Home خاص کالم وائیناڈ لینڈ سلائیڈنگ، بچاؤ کاری سے باز آبادکاری کی طرف بڑھتےقدم -اسانغنی مشتاق رفیقی

وائیناڈ لینڈ سلائیڈنگ، بچاؤ کاری سے باز آبادکاری کی طرف بڑھتےقدم -اسانغنی مشتاق رفیقی

by قندیل

جماعت اسلامی ہند کیرلا اپنے ذیلی تنظیمیں آئیڈیل ریلیف ونگ اور پیوپلس فاؤنڈیشن کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف دکن کے مغربی پہاڑی سلسلے سے گھری سر سبز و شاداب وادی، حد نظر تک ہریالی بکھیرتی پہاڑی ڈھلانیں ، کہیں الائچی کے مہکتے ہوئے باغات تو کہیں ایکڑوں میں پھیلے ہوئے ناریل اور کیلے کے درخت، کہیں چائے اور کافی کی تیار فصلیں تو کہیں کالی مرچ کے باغات جن کی خوشبوؤں سے فضا ہمیشہ معطر رہتی ہے۔ محبوبہ کے ہرے ڈوپٹے سے جھانکتی کالی زلفوں کی طرح وادی کے حسن میں اضافہ کرتی تار کول کی بل کھاتی سڑکیں، پہاڑوں سے راستہ بنا کر نکلتے ہوئی دریا ، چائے کے باغات اورانسانی آبادیوں پر نظریں جمائے پہرہ دیتے ہوئے جنگالات ، پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں سے اٹھکلیاں کرتے بادل، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے خوبصورت مناظر، ریاست کیرلا کے ضلع وائناڈو کے اس حسین وادی میں 29 جولائی تک سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، دو دن سے بارش زیادہ ہورہی تھی ، 48 گھنٹے میں 570 ملی میٹر ، جس کی وجہ سے ریاستی انتظامیہ نے پنجیریمٹوم ، اٹامالہ اور منڈکئی علاقوں کے رہائشیوں کو 29 جولائی 2024 سے شروع ہوئے ریلیف کیمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔ الرٹ جاری ہونے کے باوجود چورل مالئی کے مکین چونکہ ان کا علاقہ لینڈ سلائیڈنگ کا نشان زدہ علاقہ نہیں تھا اپنے اپنے مکانوں میں بند ہوگئے۔ شدید بارش کے چلتے پہلی لینڈ سلائیڈنگ ارونجی پوژا دریا کے پاس رات کے ایک بجے پنجیریمٹوم اور منڈکئی گاؤں کے درمیان ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں گاؤں پوری طرح بہہ گئے۔ دوسری لینڈ سلائیڈنگ صبح چار بج کر دس منٹ پر چورل مالئی کے قریب ہوئی جس نے ارونجی پوژا دریا کا رخ اچانک پھیر دیا جس کے نتیجے میں آئے سیلاب میں چورل ملئی ٹاؤن کا بڑا حصہ بہہ گیا۔ بہاؤ اتنا تیز تھا کہ چورل مالئی اور منڈکئی کو ملانے ولا واحد پل بھی اس کی نذر ہوگیا،( دوسرے دن مدراس انجینئر گروپ کی آرمی انجینئر ٹاسک فورس کے 144 فوجی جوانوں نے اس پل کی جگہ 190 فٹ لمبا ایک عارضی پل 31 گھنٹوں میں بنا کر بچاؤ کاری مہم کو تیزی بخشی)، جس کی وجہ سے 400 کے قریب خاندان پھنس کر رہ گئے۔ مجموعی طور پر چھ دیہات، یعنی پنجیریمٹوم، میپڈی، منڈکئی، اٹامالا، چورل مالئی، اور کنہوم ، اس لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہوئے۔ جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ تیار کردہ وایناڈ لینڈ سلائیڈنگ کی پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق ملبے کے بہاؤ کی رفتار 57 میٹر فی سیکنڈ تھی، جو کہ انتہائی تیز رفتار زمرے سے بھی تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ بہتے ہوئے ملبے کی اونچائی جو گارا اور چٹانوں پر مشتمل تھی 1544 میٹر تھی، اور تقریبا 86000 میٹر زمین پہاڑی سے کھسک کر نیچے کی طرف چلی گئی۔
