مزروق، محمد الضیف، محمد السنوار وغیرہ کے تربیت یافتہ اور ان کے ذریعہ تیار کردہ افراد اور قائدین سے دنیا ابھی نا واقف ہے۔

یحییٰ سنوار حالیہ عظیم معرکہ طوفان الاقصیٰ کے قائد اور منصوبہ ساز تھے، یحییٰ السنوار ایک طویل عرصہ اسرائیل کی جیل میں رہے ہیں، اور اسرائیلی جیل سے نکلنے کے لیے منصوبہ بھی انہوں نے خود بنایا تھا اور پھر اسرائیل سے مذاکرات بھی انہوں نے خود کیا تھا، طوفان الاقصیٰ بنیادی طور پر جیل میں قید اپنے بھائیوں کے رہائی کے لیے ایک عظیم منصوبہ تھا۔ 7 / اکتوبر کو حماس اپنے منصوبے میں کامیاب رہا ہے یا نہیں، حماس کا منصوبہ کیا تھا، کیا واقعی جو ہوا وہ حماس کی پلاننگ اور منصوبہ کا حصہ تھا، اس بات سے قطع نظر حماس اور اس کے قائدین کے بیانیہ سے یہ بات بہت حد تک واضح ہوگیا کے کہ طوفان الاقصیٰ کا بنیادی مقصد جیل میں موجود اپنے لوگوں کی رہائی، غزہ سے حصار کو توڑنا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بنیاد کی اولیں اینٹ رکھنا تھا، 2021ء میں حماس اسرائیل جنگ یعنی معرکہ سیف القدس کے بعد یحیٰی سنوار نے ایک طویل پریس کانفرنس کی جس میں فرمایا کہ ” میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ حالیہ معرکہ ہماری نظر میں حقیقی معرکہ نہیں تھا، بلکہ ہم دشمن کو اور پوری دنیا کو صرف ایک پیغام دینا چاہتے تھے، پس ہم موجودہ معرکہ کے نتائج کے ذریعہ ایک خاموش پیغام دیا ہے، یہ حقیقی معرکہ اور فیصلہ کن جنگ نہیں تھی، جس دن اللہ نے فیصلہ کن جنگ کا موقع دیا اور حقیقی معرکہ برپا ہوا تو ساری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ ہمارا دشمن عبرت بن گیا، دشمن روسیاہ ہوں گے، اور اس دن دنیا کے انصاف پسندوں کی خوشی ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز ” ( خطاب 28/ مئی 2021)

بلاشبہ یحییٰ السنوار جس فیصلہ کن معرکے اور جنگ کی بات کررہے ہیں؛ اگرچہ طوفان الاقصیٰ وہ منصوبہ نہیں تھا؛ لیکن طوفان الاقصیٰ اب اس مرحلے میں داخل ہوگیا کہ یہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ بن گئی ہے، دونوں کا مستقبل اس جنگ کے نتائج طے کرے گا۔

