Home خاص کالم وقت ہی زندگی ہے۔ ابرار بن اکبر سورتی

وقت ہی زندگی ہے۔ ابرار بن اکبر سورتی

by قندیل

"وقت” افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، وقت دو دھاری تلوار کی طرح ہے، عقل و خرد کا مالک انسان اگر اس کا استعمال نہ کریں تو وہ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ انسان کو کاٹ کر علم و عمل، فن و ہنر سے محروم چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ایسی بے دردی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ ایک مرتبہ بھی مڑکر نہیں دیکھتا۔
اسی لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں : الوقت سیف قاطع (وقت کاٹنے والی تلور ہے) حکماء فرماتے ہیں زمانہ سیال ہے، اسے کسی آن سکون نہیں، ایک اور مشہور مثال ہے۔ (الوقت من ذھب) وقت بھی ایک سونا ہے، مگر یہ ان لوگوں کے لیے صحیح ہے جو موجودات کو محض تصور و قیاس کے آئنے میں دیکھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پاکیزہ خیالات و نظریات اچھے اور صاف ستھرے افکار رکھتے ہیں ان کے نزدیک وقت کی قدر و معرفت بہت بلند اور ارفع ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں "الوقت ھو الحیات” یعنی وقت ہی زندگی ہے۔
انسان کو سوچنا چاہیے کہ اس دنیا میں اس کی زندگی ہی کیا ہے، موت و حیات کے درمیان کا ایک نامعلوم اور غیر مؤقت وقفہ ہی تو ہے، کیا اس کی قیمت کا اندازہ سونے سے اور کسی قدر قیمتی اشیاء سے لگایا جاسکتا ہے؟ جبکہ کسی نہ کسی درجے میں وہ حاصل ہو سکتی ہے مگر وقت تو یہی بات دہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ:
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

 

 

اسلام کا بنیادی اثاثہ قرآن و سنت مختلف پہلوؤں سے وقت کی اہمیت اور قدر و منزلت کو روشناس کراتا ہوا نظر آتا ہے۔ چنانچہ قرآن اسے اہم ترین عطیہء خداوندی قرار دیتا ہے۔
"اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایسا بنایا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلے آتے ہیں (مگر یہ ساری باتیں) اس شخص کے لیے (کارآمد ہیں) جو نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یا شکر بجا لانا چاہتا ہو۔الفرقان۔ آیت نمبر 62
دوسری جگہ دی گئی عمر کی یاددہانی کراتے ہوئے کچھ یوں ارشاد فرمایا۔
” بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا، وہ سمجھ لیتا ؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔ اب مزاہ چکھو، کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔ ؏ فاطر۔آیت نمبر 37
سوره المنافقون میں انسانوں کو غافل کرنے والے اسباب گنا کر متنبہ کیا گیا ہے۔
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ کہے کہ اے میرے رب کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔
اس تمنا کا جواب یہ ہے:
اللہ کسی شخص کو مزید مہلت نہیں دیتا جب اس کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے”۔ اس مہلتِ عمل کے صحیح استعمال کا راز یہ ہے کہ ہر کام توازن کے ساتھ، تواتر کے ساتھ اور تسلسل کے ساتھ کیا جائے تاکہ ناقدری نعمت کی پشیمانی سے محفوظ رہ سکیں۔
جہاں رب ذوالجلال نے ان آیات میں وقت کی قدر دانی بیان کی وہیں متعدد مکی سورتوں کے آغاز میں اس کی قسمیں بھی کھائی ہمیں۔
مثلاً۔ وَاللَّیل،وَ النَّهَارِؕ،وَالْفَجْرِ،وَالضُّحَى،وَالْعَصْرِ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
وَالضُّحَى ﴿۱﴾وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى ﴿۲﴾
قسم ہے روز روشن کی اور رات کی جب وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے۔
وَالْفَجْرِ ﴿۱﴾وَلَيَالٍ عَشْرٍ ﴿۲﴾
ترجمہ؛ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔
وَالْعَصْرِ ﴿۱﴾ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿۲﴾
ترجمہ؛ زمانہ کی قسم، انسان در حقیقت خسارے میں ہے۔
اور یہ بات مفسرین اور اہل علم کے یہاں معروف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق میں سے کسی کی قسم کھاتا ہے تو صرف اس لیے کہ لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرے اور اس کے لامتناہی فوائد سے اگاہ کریں تاکہ اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو۔
قرآن کی طرح سنتِ نبوی نے بھی وقت کی قدر اور اس سے فایدہ اٹھانے اور اپنی دنیوی و اخروی زندگی کو سنوارنے پر بہت زور دیا ہے، چنانچہ حضورﷺ نے اس امت کی عمروں کو بیان کیا تاکہ اس کی حفاظت کریں اور اسے کارآمد بنائیں چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا۔ !
ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہونگے، جو اس حد کو پار کریں گے۔ (ترمذی: 3550)
دوسری جگہ دن کے بہترین وقت میں برکت کی دعا کرتے ہوئے فرمایا۔!
اللهم بارك لأمتي في بكورها .
"اے اللہ ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما۔

