Home ادبیاتطنز و مزاح وجود زن سے ہے تصویر کائنات ہی’ بھنگ؟‘-سید صفوان غنی

وجود زن سے ہے تصویر کائنات ہی’ بھنگ؟‘-سید صفوان غنی

by قندیل

عنوان بالا میں صرف ایک سوالیہ نشان ہی وہ واحد حرکت ہے جس کی بنیاد پرمختلف دفعات ہندسے بچا جا سکتا ہے۔ اس سوالیہ نشان کےنہ ہونے کی صورت میںفیمنسٹ تحریک کاروں کی طرف سے دو چار ایف آئی آر ہونے کا غالب امکان تھا۔میں نےسوالیہ نشان اور علامت استعجاب کا استعمال کرکے اپنے دل کی بات کہہ جانے کا "ہنر” نیوز چینلوں سے سیکھا ہے۔آپ کچھ بھی خطرناک ،ہولناک ،زہر ناک لکھیں، بس آخر میں سوالیہ نشان یا علامت استعجاب لگانا نہ بھولیں۔
بیف کھائو گے تو جان سے جاؤ گے؟
بھارت میں ہندو راج کرے گا…تبھی کشمیر شانت رہے گا؟
جنم بھومی ہماری، رام ہمارے، مسجد والے کہاں سے پدھارے؟
مندرجہ بالا تینوں جملوں کے کردار بالکل حقیقی ہیں۔ ان کا فرضی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تینوں جملے جنہیں نیوز کی زبان میں ّ”ٹکرس ” کہا جاتا ہےمشہور بدنام زمانہ چینل” آج تک "کے پرائم ٹائم شو کا حصہ ہیں۔ ان سرخیوں کے ذریعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کیسےپامال کیا جا سکتا ہے اس کا ہنر سکھایا گیا ہے۔
خیر میں بھی کہاں اپنے اصل موضوع سے بھٹک گیا۔ عورت پر بات کرنی تھی، صحافت کی بات چل نکلی۔ویسے عورت اور صحافت صرف ہم قافیہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ ہم سیرت اور ہم آہنگ بھی ہیں۔دونوں کا پیشہ پیغام رسانی ہے، دونوں ہی خبروں کی ترسیل کے ایسے ذرائع ہیں جن پر اعتماد کرناانسان کے اپنے صواب دید پر منحصر کرتاہے ۔دونوں ہی جگہ سند اور روایت کے نصوص کی دریافت تقریبا ناممکن ہے۔بعض مرتبہ تو بس "sources”کہہ کر ہمیں تجسس میں ڈال دیا جاتاہے تاکہ ہم اس ” مخبر ” کو جاننے کے لیے تڑپتے رہیں۔آپ سوچ رہیں ہوں گےیا شاید سمجھ چکے ہوں گے کہ "ہم” اور "ہمیں” لفظ کا مخاطب کون ہے۔”ہم” اور” ہمیں” لفظ کی مخاطب وہی مظلوم قوم ہے جو بنی تو قوام تھی لیکن دور جدید کی ستم ظریفی نے اسے ثریا سے زمیں پر دے مارا ہے۔بلکہ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جنہیںرب ذو الجلال نے الرجال قوامون علی النساء”کہا تھا انہیں "ثریاؤں "نے زمین پر دے مارا ہے۔”ثریاؤں” سے کیا گلہ، خود اپنے ہم جنس سخنور حضرات بھی ہماری مٹی پلید کرنے پر تلے ہیں۔ملاحظہ ہو یہ مصرع : "تمام پیکرِ بدصورتی ہے مرد کی ذات”۔اب اگر ایسی شاعری کوئی مردہی کرنے لگے تو اس کی دو وجہ ہو سکتی ہے۔یا تو مابعد جدیدیت سے ہوتے ہوئے ہم دور نسائیت میں داخل ہو چکے ہیں یاپھر شاعر صاحب اپنی ذات کو بدصورتی کا پیکر بتا کر کسی خوبصورتی کے پیکر کی توجہ چاہتے ہیں۔ویسے مجھےاس نئی قسم کی انکساری سے اختلاف ہے۔شاعری میںیہ روایت چل پڑی تو پھر کوئی دانشور خود کو گدھا کہنے لگے گا اورکوئی صاحبِ جمال شاعر خود کو کوا لکھ بیٹھے گا۔
دور حاضر ایک نازک دور ہے۔ایک شخص کو الفاظ کے انتخاب میں محتاط رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک خاوند کا پوچھا کی ہوئی زمین پر قدم مبارک پڑنے سے بچنا۔ایک بار میرا پا ؤں پوچھا زدہ علاقہ میںجا نکلا۔ فورا ایک کرخت آواز آئی۔۔رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں۔۔ میں معافی طلب نگاہوں سے بس اتنا ہی کہہ سکا :
نہیں رکھنے دیتے جہاں پاؤںہم کو
اسی آستانے پہ سر دیکھ لینا
خیر تو میں کہہ رہا تھا الفاظ کے انتخاب میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔آپ اگر اپنی اہلیہ کو Better Halfکہہ دیں تو "دانشوران ِجدید”عورت کو "half”کہنے پر اعتراض کر سکتے ہیں۔اس لیے better halfکے بجائےbetter fullکی نئی اصطلاح خود ہی وضع کر لیجیے۔میرے خیال میں Bitter fullبھی مناسب اصطلاح ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ betterکو کچھ یوں ادا کریں کہ bitterکی ادائگی بھی ہو جائےاور آپ گرفت میں بھی نہ آئیں۔
یاد رہے اب "چوڑی پہننا”،”لڑکی کی طرح شرمانا/چلنا/حرکتیں کرنا "جیسے فقرے بالکل استعمال نہ کریں۔نئی تہذیب جس طرح علاقہ ،رنگ اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو برا سمجھتی ہے ویسے ہی جنس کی بنیاد پر تفریق کو بھی غلط مانتی ہے۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اب اگر کوئی صنف نازک معاف کیجیے گا صنف قوی ہم مظلوموں کی ذہنی اور جسمانی پرتاڑنا کرے تو ہم بیچارے کہاں جائیں۔” صنف قوی” الفاظ کے پیچ و خم اور ان کے مخارج کا وہ فن جانتی ہے جس کی تاب لانا ناممکنات میں سے ہے۔الفاظ کے ان پیچ و خم میں قبل از نکاح اور بعد از نکاح ہمالیائی فرق کا موازنہ کیا جائے تو یہ اسکالرز کے لیے ایک کیس سٹڈی ہو سکتا ہے۔
دور حاضر طرح طرح کے فتنوں کا دور ہے۔مرد عورت بن رہے ہیں، عورتیں مرد بننے کی خواہشمند ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک مخلوق ہے جو عورتوں کی آزادی کی بات کرتی ہے۔یہی مخلوق دراصل عورتوں کو غلام تصور کرتی ہے۔عورت کی اس سے بڑی آزادی کیا ہوگی کہ اس کی کوئی دوسری بیوی نہیں ہوتی۔میں نے یہ آخری والا” جملہ معترضہ "آزادیِ رائے کے حوالہ سےگھر پر بولنے کی جسارت کر دی۔وہ دن آزادی رائے کا میرا آخری دن تھا۔

You may also like