Home تجزیہ بحیثیت مسلمان ہم کیا کریں؟-ڈاکٹر جہاں گیر حسن

بحیثیت مسلمان ہم کیا کریں؟-ڈاکٹر جہاں گیر حسن

by قندیل

(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)
دنیا آخرت کی کھیتی ہے،اور ہم میں سےہر شخص یہ بات بخوبی جانتاہے کہ کھیتوں کوسرسبزوشاداب رکھنے کے لیے طرح طرح کی مشقتوں اورپریشانیوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،تبھی جاکر کھیتیاں ہری بھری رہتی ہیں اور فصلیںپُر بہار نظر آتی ہیں۔ مثال کے طورپر کھیت کوجب جیسی ضرورت پیش آئے اُس اعتبارسے اُس کی مدد نہ کی جائےاور اُس کی پریشانی نہ دورکی جائے،مثلاً وقت پر کھیت میںکھاد-پانی نہ ڈالا جائے اور اِضافی گھاس- پھوس سے اُس کو پاک وصاف نہیں کیاجائے توہم اُس میںاچھاسے اچھا بیج کیوںنہ ڈالیں اُس کا کچھ بہترنتیجہ نہیں نکلتابلکہ اُس میں ڈالا گیا بیج بھی اپنا وجود کھوبیٹھتاہےاورسڑگَل جاتا ہے۔ اُسی طرح دنیا میں انسان کی شکل میں جوبیج ڈالا گیاہے، اگراُس کی اخلاقی نگرانی اور نگہبانی نہیں ہوگی اور پھر بروقت روحانی اورجسمانی اعتبار سےاُس کی سینچائی نہیں ہوگی تو بیج نما انسان جیتے جی سڑگل جائےگا اوریوںہی مرکھپ جائےگااوراِس صورت میں نہ اُس کی دنیا،آخرت کی کھیتی بن پائےگی اور نہ اُس کی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہوپائےگا،جب کہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتاہے کہ اُس کی زندگی یوں ہی بیکار اور لاحاصل گزرجائے۔
چناںچہ ہم انسان اگرواقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی اپنے لیے،اپنے اہل وعیال کے لیے، اپنے ملک ومعاشرے کےلیے اور پوری انسانی برادری کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں نتیجہ خیز ثابت ہوتو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اپنی زندگی کے مقاصد کو پہچانیں اور اُسے یوںہی بیکارنہ گزاردیں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ مرنے کے بعد بھی ہمیںاس زندگی سےفائدہ پہنچے اور ہمارے جانے کے بعددوسرے بھی اُس کی روشنی میں اپنی زندگی بسرکرنے کے طورطریقے جانیں۔ محسن انسانیت رسول اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو شخص کسی مومن کی دنیوی پریشانی دورکرےاللہ رب العزت قیامت میںاُس کی پریشانی دورفرمائےگا،جو شخص کسی کی سختی کو آسانی میں بدل دےاللہ رب العزت اس کے لیے دنیاوآخرت میںآسانی پیدافرمائےگا،جوشخص کسی مسلم کے عیبوں کی پردہ پوشی کرےاللہ رب العزت دنیاو آخرت میں اُس کے عیبوںکوچھپادےگا،اوراللہ رب العزت ہمیشہ ایسے شخص کی مدد فرماتا ہے جو اَپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے۔ (مستدرک:۱۸۵۹)
