وقف املاک ملت اسلامیہ کی امانت ہیں خواہ وہ کسی کے ہاتھوں میں ہوں۔ ان کا استعمال ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ہونا چاہیے جن کے لیے وہ وقف کی گئی ہیں۔ متولیان، ٹرسٹیان، وقف بورڈ کے اراکین اور وہ تمام لوگ جو ان کے انتظام و انصرام کی ذمے داری قبول کرتے ہیں، ان کے اوپر یہ لازم ہے کہ ان مقاصد کو پیش نظر رکھیں جن کے تحت کوئی بھی جائیداد وقف کی گئی ہے اور اس کا استعمال ان ہی مقاصد کے لیے کریں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرتے اور ذاتی منفعت یا دوسرے مقاصد کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں، تو وہ خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی شرع میں بڑی مذمت کی گئی ہے۔ متولیان، ٹرسٹیان اور وقف بورڈ کے ذمے داران کو اس طرح کی جائیداد سے خود استفادے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا دستور کے مطابق طے کیا گیا ہو۔ اگر کوئی شخص اس سے زیادہ فائدہ حاصل کرلیتا ہے یا اس میں خرد برد کرتا ہے تو وہ بھی خیانت کا مرتکب قرار پائے گا۔ نیز انتظامی، استحکامی و بقائی امور سے متعلق فیصلوں اور اخراجات میں بھی ملت اسلامیہ کی وسیع تر بھلائی کو پیش نظر رکھنا اور اس بات کا خیال رکھنا بھی ذمے داران پر ضروری ہوگا کہ جائیدادِ وقف وقت کے ساتھ برباد یا ناپید نہ ہونے پائے، اس نہج سے ہٹ کر لیا گیا ہر فیصلہ بھی خیانت کے زمرے میں آئے گا اور اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اس لیے وقف املاک کے انتظام و انصرام کی ذمے داری کوئی معمولی ذمے داری نہیں ہے بلکہ بہت ہی اہم اور آزمائشوں سے بھری ہوئی ذمے داری ہے جس کے طلبگار ہونے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔ تاہم اگر قوم و ملت نے کسی شخص کو ان املاک کی نگرانی کی ذمے داری مشورے سے سونپ دی اور اس نے ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں اسے قبول کرلی، تو پوری امانت داری کے ساتھ اس ذمے داری کو نبھانے کی کوشش کرے ورنہ قیامت کے دن خیانت کے جرم میں پکڑا جائے گا اور قہر خداوندی سے اسے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ یہی معاملہ تمام ملی اداروں کی ذمے داری کا بھی ہے۔ ملی اداروں اور ان کے اثاثوں پر پوری قوم و ملت اور اس کی نسلوں کا حق ہوتا ہے، لہٰذا ان میں کیا گیا کوئی خرد برد کبھی معاف نہیں ہوسکتا کیوں کہ سب مل کر خائن کو معاف کردیں، اس کا کوئی امکان نہیں۔ کسی انفرادی شخص کے مال میں اگر کسی نے خیانت کردی تو کم از کم اس کی حیات تک اس سے معافی تلافی کا امکان رہتاہے لیکن قوم و ملت کے اثاثے میںبے جا تصرف یا خیانت کی کس کس سے معافی مانگے گا؟ یہ بالکل ناممکنات میں سے ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے اس خیانت سے بہت محتاط رہنے کی تلقین کی ہے اور امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ آپؐ اپنے خطبوں میں اکثر یہ فرمایا کرتے تھے: ’’لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ‘‘ یعنی ’’اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں۔ ‘‘ (مسند الامام احمد بن حنبلؒ، مکتبہ دارالسلام، ریاض، طبع اول ۲۰۱۳ء، حدیث نمبر ۱۲۳۸۳)۔
قرآن کریم نے امانت کے سلسلے میں یہ ہدایت دی ہے: {إِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَٰنٰتِ إِلیٰٓ أَھْلِھَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط إِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط إِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ھ} (ترجمہ): ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ النسآء:۵۸)۔ نیز قرآن کریم کا یہ بھی اعلان ہے: {إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ} یعنی ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الأنفال: ۵۸)۔ نیز یہ بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَمَنْ یَّغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ} (ترجمہ): ’’ جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی ، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (سورۃ آل عمران : ۱۶۱)۔
