Home ستاروں کےدرمیاں وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ! – ودود ساجد

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ! – ودود ساجد

by قندیل

نئے سال کا پہلا دن ہم پر پہاڑ بن کر ٹوٹا۔ یکم جنوری 2025 کو میرے آبائی شہر سہارنپور کی باغ و بہار شخصیت اس دار فانی سے رخصت ہوگئی۔

سینئر صحافی اور کہنہ مشق شاعرشبیر شاد کی رحلت بہت سوں کو روتا بلکتا چھوڑ گئی۔ میری طرح نہ جانے کتنے ہوں گے جنہیں یہ خبر سن کر یقین ہی نہیں آیا ہوگا۔ انجام کار جانا سب کو ہے لیکن جانے والا پیچھے رہ جانے والوں کو ماتم کرنے کیلئے چھوڑ جاتا ہے۔ شبیر شاد کی یادیں رقم کرنے کے لیے ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہوگی۔

31 دسمبر 2024 کو انہوں نے ایک غیر معمولی کام کرتے ہوئے اپنا ایک لائیو فوٹو کھینچ کر مجھے وہاٹس ایپ پر بھیجا تھا۔انہوں نے لکھا تھا کہ’ آپ نے جہاں جانے کو کہا تھا وہاں میں پہنچ گیا ہوں اور اس وقت یہیں بیٹھا ہوں‘۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مولانا آپ اگر لائیو تصویر نہ بھی بھیجتے تب بھی میں آپ کی بات پر یقین کرلیتا۔ ان کے اس غیر روایتی اور غیر معمولی عمل کے باوجود یہ شائبہ تک نہیں ہوا کہ میں ان کی زندگی کی یہ آخری تصویر دیکھ رہا ہوں۔

اگلی صبح سینئر صحافی شاہد زبیری نے ویڈیو کال کے ذریعہ ان کی میت دکھائی تھی۔ میں اپنے حواس کو مجتمع کر رہا تھا۔ میت کا چہرہ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ شبیر شاد کی روح پرواز کر گئی ہے۔ بس یوں لگتا تھا کہ شبیر شاد خبر لکھ کر کچھ دیر کے لیے سو گئے ہیں۔ چہرہ پر ہمیشہ کی طرح سکون و اطمینان تھا۔ بلکہ آج کچھ زیادہ ہی اطمینان تھا۔

مرحوم سے میرا تعلق ہمہ جہت تھا۔وہ میرے ہم وطن ہونے کے ساتھ ہم پیشہ بھی تھے۔ عمر میں بڑے ہونے کے باجود انتہائی قریب ترین اور بے تکلف دوست بھی تھے۔ وہ عادتاً مجھے مولانا کہتے تھے اور میں انہیں جواباً مولانا کہتا تھا۔تین دہائیوں تک وہ مجھے مولانا ہی لکھتے اور بولتے رہے’ میرے انقلاب میں آنے کے بعد انہوں نے مولانا کہنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن میں نے انہیں مولانا کہنا اور لکھنا نہیں چھوڑا۔ انہیں جب یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی خبر یا رپورٹ کچھ غیر معمولی ہے ‘یا طویل ہے‘ یا اہم ہے تو وہ پیج انچارج کو لکھتے تھے کہ ’مدیر محترم کو دکھادینا‘۔

پیشہ ورانہ محاذ پر انہوں نے کبھی بے تکلفی روا نہیں رکھی۔انہوں نے ہمیشہ میرا فیصلہ تسلیم کیا۔ 31 دسمبر کو انہوں نے لکھا کہ میں نے سہارنپور کے مشاعرہ اور سیمنار کی رپورٹ بھیجی ہے‘ قدرے طویل ضرور ہے لیکن لگوادیجیے ۔ یہ مشاعرہ اور سیمنار اپنے وقت کے مشہور صحافی و شاعر قاری اسحاق حافظ سہارنپوری کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔

اسی روز انہوں نے ریڑھی تاجپورہ کے مدرسہ کے سابق مہتمم مولانا اختر قاسمی کی حیات وخدمات پر مشتمل ان کے بیٹے کا ایک مضمون بھی بھیجا تھا۔ لکھا تھا کہ یہ بھی طویل ہے لیکن لگوادیجیے ۔ یہ مضمون پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل تھا۔میں نے لکھا کہ ’مولانا روزنامہ اخبار کے لیے یہ مضمون نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے‘ اسے 1500 الفاظ میں کراکر بھیجیے ۔ انہوں نے صاحب مضمون سے ایڈٹ بھی کرایا لیکن تب بھی وہ تین ہزار سے زائد الفاظ کا تھا۔ میں نے پھر لکھا کہ اب بھی زیادہ ہے‘ انہوں نے لکھا کہ کچھ قینچی دفتر کو بھی چلانے دیجیے ۔ میں نے لکھا کہ یہاں قینچی نہیں کلھاڑی چلتی ہے۔ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا کہ اب جو بھی ممکن ہو۔

