Home تجزیہ وزیرداخلہ کی یہ زبان اورملک کا جمہوری نظام-سید منصورآغا

وزیرداخلہ کی یہ زبان اورملک کا جمہوری نظام-سید منصورآغا

by قندیل

ایک ادبی جلسہ میں ساحرلدھیانوی کی شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے جاوید اختر نے کام کی بات کہی۔کہا ’کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ کام کرنے والے کچھ لوگ چھوٹے ضرورہوسکتے ہیں۔ بڑآدمی چھوٹے کام کو ہاتھ لگالیتا ہے تو وہ بڑا ہوجاتا ہے۔‘ان کی اس بات کی اتنی وضاحت کردوں کہ آدمی کام سے ہی بڑاہوتا ہے۔ نام اورمنصب سے نہیں۔اس کی ایک تازہ مثال شہریت قانون کے خلاف جاری تحریک ہے۔ ڈھونڈو تو کوئی بڑانام نہیں نظرآتا،کام دیکھو تو اتنا بڑا جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصل میں بڑے تووہی ہیں جواس کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تل تل مل کر پہاڑ بن گیا۔ اورپہاڑ تھے وہ بونے نظرآنے لگے۔
سنئے سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں سے جابراورظالم حکمراں کا خوف نکال دیا جائے اورخودسرحکمراں اپنی صفائی دیتا پھرے۔ اس اندولن میں نہ کوئی گاندھی ہے، نہ جے پی اور ہزارے۔ یہ بڑاکام ہماری باشعور گھریلو خواتین ،تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اورلڑدکوں نے کردکھایا۔اس کی دھمک سے دانشورطبقے کی توجہ اس طرف گئی۔ نوٹ کیجئے کہ تحریک میں شریک خواتین اوران کی مدد میں مستعدافراد میں سے کسی کونام ونمود کی چاہ نہیں۔ ان سب کو ہ ملک کے مستقبل کو بربادی سے بچانے کی مبارک فکر متحرک کئے ہوئے ہے۔ان کیلئے مبارکباد کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس کا صلہ انشاء اللہ اس دنیا میں بھی جلد ملے گا اورآخرت میں بھی اپنی نیک نیتی کا اجر سے کوئی محروم نہیں رہے گا۔
اندرون ملک پچھلے چار، چھ سال سے پروپگنڈاکیا جارہا تھا کہ مسلم خاتون بہت مظلوم ہیں۔ مردکے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی فریب کے ساتھ تین طلاق قانون لایا گیا،لیکن بقول عارفہ شیروانی،جامعہ کی دو لڑکیوں نے اوراس کے بعد ملک کی بھر کی سڑکوں پرخواتین کے ہجوم نے اس جھوٹ کو تارتارکردیا۔ یہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں اورلگاتارسوا ماہ سے اس مہم میں شامل نہیں رہ سکتی تھیں اگر گھروں میں ان کی نہ چلتی ہوتی،ان کوخاندان بھرکی دعائیں نہیں ملی ہوتیں یاان کو مردوں کے جبرکا سامنا ہوتا۔ یہ منظردستک دے رہاہے کہ اگلا دورخواتین کا دور ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو یہ کالم نویس گزشتہ کئی سال سے نوجوان طلبااورطالبات کے جلسوں میں کہتا رہا ہے۔ لڑکیاں تعلیم میں بھی آگے ہیں اور احساس ذمہ داری سے کام کرنے میں بھی، توپھرزمانے کی نکیل ان کے ہاتھوں میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟اللہ ان کے حوصلوں کوسلامت رکھے۔
مجھے یاد ہے جب محترمہ اندراگاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو منصب صدارت کا امیدواربنایا توکسی انگریزی اخبار نے ایک اداریہ میں لکھا تھاکہ ’کبھی آدمی کرسی کو بڑا بنا دیتا ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کرسی آدمی کو بڑابنادیتی ہے۔‘گویا منصب کی ذمہ داری آداب حکمرانی سکھا دیتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کبھی اس کا الٹا بھی ہوتا ہے۔بی جے پی نے سیاست میں جس کلچر کو فروغ دیا ہے اس نے زبان کی شائستگی کومٹادیا ہے اورسیاست دانوں کی زبانوں سے’بھائیوں ’اور ’موالیوں‘ جیسے جملے زیادہ سنائی دیتے ہیں۔ زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب کوئی وزیر غیرمحتاط زبان استعمال کرتا ہے، اور پارٹی وحکومتی ذمہ دار اس کا نوٹس نہیں لیتے۔خاص طورسے حیرت محترم وزیرداخلہ امت شاہ کی بولی پرہوتی ہے۔انکا تعلق بنیا برادری سے ہے جو ہرلفظ تول تول کر بولتی ہے اورمیٹھا بولتی ہے۔ اول فول نہیں بکتی۔ ان کے دادا ایک ریاست کے نگرسیٹھ(ناظم مالیات) تھے۔ والدصنعت کارتھے۔ خودبھی ان پڑھ نہیں، بایوکیمسٹری میں بی ایس سی کیا ہے۔ لیکن گزشتہ 21جنوری کو انہوں نے لکھنؤ میں جو کچھ کہا وہ ان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
