استاذ و سابق ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
ان دنوں مساجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرنے کا رواج عام ہوچلاہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرسیوں پر نماز ادا کرنا فیشن کی شکل اختیار کرچکا ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ اچھے خاصے صحت مند لوگ جو کھڑے ہونے ، اٹھنے بیٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بغیر کسی سہارے کے خود مسجد تک چل کر آتے ہیں(حتیٰ کہ صفوں میں کرسی بھی خود ہی اٹھاکر لے جاتے ہیں)، نماز کے قبل اور بعد کھڑے کھڑے لوگوں سے گفتگو کرتے بھی دیکھے جاتے ہیں لیکن معمولی تکالیف کو عذر بنا کر کرسی پر نماز ادا کرتے ہیں حالانکہ فقہاء نے بلا عذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کو ناجائز بتایا ہے۔ یہ روح بندگی یعنی عجزو انکسار کے خلاف ہے، اس سے مساجد کی ہیئت بھی تبدیل ہورہی ہے، صفوں میں خلل واقع ہوتاہے، مساجد میں مساوات کے قائم شدہ تصور پر ضرب لگتی ہے اور نصاریٰ کی عبادت گاہوں (Churches) سے مشابہت بھی پیدا ہوتی ہے۔ شریعت سے لاعلمی، اس کے اصولی و فقہی قواعد سے ناواقفیت، جذبہ تحقیق کی معدومیت اور دینی امور کے تئیں بے توجہی و لاپروائی اس نئی روش کے اہم اسباب میں سے ہیں۔
اسلامی شریعت میںبیماروں اور معذوروں کی پوری رعایت کی گئی ہے جس کی تفصیلات کتب احادیث و فقہ میں موجود ہیں اور جن کی تشریحات مفتیان دین وقتاً فوقتاً اپنے فتاویٰ کے ذریعے کرتے آئے ہیں لیکن لوگ ان مسائل کو علماء سے دریافت نہیں کرتے اور خود ہی سہولت کی راہ نکال لیتے ہیں یا کسی کو کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اسے بغیر سوچے سمجھے اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی طریقہ کار سراسر غلط ہیں؛ اول الذکر تو اس لئے کہ ہم زندگی کے جملہ امور میں کتاب و سنت کے پابند کئے گئے ہیں جن میں خود ساختہ سہولتوں کی جگہ نہیں اور آخرالذکر اس لئے کہ نوعیت کے بدل جانے سے احکام بدل جاتے ہیں، کسی عمل میںایک رخصت کسی فرد خاص کے لئے تو جائز ہوسکتی ہے لیکن وہی رخصت کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اپنی معذوری کی نوعیت بتا کر علماء سے اپنے مسائل کا حل دریافت کرنا چاہیے پھر جو سہولتیں وہ بتائیں ان ہی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ائمہ مساجد اور ان علماء سے بھی کوتاہیاں ہورہی ہیں جو مساجد میں لوگوں کو کرسی پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن نہ توان کے احوال کی تفتیش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان کے مسائل کا کبھی حل بتاتے ہیں (حالانکہ یہ ان کی ذمے داری ہے) جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ لوگوں کی نمازیں خراب ہورہی ہیںاور یہ مرض ایک دوسرے کی نقالی میں دن بہ دن بڑھتا ہی جارہاہے ۔
کرسی پر نماز کی شرعی حیثیت اور معذوری سے متعلق احکام کی صحیح تفہیم کے لئے ایک بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میںبھی لوگ معذور ہوا کرتے تھے اور کرسی بھی وجود میں آچکی تھی اس کے باوجود حدیث کے ذخیرے میں ایک روایت ایسی نہیں ملتی جس میں رسول اللہ ﷺ یا کسی صحابیؓ کے کرسی پر نماز پڑھنے کا ذکر ہو۔ اسی طرح فقہ کی جتنی قدیم ، مستند اور معیاری کتابیں ہیں ان سب میں مریض اور معذور کی نماز سے متعلق باب موجود ہے لیکن کرسی پر نماز کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کیوں یہ روش گزشتہ ۲۰-۲۵ سالوں کے اندر کی ہی اپج ہے۔ اس لئے کرسی پر نماز سے متعلق فتاویٰ، مضامین اور کتابیںبھی اسی دور کی پیداوار ہیں۔
علماء نے بلا عذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کوجو ناجائز بتایا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ قیام (فرض نماز کی تمام رکعتوں میں)، رکوع اور سجود نماز کے متفقہ علیہ فرائض میں سے ہیں لہٰذا جس قدر طاقت و استطاعت ہو اس قدر ان کو ادا کرنا ضروری ہے اور بلا عذر ان میں سے کسی کو ترک کردینے سے نماز نہیں ہوتی۔ کرسی پر نماز ادا کرنے والے سے یہ تمام فرائض چھوٹ جاتے ہیں ؛ قیام کی جگہ وہ کرسی پر بیٹھتا ہے اور رکوع و سجود دونوں کو ترک کرکے محض اشارے سے ان کو ادا کرتا ہے تو اس کی نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ معقول عذر پرہی رسول اللہ ﷺ نے نماز کی ہیئت میں تبدیلی کی گنجائش رکھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’صَلِّ قَائِماً، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ‘‘ یعنی’’ کھڑے ہوکر نماز ادا کیا کرو ، اگراس کی استطاعت نہ ہو(یعنی کھڑا نہیں ہواجاتا )تو بیٹھ کر ادا کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو(یعنی بیٹھانہیں جاتا ) تو پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرو‘‘۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۱۱۱۷ ، بروایت عمران بن حصینؓ)۔