عام طور پر اس وقت کی مصروفیت ایک ہی شخص سے اتنی لمبی گفتگو کی اجازت نہیں دیتی۔ مگر اس روز ان سے بھر پور پیشہ ورانہ گفتگو ہوئی۔ان کی بھیجی ہوئی مشاعرہ اور سیمنار کی رپورٹ تقریباً پوری شائع ہوگئی۔ یہ ان کی آخری رپورٹ تھی۔ اپنے انتقال سے چند لمحے پہلے تک بھی وہ صحافتی طور پر متحرک و فعال تھے۔ یکم جنوری کو انہوں نے صبح پونے دس بجے کے آس پاس اپنی چھپی ہوئی خبروں کو سوشل میڈیا پر نشر کیا اور پھر داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔۔ انا للہ واناالیہ راجعون

شبیر شاد سہارنپور کے افق پر آفتاب و ماہتاب کی طرح تھے۔ وہ سہارنپور کے صحافتی حلقوں اور ادبی محفلوں کی شان تھے۔ 70 کی دہائی میں انہوں نے ایک ہفت روزہ اخبار ’کھردرے الفاظ‘ شروع کیا تھا۔میں نے دوران طالب علمی ہی انہیں اس اخبار کی ستائش میں 15پیسے والا ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر بھیجا تھا۔انہیں جب بھی یاد آتا وہ بتاتے تھے کہ میں نے یہ خط انتہائی محفوظ طریقہ سے رکھا ہوا ہے۔مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس خط میں کیا لکھا تھا لیکن وہ اکثر کہتے تھے کہ ودود ساجد تمہارے خط میں الفاظ کمال کے ہیں۔ میں خط لکھنے کے بعد ان سے ملنے بھی گیا تھا۔یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ رانی باغ میں سینئر صحافی محمد صالح احقر کے کتب خانہ کے عین سامنے بیٹھتے تھے۔. شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ حافظ قرآن بھی تھے۔

شبیر شاد نے اس کے بعد اس تعلق کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ وہ دوستوں کے تو دوست تھے ہی دشمنوں کے بھی دوست ہی تھے۔ بعض پیشہ ورانہ حریف فی الواقع دشمنوں کی طرح سلوک کرتے ہیں لیکن شبیر شاد نے ایسے لوگوں کو مات دینے کے لیے اپنا ہی طریقہ وضع کیا تھا۔ وہ تعلق بنانا اور پھر زندگی بھر اسے نبھانا جانتے تھے۔ وہ جس طرح اپنے دوستوں سے کام کرانا جانتے تھے اسی طرح اپنے دوستوں کے کام آنا بھی جانتے تھے۔ بیشتر تو وہی کام آتے تھے۔ان کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ بیک وقت معاملہ فہم صحافی بھی تھے‘ زود گو شاعر بھی تھے ‘دردمند سماجی خدمت گار بھی تھے اور برق رفتار مددگار بھی تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت عجلت میں رہتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ کم وقت میں اس دنیائے فانی کے زیادہ سے زیادہ کام نپٹا دینا چاہتے تھے ۔ وہ بگڑتی ہوئی بات کو بنانے کا فن بھی جانتے تھے۔لیکن ان کا دینی مزاج ان سب اوصاف پر بھاری تھا۔

دوستوں کی ضیافت کے معاملہ میں شبیر شاد اپنے والد حاجی مقبول قریشی (مرحوم) کے نقش قدم پر تھے۔لیکن وہ اپنی والدہ کا غم نہیں بھولتے تھے۔ان کی والدہ انہیں بچپن میں ہی چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملی تھیں۔وہ ہر سال پابندی کے ساتھ اپنی والدہ کے یوم وفات پر مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد وہ ہر سال اپنی والدہ پر ایک مضمون سوشل میڈیا پر نشر کرتے تھے۔۔

