ترجمہ:نایاب حسن
اگر آپ سوشل میڈیا میں لوگوں کی سرگرمیوں پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ عصرِ حاضر میں،کم ازکم ڈیجیٹل سطح پر، نرگسیت تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ذہنی صحت کے ماہرین بھی تصدیق کررہے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی میں نرگسیت کی وبا عام ہوتی جارہی ہے،سیلفیاں لینے اور انھیں سوشل پلیٹ فارمز پر ڈالنے کا جنون،جو اب عام عادت بن چکی ہے،اسی کا ایک نمونہ ہے۔
ہارپر کولنز کی ڈکشنری میں نرگسیت کے معنی بتائے گئے ہیں ’’اپنے آپ پر ضرورت سے زیادہ توجہ یا خود پسندی‘‘۔
یہ دراصل حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی،ظاہری ٹیپ ٹاپ پر ارتکاز،تسکینِ نفس کا بڑھا ہوا جذبہ، حقیقی صلاحیت و اہمیت سے بڑھا چڑھا کر اپنے آپ کو پیش کرنے سے عبارت ہے۔
نرگسیت کے ذیل میں کئی ایسی صفات بھی آجاتی ہیں،جو بسا اوقات ہم میں سے کسی میں بھی پائی جاسکتی ہیں،مگر جب وہ اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہیں، اس وقت صحتِ ذہنی کے ماہرین ایسے شخص کو نرگسیت زدہ قرار دیتے ہیں۔
نرگسی شخص کی پہچان کیسے کی جائے؟
نرگسی شخصیت کی پہچان میں مہارت رکھنے والے برطانوی ڈاکٹر ٹینیسن لی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس بیماری کی تشخیص کے لیے نو متفقہ اور مبینہ پیمانے یا علامات وضع کی گئی ہیں ، اگر ان میں سے بہ یک وقت پانچ علامتیں بھی کسی کے اندر پائی جاتی ہیں،تو وہ نرگسیت کا شکار قرار دیا جائے گا:
۱-یہ کہ وہ اپنے آپ کو مبالغے کی حد تک اہم سمجھتا ہو۔
۲- اسے اپنے کامیاب اور طاقت ور ہونے کا وہم ہو۔
۳- حد سے زیادہ خود پسند ہو،اپنے آپ کو منفردِ روزگار سمجھتا ہو۔
۴- ہر اچھی چیز،عہدے اور حصول یابی کا بے وجہ ہی اپنے آپ کو حق دار سمجھتا ہو۔
۵- موقع پرست ہو،لوگوں سے حسد کرتاہو اور دوسروں کے تئیں اس کے دل میں کوئی ہمدردی نہ ہو۔
۵- اس کی حرکتیں اس کے عجب و تکبر کو ظاہر کرتی ہوں۔
لی کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کا اپنے آپ کو غیر معمولی حد تک اہم ،برتر و بالا سمجھنا آس پاس کے لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو،تو ایسا شخص بیمار سمجھا جائے گا،یعنی اسے نرگسیت کی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔
کیا یہ ایک وبا میں تبدیل ہوگئی ہے؟
امریکہ میں اس موضوع پر ایک اسٹڈی کی گئی ہے،جس میں پایا گیا کہ سو میں سے چھ امریکی شہری نرگسیت کے شکار ہیں،حالاں کہ وہیں کم سے کم پانچ دوسری اسٹڈیز بھی اس حوالے سے کی گئی ہیں، مگر بہت سے نمونے سامنے رکھنے کے باوجود کوئی ایسا مریض نہیں مل سکا۔
انوشکا مارسین نامی خاتون باقاعدہ ایک ادارہ چلا رہی ہیں،جس میں نرگسیت کی علامتوں کے حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کی جاتی اور انھیں دور کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ مارسین نے خود اپنے شوہر سے اس کی نرگسیت کی وجہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی،ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے اور ہمارے ارد گرد بے تحاشا پائی جاتی ہے۔
علاج کیا ہے؟