یحییٰ سنوار 1962ء میں خان یونس کے ایک ریفوجی کیمپ میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان مجدل عسقلان سے 1948ء کے ملبہ کے نتیجے میں ہجرت کرکے یہاں آیا تھا، آپ نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے تعلیم حاصل کی اور غزہ ہی میں اپنی ابتدائی زندگی میں عربی زبان و ادب کے استاذ کے بھی فرائض انجام دیے ۔ یحییٰ السنوار ابتدائے عمر ہی میں شیخ احمد یاسین کے حلقے میں شامل ہوگئے تھے، 1986ء میں شیخ احمد یاسین کے حکم سے آپ نے ایک سیکورٹی تنظیم "المجد” قائم کی، جس کا کام اسرائیل کے لیے کام کرنے والے دغا باز فلسطینیوں کو پکڑنا اور اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرکے سزا دینا تھا۔ 1988ء میں انتفاضہ میں حماس کی شرکت کی وجہ سے دیگر قائدین کے ساتھ المجد کے سربراہ یحییٰ السنوار کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے قبل آپ کو دو مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا، جس وقت آپ کی عمر محض 20/ تھی، ایک مرتبہ 4/ ماہ اور دوسری مرتبہ 6/ ماہ اسرائیلی کی جیلوں میں رہے۔ اس مرتبہ اسرائیل نے آپ پر چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی، یحییٰ السنوار ایک طویل عرصہ تک اسرائیل کی جیل میں رہے ان کا جیل سے چھوٹنا کسی معجزے کے بغیر ممکن نہیں تھا جیسا کہ شیخ احمد یاسین کا جیل سے رہا ہونا تھا، 2006ء کے آس پاس جیل ہی میں یحییٰ السنوار نے ایک منصوبہ بنایا، اور اس کے بعد حماس نے ایک کاروائی کی جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی نوجوان فوجی شالیط کو زندہ پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ حماس نے متعدد مرتبہ اسرائیل فوج کے درمیان اپنی شرائط رکھی لیکن اسرائیلی فوج کسی بھی قیمت پر یحییٰ السنوار کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئی، اسرائیلی فوج چار سال سے زائد عرصہ تک شالیط کو ہر ممکن طریقے سے غزہ میں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہی؛ بالآخر اسرائیلی فوج اور جیل میں قید یحییٰ السنوار کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں اور اسرائیلی فوج یحییٰ السنوار سمیت ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدی کو ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے رہا کرنے کا معاہدہ کرتی ہے اور یوں یحییٰ السنوار معجزاتی طور پر جیل سے رہا ہو جاتے ہیں۔ یحییٰ السنوار کی رہائی نے حماس خصوصا اس کی عسکری ونگ القسام میں ایک نئی جان ڈال تھی۔ حماس کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ جیل میں بھی وہ اپنا قائد منتخب کرتی ہے اور دیگر لوگ اسی کے احکام کو ہی فالو کرتے ہیں، چناں چہ جیل میں بھی یحییٰ السنوار حماس کے سربراہ تھے، کارکنان کی تربیت کرتے، مزید براں جیل میں آپ نے عبرانی زبان سیکھی، اسرائیلی فوجی سربراہان اور موساد کے سربراہان کی سوانح حیات اور آپ بیتیوں کا بغور مطالعہ کیا، اسرائیلی فوج کی نفسیات کو سمجھا، بعض کتابوں کا عربی میں ترجمہ بھی کیا، اسی طرح جیل ہی میں متعدد کتابیں بھی لکھی، جس میں سے "الشوک و القرنفل” مشہور و معروف ہے جس میں آپ نے اپنی اور دیگر فلسطینی خاندانوں کی کہانیاں بیان کی ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد 21/ نومبر 2011ء کو یحییٰ السنوار شادی کرتے ہیں، آپ کی اولاد میں ایک بیٹا ابراہیم اور دو بیٹیاں ہیں۔2012ء میں حماس کے پولیٹیکل بیرو کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی سال القسام بریگیڈ کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 2015ء میں اسرائیلی قیدیوں کے انچارج اور مذاکرات کی ذمہ داری دی گئی۔ اسی سال امریکہ نے آپ کو نمایاں ترین دھشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ 2017ء میں اسمعیل ھنیہ کے بعد غزہ میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 2024ء میں اسمعیل ھنیہ کے بعد حماس کے پولیٹیکل بیرو کے بھی سربراہ منتخب ہوئے۔

یحییٰ سنوار سیاسی مسائل سے زیادہ فوجی اور عسکری قیادت پسند کرتے تھے، اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ مجھے سوٹ پہننے سے زیادہ فوجی وردی پہننا پسند ہے، اپنے متعدد بیانات میں شہادت کی تمنا ظاہر کی، 2021 میں جب اسرائیلی فوج نے یحیٰی السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا، تو یہ عظیم مرد مجاہد اور بہادر قائد ڈرا نہیں اور نہ ہی خوف زدہ ہوا؛ بلکہ اسی وقت پریس کانفرنس کی اور پوری دنیا کے سامنے نتین یاہو اور اس کی بزدل فوج کو چیلنج دیا کہ میں پریس کانفرنس کرنے کے بعد پیدل اپنے گھر جاؤں گا اور نیتن یاہو اور اسرائیلی بزدل فوج کے پاس 10 منٹ کا وقت ہے کہ قرار داد پاس کرکے مجھے نشانہ بنائیں، پوری دنیا نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے بعد یحیٰی سنوار پیدل اپنے گھر گئے؛ لیکن اسرائیلی فوج ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ نہیں لے سکی یہ پوری پریس کانفرنس اور گھر تک جانے کی ویڈیو آج بھی یوٹیوب وغیرہ پر موجود ہے، جو آپ کی بہادری و شجاعت اور شہادت کو گلے لگانے پر دلالت کرتی ہے۔ یحییٰ السنوار کی خواہش تھی کہ وہ بستر پر مرنے کے بجائے میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوں، خدا نے ان کی خواہش اور تمنا کو پورا کیا، اب وہ اپنے رب کے جوار میں پہنچ گئے ہیں، اپنے رہبر و قائد شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبد العزیز رنتیشی اور اپنے دوستوں شیخ اسمعیل ھنیہ اور صالح العروری کے پاس !

You may also like