Home نقدوتبصرہ وطن میں غیر ہندوستانی مسلمان ـ محمد علم اللہ

وطن میں غیر ہندوستانی مسلمان ـ محمد علم اللہ

by قندیل

ہر دور کی اپنی ایک پہچان اور شناخت ہوتی ہے، جسے لوگ اس زمانے کے بارے میں جانتے اور اس کی روشنی میں کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں خود نوشت، سر گزشت اور سوانح عمری بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جس کے ذریعے سیاسی و سماجی حالات ہی نہیں بلکہ اس عہد میں جینے والے لوگوں کے بود و باش، رہن سہن اور تعمیر و ترقی کے علاوہ اس کے پس منظر اور پیش منظر سے بھی آگاہی ملتی ہے۔ معروف صحافی اور قلم کار سعید نقوی کی کتاب ’’وطن میں غیر۔ ہندوستانی مسلمان‘‘ بھی ویسی ہی ایک سر گزشت ہے، جس سے ہمیں عہد حاضر بلکہ جدید ہندوستان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سعید نقوی نے رائے بریلی کے قصبے مصطفیٰ آباد میں 1940 ء میں آنکھیں کھولیں۔ لکھنؤ کے لامارٹینئر کالج سے تعلیم حاصل کی اور اسٹیٹس مین اور انڈین ایکسپریس جیسے مقتدر اخبارات سے اپنے صحافتی کریر کا آغاز کیا اور پھر انھیں انڈین ایکسپریس، سٹیزن، بی بی سی، سنڈے آبزرور، سنڈے ٹائمز اور واشنگن پوسٹ جیسے معروف اور مقتدر صحافتی اداروں سے وابستگی کا موقع میسرہوا۔ یہ کتاب ایسے ہی جہاں دیدہ صحافی کا احوال نامہ ہے جو ہندوستان میں آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کے ارد گرد گھومتی ہے۔
اس کتاب میں معاصر ہندوستان کی تاریخ میں رُونما ہونے والی اتھل پتھل، ہندو مسلم مخلوط کلچر کی تباہی،لکھنؤ کے قریب واقع مصطفیٰ آباد و دیگر خطوں کے باہمی پیار و محبت اور رواداری کے لٹ جانے کی کہانی بیان کی گئی ہے، ساتھ ہی ملک کی تقسیم کی وجہ سے ہونے والی انسانیت کی تاراجی و تباہی کا الم ناک نوحہ بھی شامل کتاب ہے۔ یوں یہ کتاب ایک صحافی کی صرف سر گزشت نہیں بلکہ قلم کار کے ذاتی مشاہدات و تجربات کی شمولیت،1947 سے عصر حاضر تک ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ صاحبانِ اقتدارکی جانب سے روا رکھے جانے والے ’ناروا سلوک‘ کی بہ اندازِ تحقیق عقدہ کشائی کرنے والے اہم دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
کتاب کی کہانی اودھ کے مصطفیٰ آباد کی حویلی کے احاطے والے دُہرے بر آمدے سے شروع ہوتی ہوئی تقسیم ہند کی ہول ناکی اور اس کے بعد ہندوستان میں شروع ہونے والی مسلمانوں کی تشخص اور بقا کی لڑائی کے ارد گرد گھومتی ہے، جو تب سے اب تک وطن عزیز میں مختلف آزمائشوں سے گذرتے ہوئے اپنے وجود کو سمیٹنے اور بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی جگہ آپ خود کو نہیں روک پائیں گے اور آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں گی۔ ایک ایسا ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، کیسے لٹتا ہے؟ کیسے بکھرتا ہے؟ کیسے کیسے حربے اپنائے جاتے ہیں؟ قربانیاں کس نے دیں، فیض کس نے حاصل کیا؟ بلی کا بکرا کون بن رہا ہے؟ یہ سب اس کتاب میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد ان بڑے قد آور لیڈر وں اور سیاست دانوں کی شخصیت کے دوسرے رُخ سے پردہ بھی اٹھتا ہے، جن کے نام پر لوگ پھول برساتے بلکہ پلکیں بچھاتے رہے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کئی’عظیم المرتبت‘ شخصیتوں کی عظمت کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے، علاوہ ازیں عوام کے بھولے پن اور شخصیتوں پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرنے کے بھیانک نتیجے سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ کتاب میں مصنف نے کانگریس کی منافقت اور اس میں شامل نہرو، گاندھی اور سردار پٹیل کے حالات کو بھی تاریخ کے دریچوں سے دکھانے کی کوشش کی ہے، جو آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ غالب کی طرح مصنف کی آم سے دل چسپی اور اس کے تناظر میں مختلف ثقافتوں اور سماج کے رجحانات کو بیان کرنے کا انداز اور دیہی و شہری زندگی کو منعکس کرنے کی کوشش عمدہ ہے۔ کتاب میں مصنف کے صحافتی کریئر کی داستان بھی شامل ہے، جس کا مطالعہ صحافت کے طلبا اور اس میدان سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے دل چسپی سے خالی نہیں۔
آزادی کے بعد کے ہندوستانی حالات پر بہت لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں بہت کچھ لکھا ہے اور جب تک انسانیت اور لفظوں کی حرمت باقی رہے گی، اہل قلم لکھتے رہیں گے۔ میں جب کتاب پڑھ رہا تھا، تو بہت سی عبارتوں اور جملوں کو نشان زد کرتا گیا، تا کہ ان جملوں اور لفظوں کو قارئین کے لیے نقل کروں۔ لیکن جب کتاب کی روداد لکھنے بیٹھا تو سمجھ میں نہیں آ یا کہ کیا نقل کروں اور کیا چھوڑ دوں۔ پوری کتاب المیہ اور رزمیہ داستان ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’اپنی زندگی کے آخری دن تک نانی امی اس دستاویز کو سمجھنے سے قاصر رہیں، جسے پاسپورٹ کہا جا تا ہے۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھیں کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کرنے کے لیے بس ایک ریلوے ٹکٹ کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابل فہم تھی کہ ساری زندگی ان کے سفر یوپی کے اودھ علاقے تک محدود رہے۔ ان کی پیدایش بارہ بنکی میں ہوئی، شادی بلگرام میں اور ہمارے والدین سے ملنے مصطفیٰ آباد لکھنو آتی رہتی تھیں۔ پھر بٹوارا ہوا، زمین داری ختم ہوئی، اور ان کے شوہر کی وفات ہو گئی، جو ایک معمولی زمین دار تھے۔ بارہ بنکی اور بلگرام کے مکانات کھنڈر ہو چکے تھے۔ نانی ہمارے یہاں منتقل ہو گئیں اور مصطفیٰ آباد اور لکھنؤ کے درمیان آتی جاتی رہیں‘‘۔ (صفحہ نمبر 32۔33)
’’ بد قسمتی سے ان کے (اودھ کے آخری حاکم نواب واجد علی شاہ) اور ان کی راجدھانی لکھنو کے بارے میں اب محض ایک فر سودہ نظریہ باقی رہ گیا ہے۔ اب نوابین کے شہر لکھنو کو پستی اور اخلاقی انحطاط کا نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے حقہ پینے والے روسا کو جانا جاتا تھا۔ چناں چہ وہ چلے گئے۔ لکھنو کی فحاشی اور عیاشی کا افسانہ انگریزوں نے اس لیے گڑھا تھا تا کہ وہ واجد علی کو نا اہل ثابت کر کے ہٹا سکیں اور اودھ کی زرخیز زمین کو ہتھیا سکیں۔ چناں چہ 1856ء میں ان (واجد علی شاہ) کو جلا وطن کر کے کلکتہ کے نزدیک مٹیا برج بھیج دیا گیا‘‘۔ (صفحہ 57)
’’ڈرائڈن کے مانند میرے دادا جان کا بھی خیال تھا کہ ’سبھی مذہبوں کے پروہت (پجاری) ایک ہی ہوتے ہیں‘۔ لیکن میرے دادا ان میں سے بعض کا احترام کرتے تھے بلکہ ان سے دوستی بھی رکھتے تھے۔ آئمہ مساجد اور علما کے درمیان فرق عیاں تھا۔ آئمہ کا کام مساجد میں صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ نمازیوں کی امامت کرنا تھا، جب کہ علما دینی علوم کے ماہر ہوتے تھے‘‘۔ (صفحہ نمبر 67)
’’ اور جب ہم دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سر کاری دہشت گردی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نہ بھولیں کہ کشمیر کے اہل طریقت خود کو’رشی‘ لکھتے ہیں۔ اس صوفی طریقت کے بانی نور االدین ولی تھے، جو عوام میں نند رشی کے نام سے معروف ہیں‘‘۔ (صفحہ 117)
’’ خیال کیجیے کہ اردو کے معروف شاعر کیفی اعظمی نے کتنا درد محسوس کیا ہو گا، جب 1993 کے بمبئی فسادات کے دوران اپنے مرشد و مخلص علی سردار جعفری کے فلیٹ تک پہنچنے کے لیے وہ تاریک سیڑھیاں پار کر رہے تھے۔ کیمپس کارنر اپارٹمنٹ بلاک، جس میں جعفری صاحب کا فلیٹ تھا، اس وقت آگ لگانے والوں کی زد میں تھا۔ یا میرے دوست جاوید لئیق کی کہانی سنیے۔ ان کے پدر بزرگوار پروفیسر نیر لئیق ایک وسیع المشرب مورخ تھے جو 1980 کی دہائی میں بمبئی کے ایلفنسٹن کالج کے پرنسپل رہے تھے۔ ان کی مادر بزرگوار کانگریس پارٹی کی ایم ایل اے تھیں، جنھوں نے جینوا کے ہیومن رائٹس کمیشن میں ہندوستان کے اولین مندوب کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ بمبئی فسادات کے دوران لئیق صاحب چرچ گیٹ میں واقع اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے داخلہ ہال میں ایک ہاتھ میں موم بتی اور دوسرے میں پیچ کش لیے، اس تختی کو ہٹا رہے تھے جس پر’ این۔ ایل۔ احمد‘ لکھا ہوا تھا، مبادا کوئی آگ لگانے والا یا کوئی قاتل اسے دیکھ کر اوپری منزل پر ان کی ماں کے فلیٹ تک پہنچ جائے‘‘۔ (صفحہ 126)
’’فی الواقع ہندی مسلمانوں کو اپنے ملاوں کی گرفت سے آزاد ہونا چاہیے اور اسی طرح ہندوؤں کو مسلم دشمن سیاست بازوں سے رخ موڑنا چاہیے۔ کیا ان میں سے کوئی بات میرے عرصہ حیات کے دوران وقوع پذیر ہو گی؟ آثار حوصلہ افزا نہیں ہیں، اصل مہا یدھ ہندوستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے کا ہے۔ دو تصورات ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں: ایک ہندوستان کے عہد ماضی کی کتھا مالائی عظمت کا حامل ہے، تو دوسرا ماڈرن ہندوستان کا ہے جو عقلیت پسندی اور مساوات کا نقیب ہو گا۔ قدیم اور جدید کے مابین یہی کشمکش ہے جس کے درمیان مسلمان پس رہے ہیں۔ واضح ہے کہ ایک ماڈرن ہندوستان کے اندر ہی سبھی ہندوستانیوں اور سبھی اقلیتوں کو اپنی نجات تلاش کرنی ہو گی۔‘‘ (صفحہ 274)
یہاں درج کرنے کے لائق اقتباسات بہت ہیں، مگرسبھوں کونقل کرنے کی گنجایش نہیں ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ قاری خود کتاب کو پڑھے اور اس میں بیان کی جانے والی کہانی سے واقف ہو۔ مختصر یہ کہ سعید نقوی کی یہ کتاب بہت دل چسپ ہے۔ مترجم (محمود فیض آبادی) اور نظر ثانی کرنے والے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور عقیدت اللہ قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں، کہ انھوں نے کتاب کو حقیقی معنوں میں قابل مطالعہ بنانے کے لیے لا انتہا محنت کی ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں لکھی گئی تھی، جس کا نام ’’بینگ دی ادرس‘‘ ہے۔ لیکن اردو میں جو کتاب تیار ہوئی ہے، اس سے کہیں بھی ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ زبان و بیان میں روانی اور شستگی ایسی ہے جس سے گمان یہ گذرتا ہے کہ کتاب اردو ہی میں لکھی گئی ہے۔ چوں کہ میں کتاب کی اشاعت سے قبل کے پروسیس اور عمل کا گواہ ہوں، اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ اس کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور عقیدت اللہ قاسمی کو جاتا ہے، جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے ان تھک محنت کی ہے، اور یوں فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے اسے منظر عام پر لانا ممکن ہو سکا۔
سعید نقوی کی کتاب کے کل نو حصے ہیں۔ پہلا باب دیار اودھ میں پرورش۔ دوسرا مصطفیٰ آباد کے آم، تیسرا تقسیم ہند کا طویل سایہ۔ چوتھا میناکشی پورم کا خمیازہ۔ پانچواں بابری مسجد کی مسماری۔ چھٹا انسانیت کش فسادات (گجرات 1969 اور 2002، گوپال گڑھ کے فسادات ستمبر 2011ء، غازی آباد کا فساد ستمبر 2012، فیض آباد کا فساد نومبر 2012، دھولیہ کا فساد جنوری 2013، مظفر نگر کے فسادات اگست۔ ستمبر 2013)۔ ساتواں باب پردھان منتریوں کی قطار، آٹھواں کشمیر کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟ اور نواں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہے۔ آخری باب ’خاتمہ کلام‘ ہے، جسے آپ ’حاصل کلام‘ یا ’خلاصہ کلام‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کتاب میں مترجم کی جانب سے حاشیہ اور اخیر میں مراجع کی فہرست بھی، دی گئی ہے جس سے کتاب کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کتاب میں کچھ معمولی فرو گذاشتوں کی جانب بھی اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، لکھنو کے کلچر کو اجاگر کرنے والی داستان ’فسانہ آزاد‘ جسے پنڈت ’رتن ناتھ سر شار‘ نے تصنیف کیا تھا۔ مصنف نے صفحہ 47 پر لکھا ہے کہ ’یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہے‘، یہ بات غلط ہے۔ اصل کتاب ’چار جلدوں‘ میں ہے۔ صفحہ نمبر 69 میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’شیعہ فرقے کے کسی فرد نے کبھی جمعیۃ العلما، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، اہل حدیث یا بریلی گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ بیرونی ممالک میں مختلف عسکری گروہوں مثلا لشکر طیبہ، جیش محمد، القائدہ، تحریک طالبان، جماعۃ الدعوۃ، شامی جبہۃ النصرہ کا بلا تفریق تعلق سنیوں سے ہے‘۔ مصنف کی پہلی بات ٹھیک اسی طرح درست ہے جیسے آل انڈیا شیعہ آگنائزیشن، شیعہ پرسنل لا بورڈ، مجلس علمائے ہند، توحید المسلمین ٹرسٹ، تنظیم المکاتب، نجفی ہاوس وغیرہ میں سنیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح سارے عسکری گروہوں کے تعلق کومصنف نے سنیوں سے جوڑ دیا ہے، اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے کہ ایرانی شیعہ تائید یافتہ گروپ مہدی ملیشیا (جس نے عراق کو فرقہ وارانہ جنگ کی طرف جھونکنے میں اہم ترین کردار ادا کیا) کے علاوہ جیش المہدی ملیشیا اور عراق میں محاذ آرا شیعہ ملیشیا تنظیمیں الحشد الشعبی، فیلق بدر، فیلق انصار بدر اور عصائب الحق، لبنان میں حزب اللہ اور شام میں بشار الاسد کی پروردہ ’سبیحہ ملیٹنٹ‘ جیسے عسکری گروہوں کی موجود گی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔
کتاب 275 صفحات پر مشمل ہے۔ اس کا ہندی ترجمہ بھی اسی ادارے میں دست یاب ہے۔ کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔

You may also like

Leave a Comment