Home قومی خبریں شعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی میں ’’یادِ متین‘‘ کا انعقاد

شعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی میں ’’یادِ متین‘‘ کا انعقاد

by قندیل

میرٹھ:ہم جب اپنے بزرگوں کو یاد کرتے ہیں تو در اصل اپنے زندہ ہو نے کا ثبوت دیتے ہیں۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری اور ذکی طارق صاحب نے متین طارق باغپتی کی یاد میں آج کی محفل منعقد کر کے بہت اہم فرض کی ادائیگی کی ہے۔ متین طارق ایک اہم کلا سیکی شاعرو ادیب تھے۔ اسلامی فکر اور بہترین انسانی اقدار کے فروغ کے لیے وہ تمام عمر کو شاں رہے۔ یہ الفاظ تھے معروف شاعر اور دہلی اردو اکا دمی کے چیئر مین پروفیسر شہپر رسول کے جوباغپت کے معروف اور ہر دلعزیز شاعر اور درجنوں کتابوں کے مصنف اور مشہور دانشور متین طارق باغپتی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور متین طارق باغپتی تعلیمی مرکزکے مشترکہ اہتمام میں منعقد ’’یادِ متین‘‘ پروگرام میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ متین طارق باغپتی کی فکر اور ان کے عمل میں مطابقت تھی گویا وہ فکر کو اپنے عمل سے آئینہ کرنے والے فن کار تھے۔

اس سے قبل پروگرام کا آ غاز نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ بعد ازاں شعبے کی طالبہ فر حت اختر نے ہدیۂ نعت پیش کیا۔اس دوران مہمانوں کا پھولوں سے استقبال کیا گیا۔ پروگرام کی سر پرستی مولانانورالحسن راشد کاندھلوی(مؤرخ و محقق اسلامیات) نے فر مائی۔ صدارت کے فرائض معروف شاعر اور دہلی اردو اکادمی کے چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے انجام دیے۔ مہمانان خصوصی کے بطورپروفیسر عراق رضا زیدی (سابق صدر شعبۂ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی) اور شاہد منظور (ایم ایل اے ، کٹھور) شریک ہو ئے اور مہمان ذی وقار کے بطورڈاکٹر معراج الدین احمد (سابق وزیر حکومت اتر پردیش) نے شر کت کی ۔مقالہ نگاران کے طور پرمحترم اسرار الحق اسرارؔ (کٹھو)،ڈاکٹر محمد مستمر (دہلی یونیورسٹی) ،ڈاکٹر خان محمد رضوان (دہلی)شریک ہو ئے اور مقررین کی حیثیت سے ڈاکٹر معصوم رضا عشروی (دہلی)،ڈاکٹر ابراہیم افسر (دہلی) شریک ہو ئے۔ استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم،نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب (دہلی) اورشکریے کی رسم محمد علی علوی (مظفر نگر)نے ادا کی۔

اس دوران ڈاکٹر مستمر کی مرتب کردہ کتاب’’متین طارق کا جہان ادب‘‘ کا اجراء بھی مہمانان کے ہاتھوں عمل میں آ یا۔

استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر شاداب علیم نے کہا کہ سر زمین باغپت نے ایسی نابغۂ روز گار ہستیوں کو جنم دیا جن کے ذکر کے بغیر اردو شعر و ادب کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ اسی ادبی سر زمین نے متین طارق باغپتی جیسی علمی و ادبی شخصیت پیدا کی جن کی ادبی، ثقا فتی اور تہذیبی اقدار کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔متین طارق باغپتی ایک کثیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ وہ ایک کامیاب معلم، ممتاز تخلیق کار،بہترین نثر نگار اور اعلیٰ پائے کے فن کار کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے تھے۔ جنہوںنے تمام زندگی عوام اور سماج کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردی تھی۔

اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد مستمر نے کہا کہمتین طارق ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جونابغۂ روز گار ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ قلندرا نہ طبیعت کے حامل رہے اور یہ قلندرا نہ اوصاف اور صو فیانہ طرز عمل ان کی شاعری میں بھی جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعر بالخصوص نظموں کے ذریعے امت مسلمہ کو جگانے کا کام کیا ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ان کی نثر نگاری کی خاص خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بات عوام خاص طور پر خوا تین تک پہنچانے کے لیے عام فہم اور سادہ انداز بیان اختیار کیاہے۔نثر ہو یا نظم دو نوں حوا لے سے انہیں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ابراہیم افسر نے متین طارق کی اس جہد کو منکشف کیا جو تنقیدسے وابستہ ہے۔متین طارق کی تنقیدی کتاب’’ اردو شاعری کے روشن چراغ‘‘ کے تناظر میں ابراہیم افسر نے کہا کہ متین طارق کی تنقیدی تحریریں گنجلک اور ابہام سے بعید ہیں۔ متین طارق کی تنقیدی تحریروں کو اگر عملی تنقید سے تعبیر کرلیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کی تنقید میں تاثراتی رنگ کے ساتھ شگفتگی اور انتقاد کے پہلو کار فرما رہتے ہیں۔

پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ متین طارق باغپتی کا کلام ان کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری فنی اعتبار سے۔ افکار و نظریات کے اعتبار سے اہم شاعری ہے۔متین طارق باغپتی ایک ستارہ تھے جس کی روشنی اندھیروں کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی ان کی نسل میں سے ان کے بیٹے بیٹیاں، پوتے، پوتیاں تعلیم حاصل کر کے اس روشنی کو پھیلا نے کا کام کررہے ہیں۔

پرو فیسر عراق رضا زیدی نے کہا کہ اردو تہذیب کا نام ہے۔جس تہذیب کو متین طارق باغپتی نے آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔ عصر حاضر میں بہت سے شعرا بغیر مطالعے کے شاعری کرتے ہیں لیکن متین طارق باغپتی کی شاعری کے لیے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔متین طارق باغپتی نے عصر حاضر کے مسا ئل کو1967ء میں ہی اپنی شاعری میں پیش کردیے تھے جو آج کے مسائل محسوس ہوتے ہیں۔

متین طارق باغپتی کسی شخص کا نام نہیں بلکہ ایک شخص، ایک ادارے اور ایک فکر کا نام ہے۔ ایسے شخص اگر سماج میں جس طرف بھی چل پڑتے ہیں اپنی روشنی سے ماحول کو منور کردیتے ہیں۔ متین طارق باغپتی کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ایک بہتر انسان بھی بنانا تھا۔ ایسی خوبیاں بہت کم انسانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسلامیات پر مشتمل ان کی کتابیں بچوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی کتابیں پڑھ کر سیکڑوں نہیں ہزاروں بچے اچھے انسان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈاکٹر ذکی طارق نے کہا کہ آج مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ گذشتہ چھ ماہ سے میں والد صاحب کی کتاب کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ میں نے اور ڈاکٹر مستمر نے اب سے چھ ماہ قبل ’’یاد متین‘‘ کو کامیاب بنانے کی کوشش کی تھی۔لیکن جیسے ہی قدم آگے بڑٖھا ئے تو کامیابی ملتی چلی گئی جس کا خوبصورت نتیجہ آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔میں تعاون کے لیے پروفیسر اسلم جمشید پوری اور ان کی پوری ٹیم کا شکر گزار ہوں جن کی بدولت یہ خوبصورت جشن منعقد ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر فرحت خاتون، ڈاکٹر معراج الدین احمد، اسرار الحق اسرار نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

You may also like