عالی جناب عمران خان عرف مودی ثانی صاحب، السلام علیکم!
آپ کا ہمدردی نامہ موصول ہوا، جسے شکریے کے ساتھ آپ کو لوٹاتے ہوئے ہمیں مسرت ہو رہی ہے، کیوں کہ آپ کے نزدیک ‘ہندوستانی اقلیت’ کے معنی صرف ‘مسلمان ‘ ہے جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‘پاکستانی اقلیت’بھی مسلمان ہی ہیں، یہ اور بات ہے کہ آپ نے احمدیوں کو اسلام سے خارج کررکھا ہے اور شیعوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا رکھا ہے۔دوسری جانب آپ کے بڑے بھائی اور ممدوح نریندر مودی جی کے نزدیک جس طرح بیرون ممالک میں رہنے والی استحصال شدہ اقلیت کے معنی صرف ‘مسلمانوں’ کو چھوڑ کر ہر مذہب کے پیروکار ہیں، اسی طرح آپ کے نزدیک بھی دوسرے ممالک میں رہنے والی استحصال شدہ اقلیت کے معنی سوائے مسلمان کے دوسری کوئی مذہبی قوم نہیں۔
جس طرح آپ مقدس گائے کے نام پر ہندوستان میں مسلمانوں کی ماب لنچنگ پر جب آنسو بہاتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ آپ کے ان آنسوؤں کو خشک کرنے کے لیے آپ کی توجہ ان پاکستانی قوانین پر دلائی جائے جس کے تحت ابھی حال میں جنید حفیظ کو سزائے موت سنائی گئی اورجس کے تحت ہزاروں لوگ آج بھی پاکستانی جیلوں میں قید و صعوبت کی دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی ماب لنچنگ اور پاکستان میں رہنے والے دو مسیحی جوڑے شہزاد مسیح اور شمع بی بی کوجنونی بھیڑ نے جب زندہ آگ کی بھٹی میں جھونکا تھا تو ان کے باقی بچے اپنی دہشت زدہ آنکھوں نے اپنی حاملہ ماں اور باپ کو زندہ جلتے دیکھ رہے تھے لیکن شاید آپ اس وقت اپنی ماں کے نام پر اسپتال بنانے کے لیے چندہ وصول کرنے میں مصروف تھے۔ جس وقت احمدیوں کی بستیوں کو شعلوں کی نذر کیا جارہا تھا اور شیعوں کے امام باڑوں پر خود کش دھماکے ہو رہے تھے تو ممکن ہے کہ آپ کے نزدیک اس وقت بھی ‘اقلیت’ کا مفہوم صرف ہندوستانی مسلمان ہی ہوں۔ آپ ‘کشمیری مسلمانوں’ کی یاد میں ماہی بے آب کی طرح عالمی سیاست کی قالین پر لوٹیں لگاتے ہیں لیکن آپ کو ہزارہ نسل کشی کی نہ ختم ہونے والی داستان یاد نہیں رہتی اور نہ اپنی ہندو اقلیت کی وہ سسکیاں سنائی دیتی ہیں جو اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے کانوں میں زہر گھولتی ہیں کہ کس طرح ان کی بیٹیوں کا اغوا کیا جاتا ہے، انھیں جبراً مسلمان بنایا جاتا ہے اور پھر ان کا ریپ کیا جاتا ہے۔کیا آپ کو ان مندروں کی تعداد یاد ہے جنھیں بابری مسجد کی طرح یا تو مسمار کردیا گیا یا اس پر قبضہ کرکے ان کے تقدس کو پائمال کیا گیا؟ اب کیا کیا گنواؤں اور کیوں گنواؤں کہ یہ سارے واقعات آپ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
مختصر یہ کہ یہی صورت حال موجودہ ہندوستان کی ہے، بس فرق یہ ہے کہ آپ ہم سے ستر سال آگے ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ بھارت اب آپ ہی کےراستے پر چل پڑا ہے۔ آپ کے بڑے بھائی نریندر مودی اب آپ ہی کے ‘مسلم پاکستان’ کے طرز پر بھارت کو ‘ہندوپاکستان’ بنانے پر کمر بستہ ہیں۔میں اس تلخ کلامی کے لیے معذرت خواہ ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ دونوں کا جنم سیاست کی ایک ہی کوکھ سے ہوا ہے اور آپ دونوں جڑواں ہیں۔آپ دونوں اپنے اپنے ملک کی عوام کو ترقی و فلاح کی راستے سے کھدیڑ کر مذہبی تنگ نظری کے گڑھے میں دھکیلنے پر آمادہ ہیں اور اس کے لیے آپ دونوں نے جو یکساں حکمت عملی ہے اپنائی ہے، وہ یہی ہے کہ عوام کا دھیان بٹانے کے لیے آپ اپنے ملک میں ‘بھارت بھارت’ کی تسبیح پڑھتے رہیں اور مودی جی یہاں ‘پاکستان پاکستان’ کا منتر جپتے رہیں۔
تو محترم عمران خا ن مودی صاحب! آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ نے کشمیریوں کے حقوق کی آزادی کو مذہب اور مذہبی فرقے سے جوڑ کر انھیں اپنے اصل جمہوری مقصد سے حاشیے پر دھکیل دیا ہے اور ان پر مصیبتوں کا پہاڑ تو ڑنے میں مودی جی کو اپنا تعاون بخشا ہے، اس طرح براہ کرم اب ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے دائرہ کرم سے باہر رکھیں اور ہم پر اپنی ‘حمایت’ کے دھماکے کرنے سے پرہیز کریں کہ یہ ہماری لڑائی ہے، اور جب میں ‘ہم’ کہتا ہوں تو اس کا مطلب مسلمان نہیں بلکہ ‘ہندوستانی’ ہوتا ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت آج اپنے حقوق کی لڑائی کندھے سے کندھا ملا کر لڑ رہے ہیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ اپنے بڑے نریندر مودی کے ساتھ مل کر ہمیں تقسیم کرنے کی ساز ش نہ کریں، کیوں کہ ‘ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی۔’
والسلام