Home تراجم نریندر مودی نے بجرنگ دَل کی کھل کر تعریف کیوں نہیں کی؟-روش کمار

نریندر مودی نے بجرنگ دَل کی کھل کر تعریف کیوں نہیں کی؟-روش کمار

by قندیل

ترجمہ:نایاب حسن

کرناٹک انتخابات میں کانگریس نے بجرنگ دل کو سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی ایک اہم جماعت ثابت کردیا ہے۔ اب تک اس تنظیم کو کبھی سنگھ پریوار کا اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ حصہ سمجھا جاتا تھا، اس کی شبیہ ایسی تھی کہ اس کے دم پر سڑکوں پر راج کرنے والا سنگھ پریوار بھی اس سے فاصلہ رکھتا رہا ہے، اس بار بھی سنگھ پریوار نے اس سے کم و بیش ویسا ہی فاصلہ برقرار رکھا،یہ بجرنگ دل کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں یہ نہیں کہا کہ وہ بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگنے دیں گے، بس بجرنگ بلی کا نعرہ لگاکر چلے گئے۔
کانگریس نے بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کی،یہ ایک جرات مندانہ سیاسی داؤ تھا، جو نتیجہ خیز رہا، اس کی وجہ سے کانگریس اس الیکشن میں ہار بھی سکتی ہے؛ لیکن سیاسی جدوجہد بہت لمبی ہوتی ہے، الیکشن ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ کانگریس نے بجرنگ دل اور پی ایف آئی پر پابندی لگانے کی بات کرکے سنگھ پریوار کے تضادات کو بے نقاب کردیا ہے۔ ایک تو اس نے اس کے خفیہ حامیوں کو سامنے آنے کا موقع دیا اور دوسرے یہ کہ کوئی کھل کر بجرنگ دل کی حمایت نہیں کر سکا۔ یہ کانگریس کی بڑی سٹریٹیجک فتح ہے، امید ہے کہ بجرنگ دل کو اس کا احساس ہوگا۔
بجرنگ دل کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کے سہارے ہی گئو رکشا سے لے کر مختلف قسم کے جہاد اور تمام شوبھا یاتراؤں سے جڑے ایشوز زندہ رہتے ہیں؛ لیکن سیاسی سرخ روئی سے لے کر عہدہ و منصب تک کا فائدہ صرف بی جے پی کو ملتا ہے۔ یعنی محنت بجرنگ دل کے حصے میں اور ملائی /بالائی بی جے پی کے حصے میں۔ بجرنگ دل نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ انگریزی بولنے والے صحافی بھی اس کی حمایت میں سامنے آئیں گے۔ گودی میڈیا کے ایلیٹ اینکرز اور انگریزی صحافیوں کو اس بات سے جھوٹی ناراضی ہے کہ کسی نے کانگریس کو اندر سے نقصان پہنچایا ہے؛ لیکن بجرنگ دل کو دیکھنا چاہیے کہ کانگریس نے اس پر پابندی لگانے کی بات کر کے اس کی محنت کے بدلے مفت ملائی کھانے والوں کو اب جا کر کچھ کام دیا ہے، وہ اب کھل کر بجرنگ دل کی حمایت کر رہے ہیں۔
لیکن اس میں ایک بڑا ’لیکن‘ ہے، بجرنگ دل کو ابھی تک مکمل قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس تنظیم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ گمراہ یا فسادی تنظیم ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ کوئی بھی فخر سے نہیں کہتا کہ وہ بی جے پی میں بجرنگ دل سے آیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت بی جے پی کے کتنے سینئرعہدیداران اور ایم ایل اے سے لے کر ایم پیز تک بجرنگ دل پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، بجرنگ دل کو خود ہی اس کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ہندوتوا کی شاکھاؤں میں اس کی سیاسی اہمیت کیا ہے؟ بجرنگ دل یہ کام آسانی سے کر سکتا ہے اور سنگھ پریوار کو بتا سکتا ہے کہ اس کے یہاں سے کتنے نیتا بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں، پھر بھی وہ بجرنگ دل پر پابندی کے خلاف سامنے نہیں آئے۔اسے اس نقطہ نظر سے دیکھیں کہ یہ بجرنگ دل کے ساتھ ناانصافی ہے، کرناٹک انتخابات میں بجرنگ دل سے جڑے معاملے کو میں اسی طرح دیکھتا ہوں۔ جس طرح راہل گاندھی نے ’سوٹ بوٹ والی سرکار‘ کا نعرہ دے کر نریندر مودی کا مہنگا سوٹ ایک جھٹکے میں اتروادیا تھا، اسی طرح انھوں نے بجرنگ دل پر پابندی کی بات کرکے نریندر مودی کو اس پر مجبور کیا کہ وہ آگے آئیں اور بجرنگ دل کی حمایت کریں۔