صرف چند گھنٹوں کے اندر ایک خوبصورت وادی اپنے تمام تر حسن سمیت قدرت کی ایک ہلکی سی جھرجھری میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اپنے نرم بستروں پر خوابیدہ کئی سو افراد مستقبل کے حسین خواب آنکھوں میں سجائے منوں مٹی کے نیچے زندہ دفن ہوگئے۔ بچے یتیم ہوگئے، عورتوں سے ان کا سہاگ چھن گیا، مرد اپنے خاندان پر رونے کے لئے تنہا رہ گئے۔ بوڑھے ماں باپ کے جوان سہاروں کو سیلاب تنکے کی طرح اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ جو مرگئے انہوں نے کس دردناک عالم میں اپنی جان دی ہوگی کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جو بچ گئے، اپنوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے دھنستا، ڈوبتا اور مدد کے لئے چلاتا ہوا دیکھ کر بھی کچھ نہ کر سکنے کے غم میں مبتلا کس اذیت سے گذر رہے ہیں اس کا اندازہ لگا پانا محال ہے۔ کوئی اس ماں کے درد کو کیسے سمجھ سکتا ہے جو پانی کے تیز بہاؤ میں ایک شاخ سے اپنی بچی کے ساتھ لٹکی رہی اور ایک بچے کو بچاتے بچاتے خود اس کی بیٹی کا ہاتھ اس سے چھوٹ گیا اور وہ بہہ گئی۔ زندگی کی ہما ہمی لئے ہمیشہ بیدار ہوتی اس حسین وادی پر جب 30جولائی کا سورج طلوع ہوا تو ہر طرف ٹوٹے مکانات، اکھڑے ہوئے درختوں، الٹی پڑی سواریوں ، کیچڑ اوڑھی سڑکوں، بے ہنگم پھیلے چٹانوں اور گدلے پانی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس پر بین کرتی عورتوں کی چیخ و پکار، ملبوں میں اپنوں کو ڈھونڈتی مایوس آنکھیں، اپنے مکان اور مالکان کو ڈھونڈتے بے زبان جانور ، بچاؤ کاری کے لئے پہنچی انتظامیہ اور سماجی کارکنوں کی آوازیں، ماحول کو اور دردناک بنا رہے تھے۔ وہ سڑکیں جن پر کل تک زندگی دوڑتی پھرتی تھی قطار در قطار ایمبولینسوں کی سائرنوں سے گونجنے لگی تھی۔
یہ حادثہ ریاست کیرلا کی اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور بھیانک قدرتی حادثہ باور کیا جارہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سانحے میں تادم تحریر 427 افراد ہلاک ہوچکے ہیں 130 لاپتہ ہیں اور 378 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 310 ہکٹیر زرعی زمین جس میں 50 ہکٹیر الائچی کی، 100 ہکٹیر کافی کی، 55 ہکٹیر چائے کی، 70 ہکٹیر کالی مرچ کی، 15 ہکٹیر سپاری کی، 10 ہکٹیر ناریل کی اور 10 ہکٹیر کیلے کی ہیں ، اس سیلاب میں بہہ گئیں۔
جماعت اسلامی ہند کیرلا میں ایک مضبوط سماجی نیٹ ورک کی حامل جماعت ہے۔ اس کی ہنگامی بچاؤ کاری کے لئے قائم کردہ شاخ آئیڈیل ریلیف ونگ کی ٹیم کو جیسے ہی اس حادثے کی اطلاع ملی وہ فوراً 30 جولائی کی صبح وہاں پہنچ گئی اور بچاؤ کاری میں جٹ گئی۔ یہ موقع پر پہنچے والی پہلی بچاؤ کاری ٹیموں میں سے ایک تھی۔