اس حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز کھڑے ہوکر ہی ادا کرنا چاہیے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو لیٹ کر ادا کرنے کی بھی اجازت ہے۔ فقہاء نے قیام، رکوع و سجود پر قدرت اور ان سے معذوری کی مختلف صورتوںکو فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میںواضح کردیا ہے اور ان سے متعلق احکام بھی بیان کردئے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(۱) قیام، رکوع و سجود سبھی پر قدرت: جو شخص قیام، رکوع و سجود سبھی پر قادر ہو اس کے لئے لازم ہے کہ نماز کی عام ہیئت میں کوئی تبدیلی نہ کرے، کھڑے ہوکر نماز ادا کرے کیوں کہ فرض نماز کی تمام رکعتوں میں قیام کرنا (کھڑے ہوکرنماز پڑھنا) فرض ہے، کھڑے ہونے پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر فرض نماز جائز نہیںگو نوافل میں اس کی اجازت ہے۔ اگر کوئی شخص خود تو کھڑا نہیں ہوسکتالیکن کسی دوسرے آدمی یا دیوار یا لکڑی وغیرہ کے سہارے کھڑا ہوکر نماز ادا کرسکتا ہے تو اس کو بھی سہارے سے کھڑا ہونا لازم ہے ، بیٹھ کر نماز ادا کرنا اس کے لئے درست نہیں۔ اگر کسی سہارے سے بھی کھڑا نہیں ہوسکتاتو اس کے لئے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔ بلکہ فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگرکسی کے لئے اتنی دیر کے لئے جس میں تکبیر تحریمہ ہوسکے کھڑا رہنا ممکن ہو تو اتنی ہی دیر اس کے لئے کھڑا ہونا لازم ہے۔ ایسا شخص کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے اس کے بعد بیٹھ کر پوری نماز ادا کرلے، اگر کھڑا نہ ہوا اور شروع ہی سے بیٹھ کر نماز اداکرلی تو اس کی نماز نہیں ہوگی کیوں طاعت و بندگی بقدراستطاعت مطلوب ہوتی ہے جیسا کہ آیت {فَاتَّقُوْاللّہَ مَااسْتَطَعْتُمْ۔ الآیۃ۔التغابن: ۱۶} (ترجمہ: پس تم اللہ کا تقوی اختیار کرو جہاں تک تمہاری استطاعت ہو) کا تقاضہ ہے کیوں کہ تقوے کا سیدھا اور آسان مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارے امور میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے حکموں کا لحا ظ رکھا جائے۔
(۲) قیام و سجود پر قدرت لیکن رکوع پر قادر نہیں: علامہ عبدالرحمٰن الجزیری ؒنے اپنی تالیف ’’الفقہ علی المذاہب الاربعۃ‘‘ میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع کرنے اور سجدہ کرنے سے یا ان میں سے کسی ایک کے ادا کرنے سے معذور ہو تو جس امر سے معذور ہوصرف اس کو اشارے سے ادا کرے۔ اس لئے ایسا شخص جو قیام و سجود پر قدرت رکھتا ہو لیکن رکوع پر قادر نہ ہو اس کے لئے واجب ہے کہ کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے اور قرأت کرے، قیام مکمل کرلینے کے بعد جس قدر جھک سکتا ہو جھک کر رکوع کا اشارہ کرلے پھر سجدہ میں چلاجائے اور اسی طرح اپنی ساری نماز مکمل کرے۔
(۳) قیام و رکوع پر قادر لیکن سجود پر قدرت نہیں: علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ایسا شخص قیام اور رکوع کرے اور اشارے سے سجدہ کرے البتہ سجدے کے اشارے کو رکوع سے ذرا نیچے کرے اور اگر وہ بیٹھ سکتا ہوتو تشہد کی صورت میں بیٹھ کر سر کو سجدے کے لئے جس قدر جھکا سکتا ہو جھکادے۔