لیکن یہاں بھی سوٹ اتارنے والی بے ایمانی کی گئی، جس طرح مودی نے سوٹ نیلام کر کے بہ ظاہر اپنے ایک اہم شوق سے چھٹکارا پا لیا، اسی طرح انھوں نے بجرنگ بلی کا نعرہ لگا کر بجرنگ دل کے ساتھ ناانصافی کی۔ صاف صاف بجرنگ دل کی خوبیاں بیان نہیں کیں،اس پر پابندی کی مخالفت نہیں کی۔ میں نے ان کی پوری تقریر نہیں سنی؛ لیکن جو کچھ میڈیا میں شائع ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے، اس سے لگتا ہے کہ انھوں نے بجرنگ بلی کی پوجا پر پابندی لگانے کو ایشو بنایا ہے، جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں، ایسا کرکے مودی نے بجرنگ دل کی ہی توہین کی ہے۔ اگر وہ اسے ملک کے لیے ایک ضروری تنظیم مانتے ہیں، اگر وہ مانتے ہیں کہ بجرنگ دل نے ہندوتوا کی سیاست کو ایک ہڑدنگی طاقت کے طور پر نہیں؛ بلکہ ایک مثالی قوت کے طور پر وجود فراہم کیا ہے، تو اس کے کام کی بنیاد پر اس کا دفاع کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی بجاے انھوں نے بجرنگ بلی کو ایشو بنانا شروع کر دیا۔ سب جانتے ہیں کہ بجرنگ بلی کی پوجا کو کوئی نہیں روک سکتا، کوئی چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتا،پون پتر کو کون باندھ سکتا ہے یا روک سکتا ہے؛ لیکن وزیر اعظم نے ایک سنجیدہ و حساس مسئلے کو ڈرامے میں بدل دیا، صحافیوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ وزیر اعظم کی اس بے ایمانی کو بے نقاب کریں اور پوچھیں کہ وہ بجرنگ دل کی دس خوبیاں کیوں نہیں بتا دیتے؟ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگنے دیں گے؟ وزیر اعظم نے ایک طرح سے بجرنگ دل کو ایک بار پھر ایسے مقام پر اکیلا چھوڑ دیا، جہاں اس کے ناقدین اسے ایک غیر قانونی اور فسادی تنظیم قرار دیتے رہتے ہیں۔ کیا آر ایس ایس سربراہ نے بجرنگ دل پر پابندی لگانے پر کوئی بڑا بیان دیا ہے؟ بجرنگ دل کے اچھے کاموں کی تعریف ان کے منہ سے سننے کا یہ بہترین موقع تھا؛ لیکن بولنے والوں نے بے ایمانی کردی، تو اس میں کانگریس کا کیا قصور ہے!
پھر بھی کرناٹک انتخابات کے بہانے بجرنگ دل کو پہلی بار ایک عالمی اور قومی نیتا ملا ہے، اس نیتا کا نام وزیر اعظم نریندر مودی ہے۔ وہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں، جو بجرنگ دل کے لیے آگے آئے ہیں، پوری طرح بھلے نہیں آئے ؛لیکن دو قدم آگے تو آئے ہی ہیں۔ اب تک جب بھی میں بجرنگ دل کے بارے میں پڑھتا تھا، تو صاف نہیں لکھا ہوتا تھا کہ آپ کا تعلق کس سے ہے؟ آپ کہاں سے ہیں؟ کوئی سنگھ پریوار لکھتا تھا، کوئی آر ایس ایس لکھتا تھا اور کوئی بی جے پی کے بارے میں بتاتا تھا۔ اس کے نیتا کبھی بی جے پی میں نظر آتے رہے ہیں اور کبھی انھیں آر ایس ایس کا بتایا گیا ہے۔ کیا بی جے پی نے کبھی کہا ہے کہ بجرنگ دل ہمارا ہے؟ کیا بی جے پی اپنی اگلی نیشنل ایگزیکٹو میٹنگ میں یہ قرارداد پاس کرے گی کہ بجرنگ دل ہماری تنظیم ہے، یہ ایک قومی تنظیم ہے،اس کی تمام سرگرمیاں مثالی قومی نظریات سے متاثر ہیں؟
کرناٹک انتخابات میں کانگریس نے کہا تھا کہ وہ بجرنگ دل اور پی ایف آئی پر پابندی عائد کرے گی؛ لیکن باتیں صرف بجرنگ دل پر ہوئیں، بجرنگ دل پر بھی نہیں، بجرنگ بلی پر ہوئیں، جبکہ بجرنگ بلی صرف بجرنگ دل کے نہیں ہیں۔ پی ایف آئی پر پابندی لگانے کے بعد کسی نے کوئی مذہبی نعرہ نہیں لگایا، اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟ لیکن بجرنگ دل پر پابندی کے معاملے پر وزیر اعظم نے انتخابی روایات کو توڑا اور بجرنگ بلی کی جے کا نعرہ لگانے لگے۔ وزیر اعظم کو بجرنگ دل کی خوبیوں کے بارے میں بتانا چاہیے تھا؛ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ خود اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ یہ جماعت خوبیوں والی جماعت ہے۔ جس اعتماد کے ساتھ بجرنگ دل کے مخالفین اسے برا کہتے ہیں، مودی اور بھاگوت اسی اعتماد کے ساتھ اسے اچھا نہیں کہہ پائے، بجرنگ دل کو غور کرنا چاہیے کہ کیا اس کی سرگرمیاں اتنی بری ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی ان کا دفاع نہیں کر سکتے؟ بجرنگ بلی کے بجائے مودی یہ کہتے کہ ہم سب بجرنگ دلی ہیں تو مانا جاتا کہ کانگریس کا داؤ غلط تھا، کانگریس نے دکھا دیا ہے کہ مودی چاہے جتنے بھی مذہبی موضوعات گھڑ لیں، سیاسی طور پر بجرنگ دل کی حمایت نہیں کر سکتے۔

2016 میں مودی نے کہا تھا کہ اگر تحقیقات کی جائیں، تو ان میں سے 80 فیصد لوگ ایسے نکلیں گے جو گئو رکشا کی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں، مجھے ایسے لوگوں سے بہت غصہ آتا ہے۔ انھوں نے ریاستی حکومتوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایسے لوگوں کی ڈوزیئر تیار کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں،اس وقت ہندو مہاسبھا ناراض ہوگئی تھی۔ گئو رکشا کے معاملوں میں بجرنگ دل کے لوگوں کے نام بھی آتے رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم کا یہ بیان بجرنگ دل والوں کو کیسا لگا ہو گا، کیا وزیر اعظم کرناٹک میں یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر بجرنگ دل پر پابندی لگ گئی تو گئو رکشا کا کام کون کرے گا؟ جبل پور میں کانگریس کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کون کرے گا؟ ہوسکتا ہے کہ مودی اب بھی یہ مانتے ہوں کہ گئو رکشا کے کام میں لگے ہوئے 80 فیصد لوگ گئو رکشا کی دکانیں چلاتے ہیں۔
دیکھا جائے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بجرنگ بلی کا نام لے کر اپنی شبیہ بچانے کی کوشش کی ہے۔ میرا سوال ہے کہ آخر نریندر مودی بجرنگ دل کی تعریف کیوں نہیں کر سکے؟ بجرنگ دل کے کارنامے کیوں نہیں شمار کروا سکے؟ کانگریس نے بجرنگ دل کے ساتھ ناانصافی نہیں کی، بی جے پی نے کی ہے۔ اگر بجرنگ دل بجرنگ بلی کا پیروکار ہے،تب تو مودی کو اور زیادہ کھل کر اس کا دفاع کرنا چاہیے تھا، مگر مودی نے ایسا نہیں کیا۔ اگر راہل کھل کر یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں، تو شاید مودی اگلا الیکشن بجرنگ دل کے ٹکٹ پر لڑنے پر مجبور ہو جائیں ، بجرنگ دل کو عزت دینے کا اس سے زیادہ تاریخی موقع دوسرا اور کیا ہوگا؟

You may also like

Leave a Comment