 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حضرت فاطمہ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے، آپ لیٹی آرام فرما رہی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جگاتے ہوئے فرمایا: بیٹی ! اٹھیے ، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہیے، اور غفلت والوں میں سے مت بنیے ، کیوں کہ اللہ جل شانہ طلوع فجر اور طلوع شمس کے درمیان لوگوں کا رزق تقسیم کرتا ہے۔
اسلام نے قدم قدم پر فرائض و شعائر کے ساتھ ایک منظم اور مربوط حیات کا خاکہ پیش کیا اور اس منظم نظام میں وقت کی خاص اہمیت اور ضرورت کو خوب واضح کیا ہے۔
چنانچہ جب رات اپنی تاریکیوں کے ساتھ رخصت ہونے لگتی ہے اور افق کے کناروں سے روشنیاں ابھی نمودار ہونے کے قریب ہی ہوتی ہے کہ اللہ کا منادی رس گھولتی آواز سے آفاق کو بھر دیتا ہے،۔ "حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ” آؤ نماز کی طرف حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ” آؤ بھلائی کی طرف ” الصَّلاةُ خَيْرُ مِنَ النَّوْمِ نماز نیند سے بہتر ہے، کی صدائے توحید ہر قسم کی کامیابی کی گواہی دینے لگتی ہے، اور انسان کے لبیک کہتے ہی شیطان کی تمام گرہیں کھول جاتی ہے۔ ابھی دوپہر ہوئی نہیں کہ سورج ڈھلنے لگتا ہے، لوگ دنیاوی مشاغل میں منہمک نظر آتے ہیں ادھر پکارنے والا اللہ کی کبریائی، کلمات رسالت اور صلاح و فلاح کی ایسی ندا لگاتا ہے کہ لوگ اپنی مصروفیات اور ضروریات سے نکل آتے ہیں تاکہ چند منٹ اپنے مالک و رازق کے سامنے کھڑے ہو جائے، ابھی وقت ہی کیا گزرا تھا سورچ قدر مائل بغروب ہونے لگا اور تیسری بار علی الاعلان بزبان مؤذن ایک خدا کی طرف بلایا جاتا ہے اور جب سورج کی ٹکیہ افق سے غائب ہو گئی اور روشنی مدھم ہوگئی تو مغرب کے لیے پھر جمع کر لیا گیا۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ شفق غائب ہوئی سیاہ چادر جس کے دامن میں بکھیر ستاروں سمیت دراز ہوگئی تو اس اشرف المخلوقات کو اپنے خدا کی یاد دلائی گئی تاکہ کل ہوئی نہ ہوئی مگر آج کا آغاز و اختتام مالک حقیقی کے گن گانے میں ہو اور اس طرح دن گزرتے رات کی تاریکی میں مقربین بندوں کی بارگاہ میں حاضری یہ تمام نظام و انصرام اور شریعت کے تقاضوں کو وقت کی کی لڑی میں پرویا جانا وقت کی بلند و بالا اہمیت و فضیلت کو ثابت کرتا ہے۔
وقت کی قدر ہمارے اسلاف کے یہاں بڑی مثالی ہوا کرتی ان کی زندگیوں کا لمحہ منظم و مرتب ہوتا بے وقت کاموں کا تصور نہ تھا اور ضیاع وقت اور لغویات کا تو نام ہی نہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ وقت کو زندگی اور زندگی کو وقت شمار کرتے ۔
وہ لوگ اس بات کو وقت کی ناقدری تصور کرتے تھے کہ ان کا کوئی دن اس حال میں گزرے کہ انھوں نے کوئی کار خیر نہ کیا ہو۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سب سے زیادہ اپنے اس دن پر نادم ہوتا ہوں جس کا سورج ڈوب جاتا ہے اور میری عمر کا ایک دن کم ہو جاتا ہے مگر اس میں میرے عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ جب میرے اوپر کوئی ایسا دن گزرتا ہے جس میں کسی ایسے علم کا اضافہ نہیں ہوتا ہے جو مجھے اللہ سے قریب کر دے تو میں اس دن کو اپنے لیے بے برکت تصور کرتا ہوں ۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ جس نے اپنی عمر کا کوئی دن اس حال میں گزارا کہ نہ تو کسی حق کا فیصلہ کیا ، نہ کوئی فرض ادا کیا ، نہ مجد و شرت کی نبیا درکھی، نہ کوئی قابل تحسین کام کیا، اور نہ کوئی علم حاصل کیا تو اس نے اپنے اُس دن کے ساتھ بدسلوکی کی اور اپنے اوپرظلم کیا ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز آرام فرما رہے تھے ، ان کے صاحبزادے خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے ابا جی ! آپ سورہے ہیں اور لوگ دروازے پر آ کر کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا.! “ يا بنى ان نفسى مطيتي ، وأخاف أن أحمل عليها فتقعدبي. بیٹے ! میری جان میری سواری ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ اس پر بار ڈالوں گا تو وہ چل نہ سکے گی۔ یہ ان کی ہمہ وقت مشغولیت کی وجہ سے تھا کہ جانکاہی کا اندیشہ ہونے لگا تھا ۔