دعوت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں آئیڈیل ریلیف ونگ کیرلا کے معتمد برائے رابطہ عامہ حمزہ کنجو نے اس خوفناک حادثے کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ 30 جولائی کو فجر کے ساتھ ان کی ٹیم وہاں پہنچ گئی، ان کے کچھ کارکنان ان سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے، 85000 اسکوائیر میٹر زمین ملبے کی شکل میں آٹھ کلو میٹر کے علاقے میں پھیل گئی تھی۔ جس سے لگ بھگ 400 سے زائد گھر یا تو مکمل طور پر بہہ گئے تھے یا رہائش کے قابل نہیں رہے تھے۔ 10000 افراد اس زمین کھسکنے اور سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوئے ان میں چھ سو سے آٹھ سو افراد بہہ گئے، جن میں 450 افراد کی لاشیں مل چکی ہیں اس کے علاوہ 250 افرد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ آئیڈیل ریلیف ونگ کے کارکنان نے بچاؤ کاری کے تمام کاموں میں چاہے وہ لاشیں ڈھونے کا ہو ، ملبہ کھودنے کا ہو، پل بنانے کا ہو،کیچڑ صاف کرنے کا ہو یا لاشوں کی تدفین کا ہو وہاں موجود فوج، ریاستی محکموں اور دوسرے رضارکار ٹیموں کے ساتھ صف اول میں کھڑے ہوکر ساتھ دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 30 جولائی کو جب وہ پہنچے تو منڈکئی کے مسجد میں اور آس پاس کچھ لوگ پھنسے ہوئے تھے، 12افراد کو ان کی ٹیم نے بحفاظت محفوظ مقام تک پہنچایا اور 13 لاشوں کو انہوں نے اس وقت ملبے سے نکالا ۔ مسجد کے امام جن کا گھر پاس ہی میں تھا اس سیلاب میں بہہ گئے، ان کی لاش وہاں سے تقریباً 20 کلو میٹر کی دوری پر ملی۔ انہوں نے بتایا کہ 180 افراد پر مشتمل ان کی ٹیم جن میں 30 عورتیں بھی شامل ہیں تاحال رات دن بچاؤ کاری میں جٹے ہوئے ہیں۔ اُن کے علاوہ مسلم لیگ کیرلا، سنی یوتھ فیڈریشن، اور کئی مقامی سماجی آرگنائزیشن کے رضاکار بھی بچاؤ کاری مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔ ( بچاؤ کاری کے درمیان آئیڈیل ریلیف ونگ کے کارکنان کی ایک ٹیم کی کچی مٹی کی زمین پر باجماعت نماز ادا کرنے کی ایک ویڈیو سوشیل میڈیا پر آج کل بہت وائرل ہورہی ہے)۔ انہوں نے بتایا کہ کئی متاثرین کی لاشیں سوچی پارا آبشار کے پاس ملیں جو جائے حادثہ سے کئی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
متاثرین کی باز آباد کاری کے تعلق سے اپنی منصوبہ بندی کی تفصیلات بتاتے ہوئے حمزہ کنجو نے کہا کہ فی الوقت فوری مسئلہ ان متاثرین کے لئے چھت مہیا کرنے کا ہے جو اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور راحتی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے، ان کے علاوہ بہت سارے جو اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں وہ اگلے ہفتے اسکول کھلنے کے بعد واپس آئیں گے تو ان کے لئے وقتی رہائش کا مسئلہ در پیش ہے۔ کچھ لوگوں نےخود سے اپنے مسائل حل کر لئے ہیں، لیکن ان کے لئے جن کا سب کچھ اس سیلاب میں بہہ گیا ہے معمولی اور روز مرہ کا گزران بھی بڑامسئلہ ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے جماعت سے منسلک ایک اور تنظیم پیوپلس فاؤنڈیشن جنگی پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ متاثرین کی فوری باز آبادکاری کے لئے اور انہیں ہنگامی رہائش مہیا کرنے لئے تمام اقدامات کئے جارہے ہیں۔