اِس حدیث پاک میں مسلمانوں کےپردے میںپوری انسانی برادری سے خطاب کیا جارہاہےکہ اگر ہم انسان محض چارباتوں کاخاص طورپر خیال رکھ لیں،مثلاً:(۱) انسانوں کی پریشانیاں دورکریں،(۲)انسانوںکے لیے آسانیاں پیداکریں،(۳) انسانوں کےعیبوں پر پردہ ڈالیں، اور(۴) انسانوں کی امداد کرنے کے لیے ہمہ دم کمربستہ رہیں۔ توبلاشبہ ہم میں سے ہرفرد بشر کے لیے ’’جیواور جینے دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرناانتہائی آسان ہوجائے۔چوں کہ مذکورہ چاروں باتیں انسانی زندگی میں کسی نہ کسی نہج پر ضرور پائی جاتی ہیں،نیزیہ باتیں انسانی زندگی سے اُسی طرح جڑی ہوئی ہیں جیسے انسانی جسم کے ساتھ اُس کے اعضا،مثلاًہاتھ ،پاؤں ، ناک، کان وغیرہ جڑے ہیں، اِس لیے اِن تمام باتوں سےہمارے لیے کسی بھی طرح مفر نہیں۔اگر بغور دیکھاجائے تواِنسانی زندگی میں پیش آنے والی مصیبتیں اور پریشانیاں موٹےطورپردوطرح کی ہوتی ہیں :
۱۔دینی پریشانی:وہ یہ ہے کہ ایک انسان دینی اُمورومعاملات سے ناواقف ہےتووہ انسان چاہتے ہوئے بھی دینی اصول کی روشنی میں اپنی ذمہ داری نہیں ادا کرپاتا،اِس لیے ایسے انسان کو دِینی اصول واُمور سے واقف کرایا جائےاور دین نے زندگی جینے کے جوطریقے اور ضابطےبنائےہیں اُسے ناواقف انسانوں تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ انتہائی آسانی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی صحیح صحیح ادائیگی کرنے پر قادر ہوسکیں اور دُنیا وآخرت میں ہر طرح کی پکڑ سے محفوظ وسلامت رہ سکیں۔
۲۔دنیوی پریشانی: وہ یہ ہے کہ ایک انسان مقروض ہے ، معاشی طورپر تنگ حالی کا شکار ہے،اپنی آل و اولاد کومناسب حال تعلیم وتربیت کی طاقت نہیں رکھتاوغیرہ ، تو اُس مقروض انسان کےقرضے ادا کرنے کا اہتمام کیا جائے،اُس کی معاشی بدحالی دور کرنے کےلیےاُس کی مدد کی جائے،اوراُس کی آل واولاد کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے۔
اِس سےجہاںایک انسان قرضے کی فکر اور مالی بدحالی کے باعث محتاجگی سے محفوظ رہےگاوہیں آپس میںایک دوسرے سے انسانی ہمدردی پیدا ہوگی۔نیزیہ کہ جہاںغیرتعلیم یافتہ بچے اپنی جہالت کی وجہ سے معاشرے میں فتنہ وفساد اور اَفراتفری کا باعث ثابت ہوسکتے ہیں،وہیں تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اپنی زندگی سنوارنے کے ساتھ دینی ودُنیوی دونوں لحاظ سے ماحول کو سازگار بنانے میںمددگار ثابت ہوںگے۔ مزیدیہ کہ کسی بھی انسان کی غیبت اور اُس کے عیبوں کو ظاہر کرنے سے بہرحال بچناچاہیےکہ غیبت حرام ہے ، اور اُس کی وجہ سے نہ صرف غیبت کرنے والے کا سخت نقصان ہوتا ہےبلکہ ملکی اور معاشرتی سطح پر بھی اُس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں،مثلاً ملکی افراتفری، معاشرتی فتنہ وفساد ، آپسی ٹکراؤ وغیرہ، اور یہ تمام باتیں دینی اور دنیوی دونوں اعتبارسے انتہائی حساس اورخطرناک ہیں،اِس لیے اِن پہلوؤں پر بڑی سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ کہ اِن تمام باتوں کے پیش نظرہم اپنامحاسبہ کریں کہ ہم کس حد تک اِس حدیث پاک پر عمل کررہے ہیں؟اگر ہمارا عمل اِس حدیث پر ہے تو اللہ کا شکرادا کریں اور اگر نہیں ہے تو آج ہی سے ہم اِس حدیث کی روشنی میں اپنی زندگی کو ڈھال لیں، ورنہ ہم میں سے ہرشخص یہ جان لے کہ اُس کے مسلمان ہونے کا کچھ حاصل ہوگا اور نہ ہی اُس کی تخلیق کا کچھ فائدہ اُسے ملے گا۔

You may also like

Leave a Comment