Home تجزیہ یاد رہے رمضان کا پیغام-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یاد رہے رمضان کا پیغام-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

ایک ماہ کے روزوں کے بعد آپ عید کی خوشیاں منارہے ہوں گے ۔ اس ماہ کے تین عشروں (رحمت، مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات) میں آپ نے اپنے رب کو خوب راضی کیا ہوگا ۔ لیلۃ القدر کی تلاش میں طاق راتیں خدا کی عبادت میں جاگ کر گزاری ہوں گی ۔ یقیناََ آپ بخشے بخشائے عیدگاہوں سے اپنے گھروں کو واپس آئیں گے ۔ روزے کی برکتیں اور اللہ کی رحمتیں امید ہے سال بھر فحش ومنکرات، غیبت و منافقت اور گناہوں سے بچانے میں ڈھال کا کام کریں گی ۔ اس دوران آپ نے اس بات پر غور کیاہوگا کہ رمضان کے روزوں کو اسلام میں اتنی اہمیت کیوں حاصل ہے اور کیا وجہ ہے کہ اللہ کے رسول شعبان سے ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع کردیتے تھے ۔

آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ۔ قرآن ہم نے تراویح میں سنا اور خود بھی اس کی تلاوت کی ۔ توقع ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش بھی ضرور کی ہوگی ۔ بتادیں کہ قرآن کے نزول کی تمام انبیاء نے خدا سے دعا کی ہے ۔ یہ دعا قرآن کی پہلی سورۃ، سورہ فاتحہ کی شکل میں موجود ہے ۔ جس میں سات آیتیں ہیں ۔ اللہ کی حمدوثنا کے بعد رب سے دعا کی گئی ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھے راستہ پرچلا ۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تونے انعام فرمایا اور ان لوگوں کے راستے سے بچا جن پر تیرا غضب نازل ہوا ۔ سنسکرت شودھ سنستھان کے ڈاکٹر حنیف خان کے بقول گایتری منتر سورۃ فاتحہ کا ہی سنسکرت ترجمہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی آسمانی کتاب یا صحیفہ نازل ہوا یا کوئی مصلح، انبیاء یا پیغمبر آئے ان سب نے رب العالمین سے یک زبان یہی دعا فرمائی جس کے نتیجہ میں اللہ نے اپنے آخری نبی پر یہ کتاب نازل کرکے دنیا کو سیدھا اور کامیابی کاراستہ دکھایا ۔ اس لیے قرآن کو کتاب ہدایت بھی کہا جاتاہے ۔

قرآن سماج سے نابرابری کو ختم کرنے کے لیے وسائل کی تقسیم میں سب کی حصہ داری کو یقینی بنانا چاہتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ سماج کی ساری دولت اور وسائل چند ہاتھوں میں محدود ہوجائیں اور باقی انسان اس سے محروم ۔ قرآن کے مطابق سماجی نابرابری سماج میں فساد کا سبب بنتی ہے ۔ اس کو روکنے کے لیے زکوٰۃ کو فرض (لازمی) کیاگیا ہے ۔ یہ کھیتی اور فصل پر بھی لازمی ہے ۔ زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے لیکن صدقہ فطر ہر صاحب نصاب کے لیے عید کی نماز سے پہلے نکالنا ضروری ہے تاکہ غریب، نادار، کمزور اور بے سہارا لوگ بھی عید کی خوشیوں میں سب کے ساتھ شامل ہوسکیں ۔ قرآن کسی بھی طرح کے ظلم وزیادتی کو سماج میں جڑ پکڑنے نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ایسے عمل کی بھی نفی کرتا ہے جس سے کسی کو بھی تکلیف پہنچے ۔ مثلاً وعدہ خلافی، کم تولنا، کم ناپنا اچھے مال کی قیمت پر خراب سامان دینا، ملاوٹ، چوری، دھوکہ وفریب، نام بگاڑنا، گالی دینا، رنگ، نسل، قبیلہ یا مذہب کا نام لے کر چڑھانا وغیرہ ۔ اس سے انسانوں میں غصہ اور تناؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک دن بغاوت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔

قرآن انسانوں کو حدود میں رہنے اور صبر کرنے کی نصیحت کرتا ہے ۔ اس نے سب کے حق مقرر کئے ہوئے ہیں ۔ مثلاً والدین کے، پڑوسیوں کے، سماج کے، بچوں کے، شوہر بیوی کے یہاں تک کہ پالتو جانوروں کے حقوق بھی بتائے گئے ہیں ۔ دراصل وہ فطرت کے خلاف کسی بھی عمل کی اجازت نہیں دیتا ۔ کوئی اپنی طاقت، دولت، اقتدار، حسن یا اولاد پر گھمنڈ کرے، یہ رب کو منظور نہیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ اپنے رب سے ڈرو کیوں کہ تمہیں اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔ جو اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے، اسے قرآن متقی کہہ کر پکارتا ہے ۔ روزہ رب کی اطاعت، اس کی پسند نا پسند اور راضی کرنے کی ٹریننگ ہے تاکہ آئندہ گیارہ ماہ اسی تربیت کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔

پورا مہینہ آپ نے اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ۔ ان تمام جائز چیزوں کو کھانے پینے سے رکے رہے جو حلال تھیں ۔ ایسے کسی بھی عمل سے پرہیز کیا جس سے روزہ خراب ہوسکتا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ کے گیارہ مہینے اسی سوچ کے ساتھ ہمیں گزارنے چاہئیں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے غور کریں کہ اس سے ہمارا رب ناراض تو نہیں ہوگا ۔ جس طرح رمضان میں ہر ہر عمل کو کرنے سے پہلے خیال کیا جاتاہے ۔ یہاں ٹھہر کر یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ ایک ماہ کے روزوں کی تربیت کے نتیجہ میں ہماری زندگی میں کیا تبدیلی آئی ۔ کیا ہمارا قلب کمزوروں، ناداروں، بے سہارا، یتیموں، عورتوں، بچیوں اور عام انسانوں کے لیے نرم ہوا ۔ کیا ہم پہلے سے زیادہ معاف کرنے والے، درگزر اور صبر کرنے والے بنے ۔ کیا گلے مل کر ہم نے پرانے گلے شکوؤں کودور کیا ۔ دل توڑنے کے بجائے دل جوڑنے والے بنے ۔ کیا تکلیف دینے کے بجائے راحت پہنچانے والے بننے کا عہدکیا ۔ رب کا شکر ادا کیا، نبی کی اطاعت کرنے والے بنے ۔ کیا سابق میں ہوئی غلطیوں کو آئندہ نہ دوہرانے کا من بنایا ۔ کیا اب اپنے رشتہ داروں، والدین، بچوں، عام انسانوں اور اللہ کا حق اداکرنے والے بنیں گے ۔ اس کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے جس کیلئے خدا نے ہمیں خیرامت کا لقب عطا کیا ہے۔ یا پھر اب بھی ہماری زندگی ایسے ہی گزرے گی، جیسے پہلے گزرتی رہی ہے۔ روزوں کے آنے جانے کا کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ رمضان میں روزے رکھ لیے لیکن عید کے بعد سے وہی سارے کام شروع کردیے جو اللہ کو ناپسند ہیں ۔ تو بھلا روزہ کیسے ڈھال بنے گا؟ کیسے ہماری زندگیوں میں اس کی رحمتوں اور برکتوں کا اثر نظرآئے گا؟۔

انسان عجب شے ہے خود غلطی کرتا ہے لیکن الزام دوسروں کے سرمڑھتا ہے۔ عید کے دن سنیما ہالوں کے باہر ٹوپی والوں کی بھیڑ اس کی مثال ہے ۔ پوچھیے گا تو کہیں گے کیا بتائیں شیطان پیچھے لگا ہے ۔ جبکہ قرآن کی ابتداء میں ہم اللہ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور آخری سورۃ الناس میں اللہ سے پناہ مانگتے ہیں شیطان مردود کے وسوسوں سے، یہ شیطان انسان ہو یا جنات ۔ فلسطین میں ہزاروں اہل ایمان، نوجوان، بچے خواتین، شہید کر دیے گئے لیکن دنیا تو چھوڑیے مسلم ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ جبکہ اسلام ملت کو ایک جسم کی طرح بتاتا یے ۔ اگر جسم کے کسی حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس سے بے چین ہو جاتا ہے ۔ اپنا محاسبہ کریں کیا ہم غزہ کے مسلمانوں کی تکلیف محسوس کر رہے ہیں؟ فلسطین تو دور ہے ہم تو اپنے ملک میں کسی انسان، مسلمان پر ہو رہی زیادتی کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے نہیں ہو پا رہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مسجدوں کو بھی ذات اور برادریوں کے نام سے بانٹ رکھا ہے ۔ مغربی اترپردیش میں مسجدوں کو کلالوں، نائیوں، جولاہوں، قصائیوں، سقوں، فقیروں، لوہاروں سلفیوں، شیخ زادوں، پنی گروں، نیاریوں یہاں تک کہ ہیجڑوں کے نام سے موسوم کیا ہوا ہے ۔ مسجد تو خدا کا گھر ہے تو پھر اس کے یہ نام کس نے رکھے جبکہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہرالعلوم سہارن پور جیسے دینی ادارے اسی مغربی اترپردیش میں موجود ہیں ۔ اسلامی اداروں کی موجودگی میں مسلمان برادریاں بن کر کیوں رہ گئے، یہ کیسے ہوا ۔ مسجد میں تو لگتا ہے کہ سب مسلمان ہیں لیکن مسجد سے باہر نکلتے ہی مسلمان یا توکسی برادری کا ہو جاتا ہے یا پھر کسی مسلک کا ۔ یہ تفریق کس نے پیدا کی۔ دوسرے تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہماری صفوں میں اتحاد ہے لیکن یہ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمان کتنے متحد ہیں ۔

عید کی خوشی ضرور منائیں وہ آپ کا حق ہے ۔ لیکن عید کی خوشی میں رمضان کی تربیت اور قرآن کے سبق کو ہمیں نہیں بھولنا چاہئے۔ عید کی شکل میں خدا نے موقع دیا ہے کہ ہم رشتہ داروں، پڑوسیوں اوراہل وطن سے اپنے تعلقات کو استوار کریں ۔ انہیں اپنے کردار سے روزے اور قرآن کی اصلی تصویر دکھائیں ۔ ان کی رائے تبھی بدلے گی جب آپ خیرامت ہونے کا اپنا حق اداکریں گے۔ رمضان میں اگر ہم اپنی زندگی بدلنے میں کامیاب ہوئے ہیں تواس کا اثر آئندہ کے گیارہ مہینوں میں ضرور نظرآئے گا اورروزہ ہمارے لیے ڈھال کاکام کرے گا لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہم روزے کے سبق کو ہر لمحہ یاد رکھیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like