لگتا ہے وطن عزیز ہندستان میں جب تک بی جے پی اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے گی تب تک مسلمانوں کو نت نئے امتحان سے گزرنا ہوگا اور انکی آزمائشیں ختم نہیں ہوں گی۔ بابری مسجد- رام مندر کا قضیہ، طلاق ثلاثہ، ہجومی تشدد، شہریت ترمیمی ایکٹ اور اذان پر پابندی کے معاملات تو خیر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ہولی کے تہوار پر مسلمانوں کی مسجدیں ترپال سے ڈھانک دی گئیں حالانکہ یہاں صدیوں سے ہولی منائی جا رہی ہے, کبھی کسی مسلمان نے اس تہوار پر اعتراض کرنے کا نہ حوصلہ کیا اور نہ ہی اس پر معترض ہونے سے متعلق کبھی کچھ سوچا۔ ممکن ہے کہ ان کی مسجدیں صرف اس لیے ڈھانک دی گئیں تاکہ مسلمانان ہند احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں اور انہیں یہ احساس شدت سے دلایا جائے کہ اب وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ جمعہ اور عیدین کی نمازیں کسی سڑک یا کھلی جگہ پر ادا نہ کی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی پابندی برادران وطن کے مذہبی جلوسوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سڑک پر نماز ادا کرنے سے ہندوؤں کے تمام تہواروں سے بھی زیادہ شور، ٹرافیک کا نظام درہم برہم اور بدامنی پیدا ہوتی ہے؟ ذرا سوچیں آسام میں برسہا برس سے رہنے والے مسلمانوں سے CAA کے نام پر شہریت کے کاغذات مانگے گئے۔ اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش, ہریانہ, چھتیس گڑھ جیسی ڈبل انجن والی ریاستوں میں ایک طرف گائے اور لو جہاد کے نام پر سینکڑوں مسلمان قتل کیے گئے تو دوسری طرف بلڈوزر سے مسلمانوں کے متعدد گھر اُجاڑ دیے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ گاندھی ، نہرو ، پٹیل ، آزاد اور امبیڈکر کا سیکولر انڈیا اب عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھو چکا ہے۔ نفرت کے اس ماحول میں زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کے پرانے زخم ابھی بھرے ہی نہیں تھے کہ انہیں ایک اور زخم دے دیا گیا۔ اور یہ نیا زخم وقف ایکٹ کو بدل کر UMEED نامی قانون کے نفاذ سے مسلمانوں کو دیا گیا ہے جو نہ صرف یہ کہ مسلمانان ہند کے لیے تشویشناک ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے باعثِ شرم بھی ہے۔ عہد رفتہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نہ صرف یہاں کے حکمرانوں بلکہ صاحبِ حیثیت اور آسودہ حال لوگوں نے بھی مسجدوں‘ قبرستانوں، یتیم خانوں، امام بارگاہوں‘ خانقاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اتنا زیادہ کہ مسلمانوں کے یہ مذہبی املاک آج آر ایس ایس کی زائدہ بی جے پی حکومت کی آنکھوں میں کانٹا بن چکی ہیں۔جسے ہڑپنے کے لیے ہر ممکن قانونی راستے ہموار کیے جا چکے ہیں۔ بہرکیف، اس وقت ہندستانی مسلمانوں کے لیے وقف قانون UMEED 2024 ایک نیا امتحان بن کر سامنے آیا ہے جو پارلیمنٹ کے ادنیٰ و اعلیٰ دونوں ایوان سے منظوری اور صدر جمہوریہ ہند کے دستخط کے بعد اب قانونی شکل اختیار کر چکا ہے۔حالانکہ وقف ترمیمی بل پر حکومت کی منشاء اور اس کے ناپاک ارادے پر مسلمانان ہند کے علاوہ ان کی مذہبی و سماجی تنظیمیں اور متعدد سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی پرزور اور پرشور مخالفت کی ہیں۔گلیوں سے چائے خانوں تک، ٹھنڈے گھروں سے سڑکوں تک، پریس کانفرنس سے فیس بک تک حتی کہ شہر قصبہ اور گاؤں سے دہلی کے جنتر منتر تک ہر چھوٹی بڑی مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے وقف ترمیمی بل کے خلاف بڑے چھوٹے مذاکرے اور احتجاجی مظاہرے بھی کیے لیکن حکومت وقت اپنی سابقہ ریکارڈ کے مطابق اس مذاکرے، مناظرے اور احتجاج کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہٹ دھرمی اور من مانی پر قائم رہی۔ ہرچند کہ بی جے پی کا یہ دعویٰ کرتی رہی کہ نیا وقف قانون وقف بورڈ کی بد عنوانی ختم کرنا اور مسلمان بالخصوص پسماندہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنایا گیا ہے، جو ایک خالص افسانہ لگتا ہے اور منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو اسکا اصل مقصد ہندوتو وادی ووٹ بینک کو متحد و مضبوط کرنا اور انہیں یہ پیغام دینا ہے کہ کس طرح ہم نے ایک بار پھر مسلمانوں کو سبق سکھایا ہے۔ مسلمانوں پر انتظامی طاقت کی سختی دراصل ہندوتوا کے بے لگام جھنڈ کو معنی خیز جوش و خروش پیدا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ کیونکہ بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور کمیونٹی کو عدم تحفظ اور خوف میں دھکیلنا اس کی ووٹ سیاست کے مفاد کے لیے ہے۔
بہرحال "امید” قانون نافذ ہونے سے وقف املاک کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس قانون کے ذریعہ وقف بورڈ کو مرکزی حکومت کے ذمہ داروں کے ماتحت کرنا صرف ریاستی طاقت کا بڑے پیمانے پر تجاوز کی کوشش ہی نہیں بلکہ اس سے دستور ہند کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے،جو ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب کے تحفظ اور اپنےمذہبی امور خود سنبھالنے کا حق دیتا ہے۔لہذا یہ ترمیم شدہ وقف قانون مکمل طور پر آئین ہند کے منافی نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے معروف وکلاء نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وقف بورڈز کو پہلے ہی سختی سے ریگولیٹ کیا گیا تھا لیکن حالیہ بل سے حکومت کی دانستہ مداخلت اور غیر آئینی کنٹرول کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس کالے قانون سے حکومت کی منشاء واضح ہے کہ مسلم کمیونٹیز کے بعد عیسائی اور پھر سکھ برادری کے املاک پر قبضے کا بلیو پرنٹ تیار ہے جبکہ گودی میڈیا اور بھگتوں کے ذریعہ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہندوتوا کا ہتھوڑا مسلمانوں کے سر پر پڑا ہے، جس سے سنگھی کارکنوں اور اندھ بھگتوں کو جشن منانے کے بڑے مواقع مل رہے ہیں۔۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ہندستان میں وقف بورڈ سب سے بڑے زمین مالکان میں سے ہیں۔ ملک بھر میں آٹھ لاکھ 72 ہزار 351 وقف املاک ہیں جن کی زمین نو لاکھ 40 ہزار ایکڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اس مالیت کا اندازہ ایک کھرب دو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ مودی حکومت کا مؤقف ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈز میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں جس کی اصلاحات ضروری ہے۔ مسلمان اور ملی تنظیمیں بھی ان املاک اور بورڈز میں بدعنوانی کو ایک سنگین مسئلہ مانتی ہیں‘ ان میں اصلاح کی ضرورت سمجھتی ہیں لیکن ان اصلاحات کی آڑ میں مودی حکومت کی نیت ان زمینوں اور جاگیروں پر قبضے کی ہے۔ نیز حکومت کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس خالص مذہبی معاملے میں حکومتی افراد اور غیرمسلموں کو بڑی تعداد میں شامل کروایا جائے۔اس ایکٹ میں سب سے زیادہ متنازع بات ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے۔ پہلے ایکٹ کے قانون میں ”استعمال کے ذریعے وقف‘‘ یعنی ‘Waqf by User’ کا طریقہ موجود تھا جس کے تحت اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات نہ ہونے یا مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ وقف کے استعمال میں رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکڑوں سالوں میں مسلمان سلاطین‘ مغلیہ حکومت‘ انگریزی دور حکومت سے ہوتی آئی ان زمینوں کے کاغذات یا تو ہیں ہی نہیں یا وہ قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔ بہت سی جائیدادیں ہیں جو نسل در نسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں اور ان کے پاس رسمی دستاویزات تک نہیں۔ لیکن نئے ایکٹ میں ”استعمال کے ذریعے وقف‘‘ کے طریقے میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ پہلے وقف املاک سے متعلق مقدمات "وقف ٹربیونل” میں طے ہوا کرتے تھے‘ ٹربیونل کے فیصلے سے مطمئن نہ ہونے پر عدلیہ میں "نظر ثانی کی گزارش” بھی موجود تھی لیکن اب ترامیم کے ذریعے ٹربیونل ختم کر دیا گیا ہے اور یہ اختیار حکومت کے نامزد افسر اور عدالتوں کو دینے کی بات کی گئی ہے۔ اسی طرح نئے ایکٹ کے مطابق وقف بورڈ میں غیرمسلم افسران کو لازمی شامل کرنے اور وقف کا غیرمسلم چیف ایکزیکٹیو افسر CEO بھی مقرر کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ ان تبدیلیوں سے مسلمانوں کی نسل در نسل جائیدادیں بڑی تعداد میں حکومتی اختیار میں چلی جائیں گی۔ ایک عجیب شق یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی زمین ‘وقف للہ‘ کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے ایک باعمل مسلمان رہا تھا۔ اس طرح، ان تبدیلیوں پر مسلمانوں کو شدید اعتراضات اور بڑے تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے غیرقانونی طور پر وقف زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی ناراضگی بجا ہے۔ ان کا سڑکوں پر اترنا، صدائے احتجاج بلند کرنا بھی جائز لیکن پر امن اور جمہوری طریقے سے کیونکہ شرپسند طاقتیں کسی بھی وقت اپنے کپڑے اور حلیے بدل کر بھیڑ میں شامل ہو سکتی ہیں اور احتجاج و انقلاب کو پرتشدد بنا کر بدنام کرسکتی ہیں اور کسی فتنہ و فساد کی آگ کے لیے ہمیں ہی مورد الزام ٹھرا کر ملک میں ایک غلط بیانیہ تیار کر سکتی ہیں۔ جیسا کہ مرشدآباد اور مالدہ میں ہو چکا ہے۔ لہذا ہمیں محتاط رہ کر اپنی آوازیں بلند کرنی ہیں نیز عدلیہ سے رجوع کرکے اپنے بنیادی حقوق کی پامالی اور دستور ہند کے منافی والے ترامیم پر قدغن لگانے یا ایکٹ منسوخ کرنے کا پیٹیشن دائر کرکے قانونی لڑائ لڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ حالانکہ ہماری ملی و مذہبی تنظیموں کے علاوہ کانگریس، ڈی ایم کے، مجلس اتحاد المسلمیں، کمیونسٹ، راشٹریہ جنتا دل، ترنمول، مسلم لیگ، نیشنلسٹ کانگریس، عآپ و دیگر سیاسی جماعتوں نے عدالت عظمی سے رجوع تو ضرور کیا ہے لیکن گزشتہ دس پندرہ سال میں شاید ہی انہیں عدلیہ کے اہم فیصلوں میں کوئی بڑی راحت ملی ہو۔ اس لیے اس کا امکان بھی کم کم ہے کہ عدالت اس بل کو سرے سے غیرآئینی اور شہریوں کے بنیادی مذہبی حقوق کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردے گی البتہ وہاں مضبوط دلائل پیش کیے گئے اور منضبط بحث کی جاتی ہے تو عدلیہ سے اتنی امید تو ضرور ہے کہ عدالت عظمی اس”امید ایکٹ” کی ترمیمات پر ازسر نو غور کرنے کی ہدایت مرکزی حکومت کو دے دے ۔ بہر حال، جمہوری اور پر امن طریقے سے ہمیں اپنا احتجاج جاری رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ جب یہ آواز اٹھتی ہے تو سوچ کی نئی راہیں نظر آتی ہیں اور فکر کے نئے زاویے بھی کھلتے ہیں۔۔۔!!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)