Home تجزیہ وہ کون سا خدا ہے جسے صرف نماز چاہیے؟

وہ کون سا خدا ہے جسے صرف نماز چاہیے؟

by قندیل

کامران غنی صبا، مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان

گزشتہ روز ایمس (پٹنہ) سے واپس ہو رہا تھا. راستے میں پھلواری شریف ہے. وہاں ایک دوست سے ملنا تھا. ہاتھ میں زیادہ وقت نہیں تھا اس لیے اپنے دوست (جن کا نام قصداً نہیں لکھ رہا ہوں) سے مختصر سی ملاقات کی. عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا تو پاس ہی کی ایک مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا. ہم گنہگاروں کی نماز ہی کیا ہے. بس ایک رسم ہے.. ایک ڈیوٹی ہے… جو کسی طرح ادا کر لینی ہے… والدہ کا فون پہلے ہی آ چکا تھا… اس لیے نماز سے فارغ ہوتے ہی بغیر دعا مانگے ہی اٹھ گیا… جلدی گھر پہنچنے کی فکر تھی… ابھی مسجد کے دروازے تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ ایک صاحب جو اپنے حلیہ احوال سے ایک خاص جماعت کے فرد لگ رہے تھے میرا تعاقب کرتے ہوئے بالکل میرے سامنے آ گئے. سلام کے بعد مختصر سا تعارف ہوا. پھر انہوں نے مجھ سے سوال کر دیا کہ کیا آپ لوگوں کو مسجد سے جوڑنے کے لیے محنت کرتے ہیں؟ "جی استطاعت بھر کوشش کرتا ہوں”
"اچھا ماشاء اللہ….اور محنت کیجیے…. آج امت پہ جو بھی پریشانیاں آ رہی ہیں وہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے آ رہی ہیں…. جس دن امت نماز کی طرف واپس آ جائے گی… اللہ کی نصرت لازمی طور پر اس کی طرف متوجہ ہو جائے گی…” حضرت نے اپنا فیصلہ سنا دیا….
ان کی گفتگو کا انداز اچھا تھا البتہ مجھے بہت زیادہ جلدی تھی اس لیے میں گفتگو کو مختصر کر کے جلد اجازت لینا چاہ رہا تھا…. کسی طرح مجھے اجازت لینے میں کامیابی مل گئی…. مسجد سے باہر آیا تو مین روڈ تک آنے کا راستہ بھول گیا…. میں نے اپنے دوست کو فون کیا کہ وہ مجھے روڈ تک چھوڑ دیں… وہ مجھے لینے آ گئے…. راستے میں ان صاحب کا ذکر ہوا جو مسجد میں ملے تھے…. ان کا نام لیتے ہی میرے دوست کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہونے لگے…. بات چیت سے اندازہ ہوا کہ جو صاحب نماز کی دعوت دے رہے تھے ان کے معاملات اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہیں. مسجد میں امامت کی سیاست چلتی ہے. میرے دوست نے اور بھی کچھ ایسی باتیں بتائیں جسے دوہرانہ یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا…. ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو اعتراض ہو کہ میں بغیر تصدیق کیے صرف اپنے دوست کی باتوں پر ایک "نمازی” اور نماز کے لیے تحریک چلانے والے شخص پر تنقید کر رہا ہوں…. لیکن اس معاملہ سے قطع نظر بھی میرا سابقہ کئی ایسے لوگوں سے پڑا ہے جو "نماز کی تحریک” سے جی جان سے جڑے ہیں لیکن ان کے داخلی معاملات انتہائی افسوس ناک ہیں…. گھر میں بیوی بال بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں. چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیوی بچوں اور ماتحتوں کو جھڑکتے ہیں. پڑوسیوں سے معاملات ٹھیک نہیں… رشتہ داروں سے تعلقات منقطع ہیں…. بیوی بچوں کو بالجبر اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے منع کرتے ہیں …. اور بڑے اطمینان سے نماز کی دعوت دیتے ہوئے یہی ایک رٹا رٹایا جملہ دوہراتے رہتے ہیں کہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے امت پر اللہ کا عذاب آ رہا ہے…..
میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ واپس مسجد جاؤں اور ان صاحب سے پوچھوں کہ وہ کون سا خدا ہے جسے صرف نماز چاہیے؟…… نماز تو بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے کا وعدہ کرتی ہے…. آخر یہ ہماری کون سی نماز ہے جو ہمیں برے کاموں سے نہیں روک پا رہی ہے؟ نعوذبااللہ ہزار بار نعوذ باللہ اللہ کی بات غلط تو ہو نہیں سکتی؟…. پھر کیا ہماری نمازوں میں ہی کوئی کھوٹ ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے وقت ہمیں احکام الہی کی فکر نہیں ستاتی؟
بیوی بال بچوں کو بے جا ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر منھ پھلانے پر ہمیں شریعت کا خیال نہیں رہتا؟
معاملات اور اخلاقیات کے زوال پر ہماری ایمانی غیرت نہیں جاگتی؟
بلاشبہ نماز ایمان کا لازمی جزو ہے لیکن جب ہم کوئی کام یا کوئی تحریک کسی شناخت کے ساتھ شروع کرتے ہیں تو اس شناخت کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں عام لوگوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں. دنیا ہم سے عام لوگوں جیسی توقعات نہیں رکھتی. مثال کے طور پر ہر جرم لائق مذمت ہے لیکن جب ایک مجرم پولیس کی وردی میں جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ زیادہ قابل گرفت قرار پاتا ہے اگر ملک کا نظام درست ہو تو ایسے پولیس افسر کو عام انسان سے زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے.
اس تحریر کا مقصد کسی فرد یا جماعت کی تنقید قطعاً نہیں ہے. ہر جماعت میں اچھے برے لوگ موجود ہیں. اس تحریر کا مقصد بس اتنا ہے کہ ہم خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھیں اگر ہم دین کی اشاعت و تبلیغ کے دعویدار ہیں تو ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایک طرف ہمیں شرعی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند ہونا ہے دوسری طرف ہمیں اپنے کسی بھی چھوٹے بڑے عمل سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا ہے کہ دیندار لوگ دین کی آڑ میں کس طرح دین کا مذاق بناتے ہیں.

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment