( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
بدھ ۲۰ ، ستمبر ۲۰۲۳ء کی تاریخ کو ہندوستان میں ، اقتدار میں خواتین کی ساجھیداری کے حوالے سے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے ، اور یہ اس معنیٰ میں تاریخی ہے بھی کہ لوک سبھا نے ایک ایسے بِل کو منظوری دی ہے ، جس کے تحت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی ۳۳ فیصد ہو سکے گی ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ بِل واقعی میں اس ملک کی تمام خواتین کو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں نمائندگی کا حق دیتا ہے ؟ تمام خواتین سے مراد ۳۳ فیصد کی وہ تعداد ہے ، جس کی صراحت منظور کیے گیے بِل میں کی گئی ہے ۔ پہلے یہ جان لیں کہ اس بِل کی منظوری کو پورے ۲۷ سال لگے ہیں ! پہلی بار اسے ، کانگریس کے تعاون سے وجود میں آئی ’ نیشنل فرنٹ ‘ کی حکومت میں ، جب دیوے گوڑا وزیر اعظم تھے ، ۱۹۹۶ء میں پیش کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی جب وزیر اعظم تھے تب تین بار اسے منظور کرانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ جب ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے کانگریس کی یو پی اے کی حکومت نے اس بِل کو راجیہ سبھا میں منظور تو کرا لیا تھا ، لیکن یہ بِل لوک سبھا میں منظور نہیں ہوسکا تھا ۔ منظور نہ ہونے کا سبب تین یادو لیڈر تھے ، ملائم سنگھ یادو ، لالو پرساد یادو اور شرد یادو ۔ تینوں نے بِل کی شدت سے مخالفت کی تھی ، اس بنا پر کہ بِل میں او بی سی کو ، اسان لفظوں میں کہیں تو پچھڑے طبقات کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ یادو لیڈران کا مطالبہ تھا کہ او بی سی کو بِل میں شامل کرکے ریزرویشن دیا جائے ۔ تو اس بِل کو منظور کرانے کی ، خواتین کی گذشتہ ۲۷ برسوں کی جدوجہد بدھ کو کامیاب ہوئی ، اور خواتین کے لیے بِل کی منظوری ایک تاریخی جیت بن گئی ۔ یہ سچ ہے کہ جب ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ملک کا آئین بنا رہے تھے ، تب آئین ساز اسمبلی میں خواتین کی سیاسی نمائندگی کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا ۔ آئین ساز اسمبلی میں جو خواتین ممبران تھیں ان کا یہ ماننا تھا کہ ریزرویشن سے ان کی نمائندگی متاثر ہوگی ، اور انہیں اُن کی اہلیت کے مطابق مواقع فراہم نہیں ہو سکیں گے ۔ آئین ساز اسمبلی کی ایک رکن رینوکا رائے نے کہا تھا کہ مستقبل میں خواتین کی نمائندگی بڑھے گی ، اور اُنہیں اُن کی اہلیت کے مطابق مواقع ملیں گے ۔ مگر ہوا اِس کے برعکس ۔ خواتین کی نمائندگی آبادی کے لحاظ سے گھٹتی رہی ، خواتین خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتی رہیں ، اور ان کی طرف سے بِل کی منظوری کے لیے مستقل دباؤ بنایا جاتا رہا ۔ کانگریس میں سیاسی عزم کا فقدان تھا ، اس نے حلیف سیاسی جماعتوں کو ناراض کرنے سے خود کو بچائے رکھا ، ورنہ یہ بِل ۲۰۱۰ ہی میں منظور ہوجاتا ۔ اب اس بِل کو منظور کرانے کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے سر ہی بندھے گا ، بھلے کانگریس کتنا ہی کہے کہ یہ بِل اس کا بنایا اور لایا ہوا ہے ۔ کانگریس کی حکومت میں جب یہ بِل پیش کیا گیا تھا تب اس میں او بی سی کو شامل نہیں رکھا گیا تھا ، مودی حکومت نے من و عن وہی بِل پیش کرکے منظور کرالیا ہے ۔ مطلب یہ کہ اس میں اب بھی او بی سی شامل نہیں ہے ۔ سونیا گاندھی اور ان کے صاحب زادے راہل گاندھی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس میں او بی سی کی شمولیت ہو ۔ کَل کی غلطی اگر آج کوئی سدھارنا چاہے تو کچھ بُرا نہیں ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ او بی سی کی بات کرنے والوں نے مائنارٹی یعنی اقلیت کی بات کیوں نہیں کی؟ کیا اقلیت میں خواتین کی حیثیت اتنی بہتر ہے کہ انہیں کسی طرح کے ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے؟ صرف اسد الدین اویسی اور ان کی ہی پارٹی کے دوسرے رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے او بی سی کے ساتھ مسلم خواتین کی بات کی ، اور بِل میں انہیں شامل نہ کرنے پر بِل کے حق میں ووٹ دینے سے احتراز کیا ۔ اقلیت میں صرف مسلمان نہیں ہیں دیگر فرقے بھی ہیں ، لیکن بات جب اقلیت کی ہوتی ہے تو اسے مسلمانوں سے جوڑ کر تمام اقلیت کے حقوق پامال کر دیے جاتے ہیں ۔ ویسے دیگر اقلیتوں کا تو کسی طرح بھلا ہو بھی جاتا ہے مسسلم اقلیت نقصان میں رہتی ہے ، اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ اس بِل میں او بی سی اور اقلیت کو شامل نہ کرنا یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ کیا خواتین ریزرویشن بِل میں ملک کی تمام خواتین کے حقوق کا مذہب ، ذات پات اور امیری و غریبی کی تفریق کے بغیر ، لحاظ رکھا گیا ہے؟ جواب سامنے ہے ، اور ’ نہیں ‘ میں ہے ۔ ملک کی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اس بِل کے ذریعے ملنے والے تحفظات سے محروم رہے گی ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یہ بِل بھلے خواتین کو اقتدار میں ساجھیداری دلانے کے لیے ایک تاریخی قدم ہو ، یہ اپنے آپ میں نامکمل ہے ۔ جب تک اس میں او بی سی اور اقلیت کو شامل نہیں کیا جاتا اس بل کے مقاصد بس کھوکھلے دعوے ہی رہیں گے ۔ ایک اہم بات یہ کہ یہ بل منظور تو ہو گیا ہے مگر اس پر عملدرآمد ۲۰۲۹ء تک ہی ممکن ہو سکے گا ۔ یعنی خواتین کو ابھی چھ سال مزید انتظار کرنا ہوگا ! کیا خواتین سے یہ مودی حکومت کا مذاق نہیں ہے ؟ وہ اس بِل کی منظوری کا سیاسی فائدہ تو اٹھائیں گے ، مگر جن کے فائدے کے لیے اسے منظور کیا گیا ہے وہی فائدے سے محروم رہیں گی ۔ کیوں نہ اس بِل پر ابھی سے عمل شروع کر دیا جائے ؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)