ڈاکٹر لی کا کہنا ہے کہ بہت سے وہ اشخاص جو نرگسیت زدہ ہوتے ہیں،وہ ان کے پاس یہ شکایت لے کر آتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کے شکار ہیں،حالاں کہ اس بیماری میں ڈپریشن کو دور کرنے والی دواؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ نرگسیت کا علاج آسان نہیں ہے۔ یہ نفسیاتی مرض کے علاج کرنے جیسا مشکل ہے؛اس لیے کہ اس میں بھی مریض کو اس بات کا قائل کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسے کوئی مرض ہے،کیوں کہ وہ عموماً یہ سمجھتا ہے کہ اسے جو کچھ پریشانی ہے اس کے ذمے دار دوسرے لوگ ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ڈاکٹر سے لیے گئے وقت کی بجاے دیر سے اس سے ملنے جاتے ہیں یا جاتے ہی نہیں،انھیں لگتا ہے کہ اس کا علاج غیر ضروری ہے یا وہ ڈاکٹر غیر اہم ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے،نرگسیت کی کیفیت و کمیت کم ہوتی جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف الینواے،امریکہ کے پروفیسر اور ماہر نفسیات برنٹ روبرٹس کا کہنا ہے کہ’’ عمر بڑھنے کے ساتھ بہت حد تک ہماری نرگسیت کم ہوتی جاتی ہے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ’’ اگر میں کسی چیز کو حقیقتاً عالم گیر سمجھتا ہوں،تو وہ یہی ہے کہ نوجوانوں کے بالمقابل بوڑھے کم نرگسی ہوتے ہیں‘‘۔ متعدد اسٹڈیز اور سرویز میں بھی اس قسم کے نتائج سامنے آئے ہیں،حالاں کہ یہ کوئی حتمی اور کلی قاعدہ نہیں کہا جاسکتا ہے؛کیوں کہ بہت سے بوڑھے اور طویل العمر لوگ بھی اس مرض کے شکار پائے گئے ہیں۔
ایک شخص ایسا بھی
برطانیہ میں ایک شخص ہے ٹیوڈور نام کا،جو اس نرگسیت نامی بیماری سے دوچار ہے اور اسے اس کا احساس و اعتراف بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسے یہ بیماری بچپن سے ہے۔’’مجھے ابتدائی عمر میں ہی احساس ہوگیا کہ لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرکے اپنا کام نکالنے میں مجھے مزا آتا ہے،جب میں نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرلی،تو میری ایک دوست نے مجھے اس کی حقیقت کے بارے میں بتایا،وہ ماہر نفسیات تھی،اس نے مجھے بتایا کہ میں نرگسیت کا شکار ہوں اور تبھی میرے اس مرض کی باضابطہ تشخیص ہوئی‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے’’ مجھے اپنے ذہن و فہم سے پتا چل جاتا ہے کہ لوگ میری حرکتوں سے کیوں پریشان رہتے ہیں،مگر میں اس پر دھیان نہیں دیتا؛کیوں کہ اسی طرح میرے کام نکلتے ہیں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اخلاقی کجی ہی اس کے لیے کسبِ معاش کا ذریعہ بنی ہوئی ہے،یہ شخص اب تک نرگسیت پر متعدد کتابیں لکھ چکا ہے اور انٹرنیٹ پر لوگوں کو اس موضوع پر معلومات فراہم کرتا اور مشورے دیتا ہے اور ایک میٹنگ کے عوض ستر ڈالر تک فیس لیتا ہے۔
حالاں کہ پروفیسر روبرٹس اس کے خیال سے اختلاف کرتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ’’میں نے تین یونیورسٹیز کے طلبہ کے تین گروپوں کا جائزہ لیا،جس کے دوران یہ پتا چلا کہ عموماً طلبہ میں تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نرگسیت کی کیفیت کم ہوجاتی ہے‘‘۔
بہر کیف نرگسیت کی تعریف تو آسان ہے کہ انسان ضرورت سے زیادہ خود پسند ہو،اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہ سمجھتا ہو اور ہمہ دانی کے زعم میں مبتلا ہو،مگر یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کس ایج گروپ کے لوگوں میں یہ بیماری پائی جاتی یا نہیں پائی جاتی ہے یا کم یا زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ رواں صدی میں وسائلِ معلومات و تشہیر کی فراوانی اور سوشل میڈیا نے لوگوں میں نرگسی رجحانات کو بے پناہ فروغ دیا ہے۔
(بہ شکریہ بی بی سی عربی)