حمزہ کنجو نے بتایا کہ متاثرین کی مستقل باز آباد کاری کے لئے جماعت کی جانب سے ایک بڑے منصوبہ پر کام جاری ہے، جس کے لئے سروے کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت، گھروں کی تعمیر، معاشی خود کفالت کے لئے سرمایہ مہیا کرنا، تعلیم جاری رکھنے کے لئے اور کچھ عرصے تک ماہانہ راشن کاانتظام۔ ان تمام کاموں کو انجام تک لانے میں تقریبا ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، کیونکہ رہائشی مکانات کی تعمیر کے لئے مناسب جگہ تلاش کرنا بھی ایک بڑا وقت لینے والا مسئلہ ہے۔
ان سب کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پیوپلس فاؤنڈیشن پہلے درجے میں گورنمنٹ کی جانب سے اعلان کردہ راحت کاری پیکیج کے حصول میں متاثرین کی بھر پور مدد کرےگی کیونکہ ایسا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس کے لئے دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے کاغذات سیلاب کی نذر ہوگئے انہیں دوبارہ بنوانے میں بھی جتنی مدد درکار ہوگی وہ ہم مہیا کریں گے۔ چونکہ ایسے معاملات میں سرکاری مدد حاصل کرنے میں بہت سارے ضابطے اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں جو ہر کوئی پورا نہیں کرسکتا تو ایسے افراد کی باز آباد کاری کےلئے جماعت اپنی طرف سے پوری کوشش کرے گی۔یہ کام ایک طویل مدتی کام ہے اور اس کے لئے بڑی رقم کی ضرورت ہوگی۔ جماعت کی جانب سے امیر کیرلا پی مجیب الرحمٰن نے ایک اپیل بھی سوشیل میڈیا کے توسط سے جاری کی ہے جس میں منڈکئی اور چورل مالئی بحالی منصوبوں کے لئے جو احباب مالی مدد مہیا کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ہاؤسنگ پروجیکٹ میں مالی مدد فی حصہ یوں ہے: ایک سینٹ پچاس ہزار روپیہ، پانچ سینٹ دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ، ایک گھر سات سو مربع فٹ دس لاکھ پچاس ہزار روپیہ، فی مربع فٹ ایک ہزار پانچ سو روپیہ، گھر اور زمین فی خاندان تیرہ لاکھ روپیہ ہے۔ جو احباب تعلیمی مد میں مدد دینا چاہتے ہیں ان کے لئے تعلیمی امدادی اسکیم کے تحت فی طالب علم فی سال ایک لاکھ سے دو لاکھ روپیہ ہے۔ ان کے علاوہ پینے کے لئے صاف پانی کی اسکیم کے تحت ایک لاکھ روپیہ ہے۔ اور پنشن اسکیم کے تحت فی خاندان ایک ماہ کے راشن کے لئے چھ ہزار ر وپیہ ہے۔ جو درد مند احباب اس نہج پر یا اپنے حساب سے اس کار خیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ جماعت اسلامی ہند کیرلا، اکاؤنٹ نمبر:13890200007267، بینک کا نام: فیڈرل بینک، برانچ: ایس ایم اسٹریٹ، آئی آیف سی کوڈ: ایف ڈی آر ایل0001389، میں راست رقم جمع کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کیرلا کا ایسے قدرتی حادثات کے موقع پر امدادی کام کرنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس سے پہلے ایسے ہی کئی مقامات پر ہوئے قدرتی حادثات میں جماعت نے باز آبادکاری کے کاموں میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ منڈکئی اور چورل ملائی میں کئی سو خاندان بےآسرا، چھت سے محروم ہوکر ایسے انسانوں کی راہ دیکھ رہے ہیں جو دکھ درد کے اس موقع پر ان کا غم بانٹ سکیں، ان کے سروں پر محبت اور شفقت کا سایہ دراز کریں ، پھر سے ایک بار باعزت زندگی گذارنے میں ان کی بھر پور مدد کریں ۔ یہ انسان خود آپ کیوں نہیں ہوسکتے ؟ سوچئے،خدارا ضرور سوچیے۔

You may also like