بے شمار کتابوں کے مصنف اور اپنی صدی کے امام علامہ ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ اپنے کشکول زندگی صید الخاطر‘ اور ابن صلح حنبلی اپنی تصنیف ” آداب شرعیہ میں وقت کی قدر و قیمت کے متعلق لکھتے ہیں: وقت کو ضائع ہونے سے تب بچایا جا سکتا ہے جب دل میں اس کی اہمیت کا احساس ہو، انسان کو چاہئے کہ ایک نظام الاوقات بنائے اور اس میں کاموں کی ترتیب ” الاہم فالا ہم” کے اصول کے مطابق رکھے، ہمارے اسلاف عمر عزیز کے قیمتی لمحات کے بڑے قدر دان تھے۔
آگے علامہ ابن جوزی اپنے زمانہ کے لوگوں کی کم ہمتی کا شکوہ کر کے فرماتے ہیں: میں اپنے زمانہ کے پست ہمت لوگوں سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ، نہ تو ان میں کوئی ایسا عالی ہمت ہے کہ مبتدی اس کی اقتداء کرے اور نہ کوئی ایسا صاحب تقویٰ ہے کہ سالک اس کی اتباع کرے، لہذا اپنے اسلاف کی سیرت کو پڑھئے ان کے حالات وتصانیف کا مطالعہ کیجئے ، ان کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ انہیں دیکھنے کی مانند ہے۔
مشہور تابعی عامربن عبد القیس کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک مرتبہ کسی نے کوئی بات کرنی چاہی تو وہ فرمانے لگے :
سورج کی گردش روک دو تو تم سے بات کرنے کے لیے وقت نکالوں“ ۔ لا یعنی لوگوں سے اللہ کی پناہ!۔ صاحب عیون الانباء نے امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ وہ فرماتے تھے:
” خدا کی قسم ! کھانا کھاتے وقت علمی مشغلہ ترک کرنے کی وجہ سے مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ وقت اور زمانہ بڑا ہی عزیز سرمایہ ہے۔
وقت انسانی زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ جسے اللہ تعالی نے انسان کو عمر کی شکل میں عطا کیا ہے۔ یہ بیش اور بے بہا نعمت انسان کو صرف ایک مرتبہ عطا ہوتی ہے۔ اس کی قدر و معرفت انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح و نجات کی ضامن ہے۔ اس کی ناقدری انسان کو حسرت و ندامت پر مجبور کرے گی۔ ضیاع وقت ایک ایسا ناسور ہے جس نے ہر بلند مقاصد کے حمالین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ہر طرح کا طبقہ وقت کی قدر و قیمت سے ناآشنا اور نا قدرہ معلوم ہوتا ہے، سوشیل میڈیا کے تیز ترین دور میں ہوتے ہوئے بھی وقت کی تنگی شکایت بڑھتی جارہی ہے، مگر اس کی حیثیت اور اہمیت کا اب تک کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ، خاص کر تعطیلات اور فارغ اوقات گزرنے کے بعد افسوس اور ندامت کا سامنا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اولین ہمیں چاہیے ان افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کریں جن کے عظیم کارناموں سے تاریخی اوراق روشن معلوم ہوتے ہیں اور جن کی زندگیوں نے کئی ایک کو زندگی کا مقصد اور حصول کی یاددہانی کرائی نیز ان کی پل پل کی فکری کاوشوں اور بے شمار کارناموں سے آج بھی خلق خدا فایدہ اٹھا رہی ہیں، اور اپنی اصل زندگی یعنی وقت کی قدر و منزلت کو پہچانے تاکہ پھر زبان حال سے یہ نہ کہنا پڑے۔
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

You may also like