Home نقدوتبصرہ ’یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ‘:ایک تاریخی و علمی دستاویز – نایاب حسن

’یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ‘:ایک تاریخی و علمی دستاویز – نایاب حسن

by قندیل

عربی کا مشہور شاعر ابوالطیب المتنبی اپنے ایک مصرعے میں اس حقیقت کا اظہار کر گیا ہے کہ ’’زمانے میں کتابیں ہی سب سے اچھی دوست ہوتی ہیں‘‘۔ ذرا سا غور کریں تو واقعی کتابیں انسان کی سب سے بہترین ،ساتھ ہی مخلص ترین دوست ہوتی ہیں ،ان سے نہ تو بے وفائی کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ کسی اور نقصان کا۔علم و نظر کی گیرائی اور فکر و تحقیق کی گہرائی حاصل کرنا ہو یا انفرادی و سماجی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے واقفیت کا حصول،کچھ بننا ہو یا بنانا،اس سب کے لیے مطالعے کی ضـرورت ہے۔مطالعہ زیادہ تر کتابوں کا ہی ہوتا ہے اور بعض دفعہ انسانوں کا مطالعہ بھی ضروری اور کارگر ثابت ہوتا ہے۔کچھ لوگ بعض شکلوں کو دیکھ کر ان کے اندرون میں جھانک لیتے ہیں اور کچھ لوگ محض کسی کے قدموں کی آہٹ سے اس کے مزاج و مذاق کی نوعیت تک کا پتا لگا لیتے ہیں۔مطالعہ چہرۂ ذات کا بھی ہوتا ہے اور چہرۂ کائنات کا بھی،مگر اس پر مطالعے سے زیادہ مشاہدے کا اطلاق مناسب ہے کہ اس کے اثرات آنکھ کے راستے دماغ سے زیادہ دل تک پہنچتے ہیں اور خاص کیفیتوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔اگر لفظِ’’مطالعہ ‘‘کے ماخذ و مشتق منہ پر غور کیا جائے، تومعلوم ہوگا کہ انسان پیدایش سے لے کر تادمِ آخر ’’مطالعے‘‘میں ہی مصروف رہتا ہے،گو کہ اس کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں۔البتہ مطالعہ کا رائج اور اولِ وہلہ میں ذہن پر وارد ہونے ہونے والا مفہوم ’’کتاب کا مطالعہ‘‘ہے اور اگر کسی کو کتاب کے مطالعے کا سلیقہ اور ڈھنگ آجائے ،تو اس کے لیے مطالعۂ کائنات،مشاہدۂ موجودات اور مکاشفۂ حیات ؛سب آسان ہوجاتے ہیں۔کتابوں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہوتی ہے،جہاں بیک وقت کئی دنیائیں آباد ہوتی ہیں ہیں،کئی تہذیبیں،کئی اقوام،کتنے ہی روشن و تاریک چہرے آپ کے سامنے سے گزرتے جاتے اور آپ کے ذہن و خیال پر ایک خاص اثر ڈالتے جاتے ہیں۔وہاں آپ ان لوگوں سے بھی ملتے ہیں،جنھیں عالمِ مشاہدہ میں کبھی نہیں دیکھا اور اِس دنیا میں اس کا امکان بھی نہیں،ایسے ایسے واقعات میں بھی بنفسِ نفیس شامل ہوجاتے ہیں،جو آپ کے اس دنیا میں آنے سے صدیوں قبل ظہور میں آچکے۔علمی نکات آفرینی کی صلاحیت پیدا کرنی ہے تو کتاب پڑھنی ہوگی،گفتگو کا ڈھنگ اور لکھنے کا آہنگ سیکھنا ہے تو پڑھنا ہوگا،زندگی گزارنے کا سلیقہ اور افراد و سماج کو برتنے کا اچھا طریقہ معلوم کرنا ہے،تو کتاب بینی ضروری ہے ،اپنے رنج و غم کے بوجھ کو ہلکا کرنا ہے تو کتاب کی ضرورت ہوگی،کسی کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنی ہیں،توکتاب چاہیے،کسی کو بھولنا ہے،تو بھی کتاب کا سہارا بہت کارگر ثابت ہوگا،کسی کو یادوں میں بسائے رکھنا ہے،تواس کا بہترین ذریعہ بھی کتاب ہی ہے۔الغرض کتاب میں زندگی ہے، سو زندہ رہنا ہے تو کتاب چاہیے،بغیر کتابوں والی زندگی وہ ہے،جسے ’’کالأنعام‘‘جانوروں والی زندگی کہا گیا ہے،اقبال نے انسانی زندگی سے کتاب کے لازمی و لابدی انسلاک کو یوں بیان کیا ہے:
نہیں کتاب سے ممکن تجھے فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے،مگر صاحبِ کتاب نہیں!