انہیں پہاڑ جیسے کام اپنے سر لینے کا بھی شوق تھا ۔ 2005 میں جب میں "ویوز ٹائمز” کا ایڈیٹر تھا تو انہوں نے پڑوسی ملک کے سفر پر جاتے ہوئے پوچھا کہ اخبار کے لیے وہاں سے کیا لاؤں؟ میں نے ان سے کہا کہ علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس جاوید اقبال کا انٹرویو لے آئیے۔۔ انہوں نے وہاں جاکر کیا کیا جتن کیے نہیں معلوم لیکن وہ جسٹس جاوید اقبال کا تفصیلی انٹرویو لے آئے۔۔ ہم نے اسے باہتمام "فرنٹ پیج” پر شائع کیا تھا۔۔

شبیر شاد کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔انہوں نے ہر طرح کا دور دیکھا۔وہ دور بھی جب ان کے پاس مشترکہ طور پر پنامہ یا کیونڈرز سگریٹ کی ایجنسی تھی اور روپیوں کی ریل پیل رہتی تھی اور وہ دور بھی جب اپنا ہفت روزہ اخبار چھاپ کر لوگوں کو پڑھواتے تھے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک اپنے وقت کے مقبول اخبار قومی آواز اور پھر روزنامہ صحافت میں بھی سہارنپور کی نمائندگی کی۔ 90 کی دہائی میں ہفت روزہ نئی دنیا کے لیے بھی رپورٹیں اور مضامین لکھے۔ گزشتہ 11سال سے وہ روزنامہ انقلاب سے وابستہ تھے۔

انقلاب کی ادارت سنبھالنے کے بعد میں نے مختلف محاذوں پر نامہ نگاروں کی کارکردگی کے اعتبارسے ان کا اعزاز کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس کےلیے ایک ٹیم بنائی گئی۔مجھے حیرت ہوئی کہ طے شدہ معیارات کے مطابق شبیر شاد کو شمالی ہند میں پہلا مقام حاصل ہوا۔ جاگرن پرکاشن کے سی جی ایم جناب نیتیندر سری واستو سے میں نے درخواست کی کہ چونکہ میرا تعلق بھی سہارنپور سے ہے اس لیے اس نتیجہ کے معیارات پر آپ ہی ایک بار نظر ثانی کرلیجیے ۔ انہوں نے برجستہ کہا کہ شبیر شاد ہر معیار پر پورا اترتے ہیں اور یہ انہی کا حق ہے۔ لہذا 2023 میں باقی تمام نگاروں کے ساتھ انہیں پہلے نمبر کے اعزاز سے نوازا گیا۔ تین سال کے عرصہ میں انہوں نے کبھی ایک دن کی بھی تعطیل نہیں کی۔ بیرونی سفر کے دوران بھی وہ خبر رسانی کا انتظام کر کے جاتے تھے ۔

ان کا ایک خصوصی وصف یہ بھی تھا کہ سہارنپور میں ایک بار جو آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسر رہ کر چلاجاتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔اپنی سروس کے باقی ایام میں ایسے افسر کہیں بھی رہے ان کی رسائی سے دور نہیں رہے۔ وہ اپنے ان مراسم کو دوسروں کی فلاح کےلیے استعمال کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ وہ جتنے مضبوط اور بھاری بھرکم تھے اتنے ہی تیز گام اور زود رو بھی تھے۔ وہ کام کو ٹالنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے سامنے اگر اتفاقاً کسی گھریلو مسئلہ کابھی ذکر ہو جاتا تو وہ اپنے مخصوص سہارنپوری انداز میں کہتے ’’اجی یوں کرو‘۔اور اس کے بعد چٹکیوں میں اس کا حل بھی کردیتے۔کبھی کبھی یہ بھی کہتے کہ ’اجی کس چکر میں پڑے‘آپ تو یوں کرلو‘۔

وہ وقتاً فوقتاً پوچھتے رہتے تھے کہ سہارنپور کب آرہے ہو۔اس بار انہوں نے ایک ہفتہ میں کئی بار پوچھا تھا۔میں نے کہا تھا کہ ابھی سردی زیادہ ہے۔ پانچ جنوری کو ایک تقریب کی بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے تھے۔لیکن جب میں نے کہا تھا کہ اگر آیا بھی تو مختصر وقت کےلیے آؤں گا تو انہوں نے اچھا محسوس نہیں کیا تھا۔ کہا تھا کہ چلو آپ کی مرضی‘ ہم تو چاہتے ہیں کہ ایک دو دن کے لیے آؤ۔ کون جانتا تھا کہ اللہ کے اس ولی کی ہی بات پوری ہوجائے گی اور مجھے پانچ جنوری سے پہلے ہی انہیں کاندھا دینے اور منوں مٹی کے نیچے دفنانے کے لیے آنا پڑے گا ۔

You may also like