(۴) قیام پر قادر لیکن رکوع و سجود کسی پرقدرت نہیںمگر زمین پر بیٹھ سکتا ہو:ایسا شخص تکبیر تحریمہ اور قرأ ت کھڑ ے ہوکر کرے اور رکوع کے لئے کھڑے کھڑے جتنا سر جھکا سکتا ہو جھکا کر اشارہ کرے اس کے بعد سیدھا ہوجائے پھر بیٹھ کر اشارے سے سجدے کرے یعنی سجدے کے لئے جتنا جھک سکتا ہو جھکے۔ اگر کھڑے کھڑے اشارہ سے سجدہ کرلیا یا بیٹھ کر اشارہ سے رکوع کرلیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ یہ علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ کی رائے ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص سجدہ کرنے سے معذور ہوجائے تو قیام اس سے ساقط ہوجاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ رکوع سے بھی معذور ہو کہ نہ ہو، لہٰذا اسے بیٹھ کر نماز ادا کرنی چاہیے جس میں رکوع و سجود اشارے سے کرے ۔ یہ صورت ان حضرات کی نظر میں کھڑے ہوکر اشارے کرنے سے بہتر ہے۔ اس لئے مسئلہ نمبر ۳؎ کی صورت میں بھی احناف کی رائے بیٹھ کر ہی نماز ادا کرنے کی ہے گرچہ کھڑے ہوکر اشارہ سے رکوع اور سجود کرنا بھی ان حضرات کے نزدیک صحیح ہے۔ بندہ عاجز کی نظر میں علامہ عبدالرحمٰن الجزیری ؒکی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے کیوں کہ اس صورت میں آیت{وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ۔ البقرہ:۲۳۸} (ترجمہ: اور اللہ کے حضور ادب سے قیام کیا کرو) اور {فَاتَّقُوْاللّہَ مَااسْتَطَعْتُمْ۔ الآیۃ۔التغابن: ۱۶} کے ذریعہ دئے گئے اصول کی رعایت ہوجاتی ہے۔ عرب علماء مثلاً عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ اورشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل تھے۔
(۵) قیام پر قادر لیکن رکوع و سجود کسی پرقدرت نہیںاو ر زمین پر بیٹھ بھی نہیں سکتا ہو: ایسا شخص تکبیر تحریمہ اور قرأ ت کھڑ ے ہوکر کرے اور رکوع و سجود کھڑے کھڑے سر جھکا کر اشارہ سے ادا کرے البتہ رکوع کے مقابلہ سجدے میں قدرے زیادہ جھکے۔ احناف کی رائے مسئلہ نمبر ۴؎ پر لکھی جاچکی ہے کہ کھڑے ہوکر اشارے سے رکوع اور سجدہ کرنا ان حضرات کے نزدیک بھی صحیح ہے۔
(۶) قیام پر قادر نہیں لیکن زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجود پر قادر ہو: اگر کوئی شخص کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن اس کے سر چکرانے اورگرجانے کا یا کسی اور مرض کے لاحق ہونے کا یا اسی مرض میں زیادتی یا شفائے مرض میں تاخیر کا اندیشہ ہو یا کھڑے ہونے میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہوتی ہو (معمولی تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں) تو اس کے لئے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے اوراگر وہ زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجود پر قادرہے تو اس کے لئے بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز اداکرنا ضروری ہے۔ ایسا شخص اگر زمین پر بیٹھ کر معروف طریقے سے رکوع و سجدہ کرنے کے بجائے کرسی پر یا زمین پر ہی اشارے سے رکوع و سجدہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔
(۷) نہ قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پر مگر زمین پر بیٹھ سکتا ہو :جو شخص زمین پر بیٹھ سکتا ہے لیکن رکوع و سجود کے لئے جھک نہیں سکتا یا جھکنے میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس کرتا ہے تو ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے اور رکوع و سجود کو اشارے سے کرے یعنی جس قدر جھک سکتاہو اتنا جھکے لیکن بمقابلہ رکوع، سجدے کے اشارے میں زیادہ جھکنا اس کے لئے واجب ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ فقہاء کے مطابق بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے مراد مسنون طریقہ پر اس طرح بیٹھنا ہے جس طرح التحیات پڑھنے کے لئے تشہد میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اگر اس طرح بیٹھنا ممکن نہ ہو تو تَوَرُّک (یعنی جس طرح عورتیں تشہد میں بیٹھتی ہیں) یا تَرَبُّع ( چار زانو یا پالتی مارکر بیٹھنا) کی حالت میں بیٹھا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ طریقے بھی سنت سے ثابت ہیں اور اگر یہ دونوں بھی ممکن نہ ہو ں تو جس طریقے سے بیٹھنا سہل و ممکن ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا چاہیے خواہ کسی چیز سے ٹیک لگاکر بیٹھنے کی نوبت آئے۔ اس لئے کہ قیام سے معذوری کی حالت میں زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا ہی مسنون طریقہ ہے اور صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے لوگوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔
جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایت کے مطابق رسول پاکﷺ کا فرمان بھی ہے: ’’صَلِّ عَلَی الْأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ، وَ إِلَّا فَأَوْمِیْٔ إِیْمَائً، وَاجْعَلْ سُجُوْدَکَ أَخْفَضَ مِنْ رُکُوْعِکَ‘‘ یعنی ـ’’ اگر استطاعت ہو تو زمین پر نمازادا کرو ورنہ اشارے سے ادا کرو البتہ سجدے کے اشارہ کو رکوع سے ذرا نیچے رکھو۔‘‘ (السنن الکبیر للبیہقیؒ ، رقم الحدیث ۳۷۱۸)۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرؓ سے جب کسی نے تکیہ پر نماز ادا کرنے کے بارے میںدریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’صَلِّ قَائِدًا وَاسْجُدْ عَلَی الْأَرْضِ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَأَوْمِیْٔ إِیْمَائً، وَاجْعَلِ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ‘‘ یعنی بیٹھ کر نماز ادا کرو اور زمین پر سجدہ کرو اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اشارے سے رکوع و سجود کرو اور سجدوں کو رکوع سے ذرا نیچے رکھو۔ (السنن الکبیر للبیہقیؒ ، رقم الحدیث ۳۷۲۱)۔ اسی طرح کا قول امام بیہقیؒ نے عبداللہ بن مسعودؓ کا بھی نقل کیا ہے۔ ـ اس لئے سہولت کی نئی راہ نکالنا اور کرسی پر نماز ادا کرنا ایسے شخص کے لئے درست نہیں۔
(۸) نہ قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پراو ر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ بھی نہیں سکتا ہو: اگر کوئی شخص نہ تو قیام پر قدرت رکھتا ہو نہ ہی رکوع و سجود پراو ر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ بھی نہ سکتا ہو لیکن کرسی پر بیٹھ سکتا ہو تو فقہاء نے صرف ایسے شخص کوکرسی پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ قیام، رکوع و سجود پر قدرت اور ان سے معذوری کی مذکورہ صورتوں کے علاوہ جوایک آخری صورت باقی رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نہ تو قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پر اور نہ ہی قعود پر یعنی کسی بھی صورت میں بیٹھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو تو ایسے شخص کے لئے یہ حکم ہے کہ دائیں پہلو پر قبلہ رخ لیٹ کر نماز ادا کرے اور اگر دائیں پہلو کے بل لیٹنے پر بھی قادر نہ ہو تو پھر چت لیٹ کر اس طرح نماز ادا کرے کہ پیر اس کے قبلہ کی جانب ہوں، سرہانا اونچا ہو تاکہ رخ بھی قبلہ کی طرف ہوجائے اور ان دونوں صورتوں میںرکوع و سجود سر کے اشارے سے ادا کرے اور اگر ہوسکے تو سجود کے لئے رکوع سے ذرا زیادہ جھکے۔ اگر کوئی لیٹ کر نماز ادا کرنے کی ان دونوں صورتوں پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے پہلی صورت یعنی دائیں کروٹ پر نماز ادا کرنا افضل ہے۔ جو شخص رکوع و سجود کے لئے سر سے اشارہ بھی نہ کرسکے تو وہ پلکوں کو جھکا کر اشارہ کرے جس میں رکوع کی نسبت سجدے کے اشارے کے لئے پلکوں کو زیادہ جھکائے۔
رخصتوں کی مذکورہ تفاصیل کی روشنی میں کرسی پر نماز ادا کرنے والے حضرات ذرا اپنے احوال پر غور کریں کہ کیا واقعی وہ اس درجہ معذور ہیں (کہ نہ تو کھڑے ہوسکتے ہیںاور نہ ہی زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ سکتے ہیں) کہ ان کے لئے کرسی پر نماز ادا کرنا شرعاً درست ہو، اگر نہیں تو وہ کرسی پر نماز ادا کرنے سے پرہیز کریں کیوں کہ ایک تو ان کی نماز نہیں ہوتی، دوسرے مسجد کا ماحول بھی ان کی وجہ سے خراب ہوتا ہے؛ ایک دوسرے کی نقل میںمسجد میں کرسیوںاور ان پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے جن میں احقر کے مشاہدے کے مطابق اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی معقول شرعی عذر نہیں ہوتا۔ تھوڑی بہت تکلیف اور جوڑوں کا درد تو آج کل اکثر لوگوں کو لاحق رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فوراً کرسی پر آجایا جائے، بلکہ نماز کو اس کی پوری ہیئت پر ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی تکلیف ہو اسے اللہ کے لئے برادشت کرنا چاہیے۔
آخری بات یہ کہ نہ صرف عبادات میں بلکہ زندگی کے دیگر تمام امور میں شریعت کی دی گئی سہولتوں میں ہی خود کو محصور رکھنے میں ہم سب کی بھلائی ہے، اس کا خیال رکھیں اور اپنی طرف سے سہولتوں کی نئی راہ نہ نکالیں، ایسی راہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے دوری کاہی سبب بن سکتی ہیں گو وہ نفس کو کتنی ہی بھلی معلوم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اس پر قائم و دائم رکھے۔آمین!