مگر افسوس کہ ٹکنالوجی کی بے تحاشا؛بلکہ بے محابا ترقی کے اس دور میں کتابوں کا رواج کم ہوتا جارہا ہے اور فیزیکل مطالعے کی بجاے ڈیجیٹل ریڈنگ یا آڈیو،ویڈیوبکس کا بول بالا ہو رہا ہے،اس کے اپنے فائدے بھی ہیں،مگر نقصانات زیادہ ہیں ،جس کی وجہ سے بہت سے اہلِ دانش اور کتاب قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ فکر مند ہیں۔ گلزار صاحب نے اپنی ایک مشہور نظم میں برقی کتابوں کے پھیلتے اور مطبوعہ کتابوں کے سمٹتے،سکڑتے کلچر پر منفرد انداز میں دکھ کا اظہار کیا ہے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں

——-
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے، گرنے ،اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے!
اور اسی وجہ سے سعود عثمانی نے اس صدی کو کتابوں سے عشق کی آخری صدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے‘‘۔
ایسے ماحول میں نئی نسل کو فیزیکل مطالعے یعنی ورقی اور مطبوعہ کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دینا بلاشبہ ایک کارِ خیرہے اور ایسی ہر کوشش لائقِ تحسین اور قابلِ تشجیع ہے۔ایسی ہی ایک بہت عمدہ کوشش پڑوسی ملک کے معروف عالم دین و صاحبِ طرز اہلِ قلم مولانا ابن الحسن عباسی نے کی ہے۔انھوں نے اپنے زیر ادارت شائع ہونےوالے ماہنامہ’’النخیل‘‘کا ایک خاص ضخیم نمبر ’’یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ‘‘کے عنوان سے نکالا ہے۔ زیر تذکرہ مجموعے میں اَسی سے زائد ہندوپاک کے موجودہ بڑے بڑے اہلِ علم و دانش کا احوالِ مطالعہ جمع کیا گیا ہے اور اس کی صورت انھوں نے یہ اختیار کی تھی کہ متعلقہ شخصیات کو ان کی مطالعاتی زندگی سے متعلق چند سوالات لکھ کر بھیجے اوران کے جواب میں انھوں نےمضمون کی شکل میں تحریر ارسال فرمادی،اس طرح سوا آٹھ سو سے زائد صفحات میں بڑا قیمتی علمی سرمایہ جمع ہوگیا ہے۔تمام شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اپنے مطالعے کا احوال،طریقہ اور نئی نسل کی رہنمائی کے سلسلے میں قیمتی نکات شیئر کیے ہیں۔ چند ایک کے استثنا کے ساتھ اکثر لکھنے والے مدارس و جامعاتِ دینیہ کے اساتذہ وفضلا ہیں سو ان کے پسندیدہ مصنفین میں عموماً یکسانیت پائی جاتی ہے،البتہ ان میں سے کچھ لوگ جو باقاعدہ تحریر و انشا کا بھی ذوق رکھتے ہیں ،ان کے دائرۂ مطالعہ میں خاصی وسعت ہے اوراردو میں مولانا آزاد،عبدالماجد دریابادی،مولانا مناظر احسن گیلانی ،مولانا مودودی ،مولانا منظور نعمانی،مولانا وحیدالدین خان، مولانا علی میاں ندوی و شورش کاشمیری سے ہوتے ہوئے مرزا فرحت اللہ بیگ، کرشن چندر،پریم چند ، قرۃ العین حیدر،مشتاق یوسفی،مستنصر حسین تارڑ،شفیق الرحمن، ابن انشا،نسیم حجازی،عنایت اللہ التمش،شاعروں میں غالب، اقبال، میر، مومن، داغ، ذوق اور دیگر بہت سے قدیم و جدید شعرا و نثر نگاروں تک پھیلا ہوا ہے،جبکہ عربی ادب کے جدید و قدیم اہم ادبا و مصنفین بھی ان کی مطالعاتی لسٹ میں شامل ہیں۔ مولانا جلال الدین عمری ، مولانا رابع حسنی ندوی، مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی،مولانا ولی رحمانی ، عطاء الحق قاسمی،مولانابدرالحسن قاسمی،مولانا تقی عثمانی،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،محمد متین خالد، مولانا محمد اسلام قاسمی،ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر،مولانا ندیم الواجدی،مجیب الرحمن شامی ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور سید سعادت اللہ حسینی وغیرہ کی مطالعاتی زندگی کی رودادیں خاصی دلچسپ ہیں ۔ کچھ مضامین بھرتی کے بھی ہیں ،ایک آدھ میں غیر ضروری دراز نفسی بھی در آئی ہے،مگر من حیث المجموع بیشتر اہلِ قلم کے مضامین بالکل ٹو دی پوائنٹ اور مدیر کے سوال نامہ کی ترتیب کی روشنی میں لکھے گئے ہیں اوران میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ اس مجموعے کا دیباچہ جسے مولانا عبدالمتین منیری نے لکھا ہے اور مطالعہ کے طریقہ و سروکار پر جو فاضلانہ گفتگو کی ہے،وہ خاصے کی چیز ہے۔’’