ان دنوں اپنے وطن عزیز ہندوستان میں مسلم طبقے میں جس طرح کی اضطرابی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے اس کے وجوہ سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ہندوستان کی موجودہ سیاست کی سمت ورفتار پر نظر رکھتا ہے ۔کیوں کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے حالیہ پارلیامانی انتخاب کے تشہیری جلسوں میں ہی اس حقیقت کا انکشاف کردیا تھا کہ وہ جب تیسری بار وزیر اعظم ہوں گے تو ان کے عمل وکردار کے خطوط کیا ہوں گے۔مگر افسوس صد افسوس کہ وہ تمام مسلم تنظیمیں جو ان دنوں وقف ترمیمی بل کو لے کر ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے مل رہی ہیں ،اپنا میمورنڈم پیش کررہی ہیں اور ان ملاقاتوں و میمورنڈم پیش کرنے کے’’ فوٹو سیشن‘‘کی تمام تر تصاویر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے حوالے کر رہی ہیں وہ وزیر اعظم کے فکر ونظر سے انجان سے معلوم ہوتے ہیں۔ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس بل کا تعلق صرف اور صرف مسلم طبقے سے ہے اور یہ بات دیگر ہے کہ اوقاف کی ملکیت پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی اکثریت بھی مسلمان ہی ہیں ۔مگر اس وقت چوں کہ حکومت کی طرف سے جو وقف ترمیمی بل لایا گیا ہے وہ غیر آئینی ہے اس لیے اپوزیشن اتحاد بھی مسلمانوں کی حمایت میں بول رہے ہیں ۔ایک جمہوری ملک میں کسی بھی غیر جمہوری عمل کے خلاف آواز بلند کرنے کی آزادی ہر شہری کو ہمارا آئین دیتا ہے اس لیے مسلم تنظیموں کا مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے ملنا اور میمورنڈم دینا ان کی معقول سمجھ کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ چھوٹی بڑی تمام تنظیمیں اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ پارلیامنٹ میں جن سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی ہے اس کے ساتھ فوٹو سیشن کی تصاویر پرنٹ اور الکٹرونک میڈیا کے ذریعہ عوام الناس میں عام کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ مسلم اقلیت طبقے کی اکثریت ان تصاویر کو دیکھ کر غم وغصہ کا شکار ہو رہی ہے ۔ واضح ہو کہ بہار میں جنتا دل متحدہ ، لوک جن شکتی پارٹی (رام بلاس) اور ہندوستانی عوام مورچہ قومی جمہوری اتحاد کا حصہ ہے اور ان تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیامنٹ میں اس بل کی حمایت کی ہے ۔ بلکہ آج بھی ان جماعتوں کی طرف سے اپنا موقف واضح نہیں کیا گیا ہے کہ وہ اس بل کے خلاف ہے ۔جنتا دل متحدہ کے لیڈر للن سنگھ نے جس طرح اس بل پر اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے لوک سبھا میں حکومت کے اس قدم کی تعریف وتحسین کی اور اس کی حمایت کی وہ اظہر من الشمس ہے ۔ مگر مسلم تنظیموں کے اراکین کی معصومیت پر قربان جائیے کہ وہ للن سنگھ کو بھی اپنا میمورنڈم پیش کررہے ہیں اور اس کی تصویر شائع کرا رہے ہیں۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو جنتا دل متحدہ کے سپریمو ہیں ان کی اجازت کے بغیر ان کی پارٹی کے ممبران پارلیامنٹ کچھ نہیں کر سکتے اور للن سنگھ نہ صرف مودی کابینہ میں مرکزی وزیر ہیں بلکہ نتیش کمار کے ایک طاقتور حمایتی لیڈر ہیں۔ایسی صورت میں للن سنگھ کے لوک سبھا میں دیے گئے بیانات کو بہت ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہئے ۔اسی طرح چراغ پاسوان بھی مودی کابینہ میں وزیر ہیں اور وہ ان دنوں خود کو وزیر اعظم نریندر مودی کا ہنومان کہتے ہیں اور ا نہوں نے بھی اس بل کی حمایت کی ہے ۔پھر بھی مسلم تنظیموں کا وفد ان کو میمورنڈم پیش کر رہا ہے اور خوش فہمی کا شکار ہے کہ وہ مودی حکومت کے اس بل کی مخالفت کریں گے۔جہاں تک ہندوستانی عوام مورچہ کے لیڈر جیتن رام مانجھی کا سوال ہے تو وہ اس بل کی حمایت میں اب بھی بول رہے ہیں اس لئے مسلم تنظیموں کو سیاست کی اس شطرنجی چال کو سمجھنا ہوگا اور اپنی لڑائی صرف اور صرف آئینی حقوق کی روشنی میں لڑنی ہوگی۔