مراجع: (۱) کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ از عبدالرحمٰن الجزیریؒ ( اردو)، علماء اکیڈمی، شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب (۲۰۱۳ء)، جزء اول، صفحات ۲۷۵ – ۲۷۶، ۲۷۹ – ۲۸۰، ۶۱۲ – ۶۱۵ (۲) فقہ حنفی قرآن و سنت کی روشنی میں (شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجیؒ کی تالیف ’’الفقہ الحنفي و أدلّتہ‘‘ کا اردو ترجمہ) ، ادارہ اسلامیات لاہور و کراچی، پاکستان (۲۰۰۸ء)، جلد ۱، صفحہ ۲۷۶ – ۲۷۹ (۳) کرسی پر نماز (ایک مفصل فتویٰ)، ماہنامہ دارالعلوم، جون ۲۰۱۱، صفحہ ۱۶ – ۲۱ (۴) کرسی پر نماز کی فقہی تحقیق از مفتی محمد شعیب اللہ خاں، ماہنامہ دارالعلوم، اکتوبر – نومبر ۲۰۱۲، صفحہ ۳۸ – ۵۰ (۵) چند اہم عصری مسائل پردارالافتاء دارالعلوم دیوبندسے صادر کئے گئے فتاویٰ (مرتب مفتی زین الاسلام قاسمی)، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی، انڈیا (۲۰۱۲ء)، صفحہ ۱۲۵ – ۱۳۲ (۶) فتاویٰ رحیمیہ از مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوریؒ، دارالاشاعت، کراچی، پاکستان (۲۰۰۹ء)، جلد ۵، صفحہ ۲۰ – ۲۱، ۵۸ا – ۱۶۲، ۱۶۴ – ۱۶۵ (۷) کفایت المفتی ازمفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ، دارالاشاعت، کراچی، پاکستان (۲۰۰۱ء)، جلد ۳، صفحہ ۴۲۲ (۸) کتاب الفتاویٰ از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، زمزم پبلشرز، کراچی (۲۰۰۷ء)، جلد ۲، صفحہ ۴۶۳ – ۴۶۵ (۹) فتاویٰ اسلامیہ (عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ اور چند دیگر علمائے عرب کے فتاویٰ کا مجموعہ)، دارالسلام، ریاض، جلد ۱، صفحہ ۵۲۶ – ۵۲۷ (۱۰) علم الفقہ از مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی لکھنوی، کتب خانہ نعیمیہ ، دیوبند (۲۰۰۸ء)، صفحہ ۲۷۶ – ۲۷۹ (۱۱) بیمار کی نماز از ام عبد منیب، مشربہ علم و حکمت، لاہور، صفحہ ۱۶ – ۲۳ (۱۱) مریض کی نماز اور طہارت کے احکام، مکتب تعاونی برائے دعوت و ارشاد، سلّی، ریاض (۱۴۲۷ھ)، صفحہ ۱۴ – ۱۷ (۱۲) بیمار کی طہارت اور نماز کے احکام (ہندی) از عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ، ڈبلوڈبلو ڈبلو اسلام ہاؤس کام (۲۰۰۷ء)، صفحہ ۲۲ – ۲۵ ( ۱۳) فقہ السنّہ ازمحمد عاصم الحدادؒ ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی (۲۰۰۴ء)، صفحہ ۲۱۳ – ۲۱۴ وغیرہ۔
( رابطہ : [email protected] )