شاید پارٹی صدارت سے سبکدوشی کے صدمہ نے ان کوبوکھلادیا ہے کہ ان کا لہجہ اوربھی درشت ہوگیا ۔ پوری قوم کو ان کی یہ دھمکی، ”میں لکھنؤ کی سرزمین سے ڈنکے کی چوٹ کہنے آیا ہوں کہ جسے مخالفت کرنی ہے وہ کرتا رہے، سی اے اے قانون واپس نہیں ہوگا۔“ کچھ اورکہتی ہے۔شاید ان کا مقصد اپنے کورچشم ہمدردوں کی منھ بھرائی کرنا تھا، تاکہ وزیراعظم کے منصب کیلئے ان کمر مضبوط ہوسکے۔ اس پر ہم بس اتنا ہی کہیں گے۔ ہائے رے آرزو۔مودی جی چاہتے توپارٹی صدرکے منصب پران کی توسیع کچھ مشکل نہیں تھی۔ جس کو دیش کے دستور کی پرواہ نہیں، اس کیلئے پارٹی کا دستورکیا چیز ہے!اب توپی ایم کا ایک لائن کانوٹ ان کو گھرواپس بھیج سکتا ہے۔
ان کی یہ بولی اوریہ اندازخطاب ایک عظیم جمہوری ملک کے وزیرداخلہ کے منصب کی شان کے خلاف ہے ۔دیش کے موجودہ ماحول میں دھمکیاں دینا،سیاسی تدبر اور دانائی کی ضد ہے۔ جمہوریت بات چیت سے اورایک دوسرے کیلئے گنجائش سے چلتی ہے، دھونس اوردھمکی سے نہیں۔ آپ کو تین ممالک کے ہندوبھائیوں کی توفکرہے، لیکن اپنے ملک کے باشندوں سے آپ کا یہ مغرور انداز جمہوریت کی بھی توہین ہے اور ان تین چوتھائی ہندستانیوں کی بھی جو اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پراترآئے ہیں۔ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورذمہ دار سابق وموجودہ منصب داربھی ہیں، نوجوان طالب علم بھی ہیں اور ہر طبقہ ومذہب کے عوام بھی۔ آپ ان کی آواز کو مسترد کرکے کس کی توہین کر رہے ہیں؟ سب سے زیادہ یہ عورت ذات کی توہین ہے، جو اس مہم کی طاقت بنی ہوئی ہیں۔ ایسی شدید سردی میں اپنے آرام اورچین کی قربانی دےکرکوئی کسی کے بہکانے سے باہر نہیں آتا۔لیکن ان کے جذبہ اورقربانی کی قدرآپ کو کیا ہوسکتی ہے جب نظریہ ملک پر ایسا نظام مسلط کرنے کا ہو جس میں دیویوں کی مورتیوں اورتصویروں کی پوجا تو ہو، مگردیوی جیسی خواتین کو ہرروز اگنی پریکشا سے گزاراجائے۔ عصمت دری کے گناہگاروں کو اونچے منصبوں پر بٹھادیا جائے،جو بناطلاق جوان بیوی کے جیون کو سوگواربنادے اور80 سال کی ماں کولائن میں لگوادے اس کو اپنا آئیڈیل بنا لیاجائے توعورت ذات کی قدر کیسے ہوگی؟
افسوس کہ رہی سہی کسرآپ کے مندرآندولن نے پوری کردی۔ ہم اپنے بچپن سے ’جے سیارام‘ کی گونج سنتے تھے ۔ سیتا جی کا نام پہلے اوررام جی کا بعدمیں۔ اس اندولن نے جو نیا نعرہ دیا ہے اس میں سیتاجی کا نام ہی اڑادیا گیا اور’جے سیارام‘ کے بجائے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ حالانکہ سیتا جی کے بنا نہ رامائن مکمل ہے اورنہ رام چندرجی اورلکشمن جی کا مثالی کردار پورا ہوتاہے۔ برانہ مانئے، آپ کی پارٹی کے لیڈر اور نام نہاد سنتوں سے اچھاتو راون کا ہی تھا، جس کے قبضے میں سیتا جی اتنے دن تک رہیں اوران کو چھوا تک نہیں۔ آپ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے لیڈراپنی پڑوس کی بچیوں کے ساتھ اورسنت لوگ اپنے آشرم کی بچیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟بتانے کی ضرورت نہیں۔
خواتین کی بااختیاری کے معاملہ میں بھی بھاجپا کا ریکارڈدوغلے پن کاہے۔جب تک یوپی اے سرکار رہی ایک تہائی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا اوراب سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے شاہ کا یہ لکھنؤ والا بیان آگ پر تیل کا کام کریگا۔ ان کی اس دھمکی سے شاید ہی کوئی ڈرا ہو۔بلکہ جوش اوربڑھے گا۔ا ن لیڈروں کو اندازہ نہیں کہ عورت جب کچھ ٹھان لیتی ہے توہماری ہربیٹی اوربہن رضیہ سلطانہ اورلکشمی بائی بن جاتی ہے۔
امت شاہ جی! نہایت ادب کے ساتھ اپنی اس دھمکی کا جواب بھی سن لیجئے۔ جمہوری نظام میں جو سرکار عوام کی بولی کو نہیں سمجھتی اس کو عوام کوڑے دان میں ڈالدیا کرتی ہے۔ اگرزبان نہیں سنبھلی، جھوٹ، فریب اوردھمکیوں کو سلسلہ بند نہیں ہوا،تو ساڑھے چارسال گزرتے دیر نہیں لگتی۔
مجھے یہ یاد دلانے میں تکلف نہیں کہ دیگرمذاہب کی طرح ہندو دھرم بھی بڑبولے پن اور گھمنڈکی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ہندودھرم جابجا ’ادنڈتا‘ کے خلاف خبردارکرتا ہے۔لیکن ہندتووا کا نعرہ لگانے والوں کی بولی ٹھولی اورسرگرمیوں سے جو ماحول بن رہاہے اس نے اس دیش کی آدھیاتمکتا (روحانیت) کو سخت نقصان پہنچ رہاہے۔دھن،دولت، دھونس، دھمکی اوردکھاوا دھرم کی آتما کے قاتل ہیں۔ کسی پڑوسی کی آڑ زیادہ دن کام نہیں آیا کرتی۔

You may also like

Leave a Comment