واضح ہو کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل26میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے کہ وقف کرنے والا اپنی جائیداد فی سبیل اللہ وقف کرتا ہے اور اس جائیداد کی آمدنی کا صرفہ اسلامی اداروں ، مذہبی عبادت گاہوں ، قبرستانوں اور غریب ونادار کے لیے مختص ہے۔ اس لیے اس بل کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہی راحت دے سکتی ہے ۔اگرچہ حزب اختلاف کی مخالفت کے بعد یہ بل جوائنٹ پارلیامنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے ہوا ہے اور وہاں سے جب تک ہری جھنڈی نہیں ملے گی اس وقت تک یہ بل پاس نہیں ہو سکتا۔ مگر اس خوش فہمی کودور کرلینا چاہیے کہ جے پی سی میں فیصلہ اس بل کے خلاف ہی ہوگا۔کیوں کہ وہاں بھی اکثریت کی بنیاد پر ہی فیصلہ ہونا ہے اور اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھلے ہی پارلیامنٹ میں اپنی اکثریت نہیں ہے لیکن دیگر پارٹیوں کے 52ممبران پارلیامنٹ کی بدولت وہ حکومت میں ہے اور اس حکومت نے اپنے عمل وکردار سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بیساکھی پر ٹکی حکومت ضرور ہے لیکن اسے آزادانہ طورپر کام کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے ورنہ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو جو مسلمانوں کی حمایت سے برسوں بعد حکومت میں واپس آئے ہیں وہ سیدھے طورپر یہ اعلان کرسکتے تھے کہ ان کی جماعت وقف بل کی حمایت نہیں کرتی ہے تو خود بخود اس بل کی واپسی ہو جاتی جیسا کہ حال کے دنوں میں یو پی ایس سی میں لیٹرل انٹری اور بروڈ کاسٹ حکم نامے رد ہوئے ہیں ۔ مگر چندرا بابو نائیڈو اور ان کی پارٹی کے ممبران پارلیامنٹ اپنا موقف واضح کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
یہاں اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اوقاف کی ملکیت کا مصرف کس طرح ہوتا رہاہے اور اوقاف کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کون لوگ کرتے رہے ہیں اس سے حکومت انجان نہیں ہے ۔ اگر وقف کے متولی آج بھی اوقاف کی ملکیت کی آمدنی کا گوشوارہ حکومت کے سامنے پیش کردیں اور ملک بھر میں جتنی اوقاف کی جائیداد ہے اس کا گوشوارہ متولیوں کے ذریعہ مشتہر کیا جائے تو خود بخود حکومت اپنے سازشی عمل کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔لیکن کیا آج کوئی ایسا متولی ہے جو اوقاف کی جائیداد اور اس کی آمدنی کا گوشوارہ شائع کرنے کو تیار ہے ؟یہ لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا کی تاریخ کے اوراق اس حقیقت کے آئینہ دارہیں کہ جب کوئی قوم خود اپنی خود احتسابی سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اسی طرح پسپائی کا شکار ہوتی ہے ۔جہاں تک اپنے ملک کا سوال ہے تو اس ملک میں جس طرح کی فضا قائم ہے اس سے بھی مسلم اقلیت طبقہ نا آشنا نہیں ہے ۔ اس لیے نمائشی فوٹو سیشن، اجلاس ومذاکرے سے زیادہ ضروری ہے کہ آئینی تقاضوں کے تحت عدالت سے رجوع کریں اوراب بھی وقت ہے کہ اوقاف کی ملکیت کا صحیح استعمال کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ حکومت کو یہ جواب دیا جا سکے کہ ہمارے آباواجداد نے جس مقصد کے لیے اوقاف قائم کیا تھا وہ پورا ہو رہاہے اور ضابطے اور اصول کے مطابق اوقاف کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو شاید مستقبل میں بھی ہماری مشکلیں آسان ہو سکتی ہیں ورنہ انجام کیا ہوگا وہ نوشتۂ دیوار کی طرح ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)