النخیل‘‘کے معاون مدیر مولانا محمد بشارت نواز نے اپنے مضمون میں مطالعے کے تعلق سے اردو زبان میں اب تک شائع شدہ کتابوں ،رسالوں کا اچھا تعارفی تجزیہ پیش کیا ہے۔آخر میں مولانا عبید اختر رحمانی کا مضمون ’’مطالعہ کے اصول و آداب‘‘،مفتی عبید انور شاہ قیصر کا’’مطالعہ کی اہمیت،اصول اور طریقۂ کار‘‘اور مولانا سراج الدین ندوی کا’’بچوں میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں؟‘‘بہت اچھے مضامین ہیں اور خصوصاً جو لوگ اپنے اندر مطالعے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں اور شاگردوں کو اس راہ پر لگانا چاہتے ہیں،انھیں ضرور پڑھنا چاہیے۔
نئی نسل کو کتابوں سے مربوط کرنے اور مطالعے کی عادی بنانے کے لیے مولانا ابن الحسن عباسی اور ان کے رفقا نے نہایت گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے اور بہت سے موجودہ اہلِ علم و دانش کے تجربات ،مشاہدات ،ملاحظات اور ہدایات کو یکجا کردیا ہے،جس سے اصحابِ توفیق خاطر خواہ مستفید ہوسکتے ہیں اور نتیجہ خیز علمی و مطالعاتی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بھی مفید ہے ،جو پہلے سے مطالعے کے عادی ہیں اور کتابوں کی ہم نشینی میں رہتے ہیں ؛کیوں کہ اس میں بہت سی کتابوں کے بارے میں لکھنے والوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے،آپ اپنے مطالعے کی روشنی میں ان کی رایوں کا جائزہ لے سکتے ہیں،تنقید و محاکمہ کر سکتے ہیں اور استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔ایک چیز البتہ ذاتی طورپر میرے لیے باعثِ قلق ثابت ہوئی کہ اس میں مدیرِ رسالہ مولانا ابن الحسن عباسی کی محض دوصفحے کی تحریر ہے،وہ بھی اس مجموعۂ مضامین سے متعلق ۔میں اس امید میں تھا کہ مطالعہ اور کتابوں کے حوالے سے ان کا ایک بھر پور مضمون اس کتاب میں پڑھنے کو ملے گا۔ان کے طرزِ تحریر میں ایک خاص نوع کی شوخی و شیرینی پائی جاتی ہے اور معلو مات کی فراوانی بھی۔ اکابر علما و مفکرین کی علمی زندگیوں اور ان کے نزدیک وقت کی قدرو قیمت کے حوالے سے ان کی مشہور کتاب’’متاعِ وقت اور کاروانِ علم‘‘میں نے بارہا پڑھی ہے اور ہر بارنئی لذت محسوس کی ہے۔اِس کتاب میں اگر وہ اپنے مطالعاتی سفر کی روداد بھی شامل کرتے ،تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
بہر کیف موجودہ شکل میں بھی یہ کتاب غیر معمولی اہمیت و افادیت کی حامل ہے۔ہندوستان میں اس کی طباعت مکتبہ النور و مکتبہ الانور،دیوبند کے زیر اہتمام اور مرکزی پبلی کیشنز ،دہلی کی معرفت ہوئی ہے۔ ٹائٹل نہایت عمدہ و نفیس ہے اورکاغذخوب صورت استعمال کیا گیا ہے، اندر کی ترتیب و پیش کش میں بھی حسن کاری و جمال آرائی کو خاص طورپر ملحوظ رکھاگیا ہے۔ اتنے اعلیٰ معیار پر چھپی ہوئی سوا آٹھ سو صفحے کی کتاب کی (عام ) قیمت آٹھ سو روپے بھی بہت زیادہ نہیں ہے،مگر ناشرین نے خصوصی رعایت کرتے ہوئے اس کی قیمت محض چار سو روپے رکھی ہے،علم و کتاب کا ذوق رکھنے والے اور کتب بینی کے عادی یا اسے اپنے معمولات کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہر شخص کو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ؛بلکہ اس وقت اچانک مجھے گلزار کی منتخب غزلوں ،نظموں ،گیت اور تروینی کے مجموعے (مرتب:گلشیر بٹ) پر پڑوس کے معروف رائٹر انور سن رائے کے تبصرے کا ایک خوب صورت اقتباس یاد آ رہا ہے،جومیرے خیال میں اس کتاب پر بھی حرف بہ حرف صادق آ تا ہے کہ ’’ یہ کتاب پڑھنے ہی کی نہیں، مسلسل پڑھنے، دیکھنے اور رکھ کر بھی خوش ہونے کی ہے۔‘‘
کتاب حاصل کرنے کے لیے مولانا بدرالاسلام قاسمی سے ان نمبرات9045909066,9456422412:پر رابطہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ بھی صاحبِ تصنیف ہیں،تو عمدہ و معیاری طباعت کے لیے مرکزی پبلی کیشنز ،دہلی کے سربراہ مولانا فیروز اختر قاسمی سے اس نمبر9811794822پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment