( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
میرا روڈ میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہنگامے کو کئی ہفتے گذرگیے ہیں ، وہاں کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جارہی ہیں ، لیکن مسلم قیادت کو اب کئی ہفتے گزرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ میرا روڈ کے مسلمان ستائے اور پریشان کیے جارہے ہیں ! جی ہاں مسلم قیادت کو اب ہوش آیا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ایم آئی ایم کے ایک لیڈر ، سابق رکن اسمبلی وارث پٹھان بتائیں کہ وہ اب سے پہلے میرا روڈ جانے کے لیے کیوں نہیں تڑپے ، کیوں ہنگامے کے دوران انہوں نے وہاں جاکر میرا روڈ کے مسلمانوں کی ڈھارس نہیں بندھائی ، کیوں وہاں جاکر پولس سے یہ سوال نہیں کیا کہ مسلمانوں کو بیجا طور پر کیوں گرفتار کیا جارہا ہے ، ان کے خلاف معاملات کیوں درج کیے جارہے ہیں ، کیوں نہیں تشدد پر اتارو اُن ہجوموں کے خلاف ، جنہوں نے میرا روڈ کی مسجد عمرؓ پر پتھراؤ کیا اور شرانگیز ونفرت بھرے نعرے بلند کیے، کارروائی کی جارہی ہے؟ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی مسلم لیڈر بے وقت کی راگنی گارہا ہے یا سانپ کے نکل جانے پر لکیر پیٹ رہا ہے ۔ یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ جب بھی کہیں کشیدگی ہوتی ہے ، تشدد ہوتا ہے ، مسلمانوں کی جان اور مال سے کھلواڑ ہوتا ہے ، تب یہ لیڈر بِل میں دبک جاتے ہیں ، اور جب معاملہ کچھ کچھ ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تب مسلم لیڈر صرف اور صرف سیاسی مفاد کے لیے معاملے کو پھر گرم کردیتے ہیں ۔ وارث پٹھان کو اگر میرا روڈ جانا ہی تھا تو وہ شور مچائے بغیر بھی وہاں جاسکتے تھے۔ لوکل ٹرین پر بیٹھتے اور میرا روڈ پہنچ جاتے ، یا کار میں سوار ہوتے ، ڈرائیور کو ہدایت دیتے اور ان کی کارمیرا روڈ پہنچ جاتی ، نہ پولس روکتی اور نہ ہی شورشرابہ مچتا ۔ میرا روڈ پہنچ کر وہ سیدھے پولس اسٹیشن پہنچتے اور افسران سے سوال جواب کرتے کہ بھلا کیوں یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے ، کیوں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ، کیوں نتیش رانے کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی؟ سارا معاملہ آسان تھا ۔ مگر میرا روڈ جانا کسے تھا ، یہ تو بس ہنگامہ کرکے خبروں میں بنے رہنے کا ایک بہانہ تھا ۔ یاد رہے اس طرح کے ہنگاموں سے ، شہرت کے لیے مسلم لیڈروں کی ایسی غیر سنجیدہ حرکتوں سے ،نقصان کسی اور کا نہیں مسلمانوں ہی کا ہوتا ہے ۔ کیا کسی کو مدھیہ پردیش کا کھرگون یاد ہے ؟ وہاں کے مسلمان کیک اور پیسٹری کے کاروبار میں چوٹی پر تھے لہٰذا فرقہ پرستوں کو کھٹکتے تھے ، ان کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آرہا تھا ، منصوبہ بندی سے یہ بہانہ تراشا گیا کہ ان کی عمارتیں فیکٹریاں وغیرہ ناجائز زمینوں پر بنی ہیں ، اور انہیں اجاڑ دیا گیا ، کھرگون کے مسلمان خوشحال تھے آج پریشان حال ہیں ۔ مسلمانوں کو معاشی بنیادوں پر تباہ کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں ، یہ سکّل سماج اور ہندوتوادی تنظیموں کے جلوس اس منصوبے کا حصہ ہیں ، انہیں فرقہ پرستی پھیلانے اور پھر مسلمانوں کو قانونی طور پر پھنساکر ان کی معاشی کمر توڑنے کا کام کیا جاتا ہے ۔ میرا روڈ میں بھی یہی منصوبہ ہے۔ وہاں کے مسلمان بڑی حد تک خوشحال ہیں ، لہٰذا یہ بی جے پی کو ، بجرنگ دل کو ، ٹی راجہ کو اور فرقہ پرستوں کو کھَل رہے ہیں ۔ میرا روڈ نشانے پر ہے ، وارث پٹھان اسے مزید نشانے پر لارہے ہیں ۔ وارث پٹھان ! برائے مہربانی میرا روڈ والوں کو بخش دیں ! وہ ۲۲؍ جنوری کے بعد سے جس طرح اپنے معاملات حل کرنے کے لیے اور قانونی لڑائی لڑنے کے لیے کوشاں ہیں اس میں مدد کرسکتے ہیں تو کریں ، احتجاج اور مظاہرے کا رخ اپنا کر میرا روڈ کو اور میرا روڈ والوں کو فرقہ پرستوں کے نشانے پر نہ لائیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)