وقف ترمیمی بل ان دنوں موضوع بحث ہے۔ایوان میں این ڈی اے کی بعض حلیف پارٹیوں کے دباؤمیں یہ بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی)کے حوالہ کیاگیالیکن شروع سے ہی تشکیل شدہ اس کمیٹی کے رخ سے صاف اندازہ ہوچکاہے کہ کمیٹی کی سفارشات کیاہونے والی ہیں۔چنانچہ جب جے پی سی نے تمام عوام سے رائے طلب کی ،اسی وقت اگرمسلمانوں کی مرکزی قیادت اس رائے طلبی کی اس بنیادپرمخالفت کرتی کہ رائے صرف اسٹیک ہولڈرسے لی جائے یعنی جس کمیونٹی کامعاملہ ہے،اسی کی رائے معتبرہوگی،جائیدادمسلمانوں کے آباواجدادکی اوررائے دیں گے تمام ہندوستانی شہری؟یہ انصاف اورعقل کے تقاضے کے بھی خلاف ہے۔لیکن ہماری قیادت کویہ باریکی نظرنہیں آئی اورملک گیرسطح پرمیل بھجوانے کاسلسلہ شروع ہوگیااورامت مسلمہ مہینے بھراس چیزمیں الجھی رہی جس کااس کے سواکوئی فائدہ نہیں کہ بس مسلمانوں کومعلوم ہوجائے کہ اس طرح کاکوئی بل زیرغورہے۔اس کے علاوہ جے پی سی نے میل کے ساتھ ساتھ ہارڈکاپی بھیجوانے کابھی نوٹس جاری کیاتھالیکن مہاراشٹراوربعض جگہوں کوچھوڑکرپورے ہندوستان میں صرف میل کاکھیل ہوتارہا۔یہاں تک کہ بہارکی قیادت کوبھی سمجھ میں نہیں آیاکہ ای میل کے ساتھ ہارڈکاپی بھی بھیجنی ہے۔
اس ادھورے مرحلے کے بعدشروع ہواسمینار،ویبینار،ورکشاپ کاسلسلہ۔ان تمام کاحاصل صرف اتناہی ہے کہ مسلمان سمجھ جائیں کہ بل کی کیاخامیاں ہیں۔یہ کوشش قابل ذکرضرورہے لیکن اس ترمیمی بل کوروکنے کے لیے سب سے ضروری تھاسیاسی پارٹیوں پردباؤبنانا۔لہذاآل انڈیامسلم پرسنل لابورڈاورمختلف تنظیموں نے اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی ،ان کے علاوہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کے سامنے بھی اپنی مخالفت درج کرائی۔ضرورت اسی عمل کے تسلسل کی تھی،لیکن پھریہ قیادت ورکشاپ،جلسوں اورسمینارپرآگئی اوریہ عمل کمزورہوگیا۔
موجودہ صورت حال میں این ڈی اے حکومت چاراہم بیساکھیوں پرٹِکی ہوئی ہے۔ان بیساکھیوں میںسرفہرست نتیش کماراورچندرابابونائیڈوہیں،ان کے علاوہ چراغ پاسوان،مانجھی،شندے بھی این ڈی اے کے اہم حلیف ہیں،جن کی حمایت کے بغیروقف ترمیمی بل منظورنہیں ہوسکتا۔کرنے کااصل کام یہ تھاکہپٹنہ،حیدرآباد،امراوتی،ممبئی میں تمام تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس کی جاتی۔پارلیمانی سیشن شروع ہونے سے قبل ہی آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈدہلی میں کل جماعتی پریس کانفرنس کااہتمام کرتااورواضح پیغام دیتاکہ ہم نے سبھی سیکولرسمجھی جانے والی پارٹیوں سے ملاقات کرلی ہے،اب ہرسیاسی پارٹی پرہماری نظرہے۔اگریہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا،جس کارواں پارلیمانی سیشن میںپیش ہونے کاامکان ہے،اوراس میں جن پارٹیوں نے اس بل کی کسی بھی طرح حمایت کی یاپارلیمنٹ سے واک آؤٹ کرکے ووٹنگ میں حصہ نہ لیاان سبھوں کے ریاستی انتخابات میں اس کاخمیازہ بھگتناپڑے گا۔کیونکہ پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کرنابھی دراصل بل کی حمایت ہی ہے۔خاص کرنتیش کماراورچندرابابونائیڈوکوکھلے عام پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ اگرآپ کی پارٹی نے کسی طرح حمایت کی یاواک آؤٹ کیاتودونوں ریاستوں کے آئندہ اسمبلی الیکشن میں مسلم قیادت مسلمانوں کے نام اپیل جاری کرے گی کہ کسی بھی حال میں مسلمان نائیڈواورنتیش کی پارٹی کوووٹ نہ دیں۔اوران پارٹیوںکے تمام مسلم لیڈران سے بھی سوال ہوگاکہ آپ کی جماعت نے دھوکہ کیوں دیااس کے بعدان لیڈران کو مسلمانوں کے پاس ووٹ مانگنے کاکوئی حق نہیں ہوگا۔
بہارحکومت پردباؤبنانے کے لیے امارت شرعیہ جیسی تنظیموں کوپٹنہ میں ایک کل جماعتی پریس کانفرنس امیرشریعت کی قیادت میں کرنی چاہیے جس میں نتیش کمارکوصاف پیغام دیاجائے کہ اگربل پارلیمنٹ میں پیش ہوتاہے توآپ کومخالفت کرنی ہے ،ایوان سے واک آؤٹ کرکے بھاگنانہیں ہے۔اگرآپ کی پارٹی نے بل کی حمایت کی توجدیوکاکوئی عذرنہیں سناجائے گااوراگلے اسمبلی الیکشن میں جنتادل یونائیٹیڈکواس کانقصان اٹھاناپڑے گا،امارت شرعیہ اس وقت اعلان کرے گی کہ مسلمان کسے ووٹ کریں۔اگرامیرشریعت اوربہارکی تنظیموں نے یہ جرات نہ دکھائی تومسلمان سمجھ جائیں گے کہ ورکشاپ ،سمینارکے نام پرپیسے کی بربادی ہوئی ہے یاواقعی لوگ بل کوروکنے کے لیے سنجید ہ ہیں۔اگراس جرات کامظاہرہ یہ تنظیمیں نہیں کرتیں اورورکشاپ کھیلتی رہیں توامت مسلمہ کبھی انہیں معاف نہیں کرے گی۔مضبوطی کے ساتھ،،کسی سیاسی مفادکے بغیر،ہماری قیادت نے مضبوط اعلان کردیاپھردیکھیے نتیش اورنائیڈوکہاں رہتے ہیں۔ یہی وہ زبان ہے جسے سیاسی پارٹیاں سمجھتی ہیں۔اس زبا ن میں جمیعۃ علماء کی پٹنہ کانفرنس میں ضروربات کی گئی،لیکن پھریہ آوازرک گئی،اسی طرح آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکے سکریٹری جناب مولانامحمدعمرین محفوظ رحمانی صاحب نے اسی رخ کواپنایا،جس کے بعدجدیومیں ہلچل مچ گئی ۔پھربورڈکووضاحت دینی پڑی کہ ہمارے سکریٹری نے نتیش کمارکی توہین نہیں کی ہے۔اس وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔یہ اندازمضبوط قیادت کانہیں ہے۔بورڈکواسی رخ پرآناہوگااورجارحانہ اندازاپناکرسیاسی پارٹیوں کوسخت پیغام دیناہوگاتبھی یہ بل رک سکتاہے ورنہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،جماعت اسلامی ہند،امارت شرعیہ،ادارہ شرعیہ،ملی کونسل سبھی جماعتیں بل کی منظوری کی ذمہ دارہوں گی۔
قابل ذکرصورت حال یہ ہے کہ جے پی سی نے جب بہارکادورہ کیاتوحکومت بہاریعنی جدیوکے نمائندے اس سے دوررہے۔اورحکومت نے واضح موقف پیش نہیں کیا،جس سے یہ یقینی ہوجاتاہے کہ نتیش کمارکی جنتادل یونائٹیڈپارلیمنٹ میں یاتوبل کی اسی طرح حمایت کرے گی جس طرح للن سنگھ نے کودکودکرحمایت کی تھی،یاپھرطلاق ثلاثہ بل کی طرح پارلیمنٹ سے بھاگ کرجدیواحتجاج درج کرائے گی تاکہ مسلمان بھی خوش ہوجائیں اوربی جے پی بل منظورکرانے میں کامیاب ہوجائے۔اگرایساہوتاہے تومسلمان اس کی پیش بندی کے لیے کتنے تیارہیں،اصل سوال یہ ہے۔اب جب کہ جے پی سی کارخ تقریباصاف ہے۔اس کی میٹنگوں میں اپوزیشن کے اراکین سے نوک جھونک کاسلسلہ جاری ہے۔کل ہی اپوزیشن کے دس اراکین کومعطل کردیاگیا۔اس سے اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ جے پی سی کون سی سفارشات پیش کرنے والی ہے۔اس لیے ویبنار،سمینار،ورکشاپ اورجلسوں سے نکل کرپریس کانفرنس کاراستہ اورسیکولرسمجھی جانے والی پارٹیوں کومضبوط پیغام دیناہی وقف ترمیمی بل کوروکنے میں موثرہوگاورنہ سمجھاجائے گاکہ ہماری قیادت صرف اپنی اپنی روٹی سینک رہی تھی اورامت کابڑاسرمایہ جلسوں ،سمیناراورورکشاپ پربربادہوااورتمام ملی تنظیمیں اسی طرح کی مجرم ہوں گی جس طرح سیکولرسیاسی پارٹیاں قابل گرفت ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)