اللہ کے رسول ﷺ نے یہ فرمایا کہ وہ خیانت کرنے والوں کی بروز حساب کوئی مدد نہیں کریں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (یعنی خیانت) کا ذکر فرمایا، نیز اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو، اور وہ ممیا رہی ہو یا اس کے گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو، اور وہ ہنہنا رہا ہو، اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تو اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو، اور بلبلا رہا ہو، اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، میں نے تو اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا دیا تھا یا ( اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا، چاندی، اسباب لادے ہوئے ہو، اور مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ آج تمہارے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تو اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے لدے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری مدد کیجئے اور میں یہ کہہ دوں کہ آج میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، میں نے تو اللہ کا پیغام تجھ تک پہنچا دیا تھا ۔ (صحیح البخاریؒ، حدیث نمبر ۳۰۷۳)
اسی طرح رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے: (ترجمہ): ’’جس نے حق کے بغیر ایک بالشت زمین بھی حاصل کی، قیامت کے دن وہ سات زمینوں تک اس کی گردن کا طوق بنا دی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلمؒ، حدیث نمبر ۴۱۳۳)۔ حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم (یعنی ان کے امور کا ذمے دار) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملے میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔ (صحیح البخاریؒ، حدیث نمبر۷۱۵۱)۔ نبی کریم ﷺ کے اسباب پر ایک صاحب مقرر تھے جن کا نام کرکرہ تھا۔ ان کا انتقال ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تو جہنم میں گیا۔‘‘ صحابہ کرام انہیں دیکھنے گئے اور ان کے اسباب کی تلاشی لی تو ایک عباء جسے خیانت کر کے انہوں نے چھپا لیا تھا، ان کے یہاں ملی۔ (صحیح البخاریؒ، حدیث نمبر ۳۰۷۴، بروایت حضرت عبداللہ بن عمروؓ)
غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک عباء کی وجہ سے ایک شخص جہنم رسید ہوگیا جسے نبی کریم ﷺ کی رفاقت حاصل تھی، تو جو لوگ وقف کی املاک میں خرد برد کرتے ہیں اور ناجائز طریقے سے ان پر قابض ہوجاتے ہیں، ان کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن ان سب انذار و تحذیر کے باوجود اوقاف کی جائیدادوں اور امارت شرعیہ کی املاک کے ساتھ ان کے متولیان، ٹرسٹیان، ذمے داران اور اراکین نے زبردست خیانتیں کی جن کے نتیجے میں حکومت وقت کو یہ موقع ملا کہ وہ ان اداروں میں دخل اندازی کرے۔ آج وقف کی املاک کے سلسلے میں ملک عزیز میں جو صورت حال درپیش ہے، اس کے ذمے دار دراصل وقف بورڈ کے وہ نااہل عہدے داران ہیں جنہوں نے وہاں لوٹ مچارکھی تھی۔ ان لوگوں نے قوم و ملت کے وسیع تر مفادات میں ان املاک کا استعمال نہیں کیا بلکہ سیاسی بازی گروں، زمین مافیاؤں اور مقامی افسران کے ساتھ ساز باز کر کے ملی مفادات کو نقصان پہنچایا اور حقیر ذاتی منفعت و مراعات حاصل کئے۔ ارباب حکومت نے جب یہ کھیل دیکھا تو ان کی نیت خراب ہوئی اور نتیجہ آج وقف ترمیمی قانون، ۲۰۲۵ (Waqf Amendment Act, 2025) کی شکل میں سب کے سامنے ہے جس کے توسط سے وقف املاک کے انتظام و انصرام میں حکومتی مداخلت کی راہ بالکل ہموار ہوچکی ہے ۔
دراصل بحیثیت مجموعی ہم نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ ہم ان ذمے داریوں کے اہل نہیں ہیں اور کوئی بھی ملی ادارہ ہم امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ نہیں چلاسکتے۔ آپ غور کرکے دیکھ لیجیے، سارے ملی اداروں کا ہم نے کیا حشر کیا ہوا ہے؟ ایک بھی ادارہ آپ کو شاید ہی صحیح نہج پر ملے۔ ہر جگہ آپ کو مجرمانہ خیانت، موروثیت، اقربا پروری، ذات پات، علاقائیت وغیرہ کا دخل ملے گا۔ واضح رہے کہ اہل کو چھوڑ کر مختلف بنیادوں پر نااہلوں کو عہدے اور ذمے داریاں دینا بھی بہت بڑی خیانت ہے۔ یہ بھی جان لیں کہ دستور خداوندی ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناقدری کرتی ہے اور ان نعمتوں کا استعمال اس کی مرضی کے مطابق نہیں کرتی، تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو چھین کر انہیں دوسرے ہاتھوں میں سونپ دیتا ہے۔ دیکھیے اگلی قوموں کی پکڑ کا سبب بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کیا اعلان کررہا ہے؟ {ذٰلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً أَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنفُسِہِمْ} (ترجمہ): ’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر اسے بدل دے جب تک وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی۔‘‘ (سورۃ الأنفال: ۵۳)۔ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ صفات و کردار کی بنیاد کسی قوم کو کسی نعمت سے نوازتا ہے اور تب تک وہ نعمت اس سے سلب نہیں کرتا جب تک اس قوم کے افراد خود کو ان صفات و کردار سے محروم نہیں کرلیتے۔
غور کیجیے کہ ہندوستان پر سینکڑوں سال حکومت کرنے والی قوم آج کیوں محکوم ہے اور ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہے، کیوں کہ جب حکومت کی نعمت اسے حاصل تھی تو اس نے اس کی قدر نہیں کی؛ اہل اقتدار عیاشیوں میں زندگی گزارنے لگے اور خدا کے دین کو بالکل فراموش کردیا۔ اس کی تبلیغ و اشاعت اور غلبے کے لیے کچھ بھی اقدامات نہیں کئے۔ آج ان کے سر پر مفت کی بدنامی ہے اور نتائج مسلمانوں کی پوری نسل بھگت رہی ہے۔ وقف بورڈ اور اس کے قوانین کے ساتھ بھی خدا کی وہی سنت دہرائی جارہی ہے مگر ہم ہوش کے ناخن لینے کو اب بھی تیار نہیں۔
اس تحریر کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ احقر وقف سے متعلق امور میں حکومتی مداخلت کے حق میں ہے، نہیں بالکل نہیں! تمام تر خرابیوں کے باوجود ہم کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ہمارے آباو اجداد کی وقف املاک غیروں کے تصرف میں ہو۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم ابھی بھی اپنا محاسبہ کریں اور ضروری اصلاحات کو بروئے کار لائیں۔ متولیان، ٹرسٹیان، وقف بورڈ کے اراکین اور ذمے دار مسلمان توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے فرائض میں کوتاہی کی معافی مانگیں اور تمام مسلمان متحد ہوکر حکومتی فیصلے کے خلاف جمہوری، آئینی اور پر امن طریقے سے ملک گیر پیمانے پر احتجاج کریں۔ یہ یاد رکھیں کہ وقف کی املاک ملت اسلامیہ کی امانت ہیں اور ان کی حفاظت کی ذمے داری صرف متولیان، ٹرسٹیان یا وقف بورڈ کے اراکین پر ہی نہیں بلکہ ملت کے ہر ذی شعور فرد پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ان کی حفاظت اور ملی حقوق کی بازیابی کی ہر ممکن جد و جہد میں یک جہتی کے ساتھ شامل ہوں۔
کچھ مفاد پرستوں نے ایسے نازک موقع پر بھی جب کہ ملک عزیز میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ان کے حقوق رفتہ رفتہ سلب کیے جارہے ہیں اور ملی اتحاد کی سخت ضرورت ہے، نفاق کی راہ اپنا لی ہے اور حکومت کی حمایت میں آگئے ہیں۔ کچھ ارباب اقتدار کے اس جھانسے میں آگئے ہیں کہ حکومت وقف املاک کو پس ماندہ طبقے کی ترقی کے لیے استعمال کرے گی۔ کیا یہ محض ان کی سادہ لوحی کہی جائے گی کہ ہزاروں جھوٹ سرعام بولنے والوں پراعتبار کر رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں سمجھ رہے کہ بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے اور حکومت کے نامزد افسران کو اختیارات منتقل کرنے کی دفعات لانے کے پیچھے ان کی کیا سوچ کارفرما ہے اور ان کے مضمرات کیا ہوں گے؟ کیا وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جن لوگوں نے اپنی ہی ملت کے پس ماندہ طبقے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ انہیں جو آئینی مراعات حاصل ہیں انہیں بھی سلب کرنے پر آمادہ ہیں، وہ آپ کے لیے کچھ کریں گے؟ دراصل یہ مفاد پرست لوگ ہیں، انہیں ملت کے پس ماندہ طبقے سے بھی کچھ نہیں لینا دینا بلکہ ان کے نام پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا ہے۔ ایسے مفاد پرستوں، منافقوں اور سرکاری ایجنٹوں کا بائیکاٹ کریں خواہ وہ مولویوں کی شکل میں ہوں یا سیاسی لیڈران کی شکل میں۔یاد رکھیں کہ جو شخص ملت کو کسی بھی بنیاد پر تقسیم کررہا ہو، وہ ملت کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ قائد تسلیم کیے جانے کے لائق ہے، اس سے دوری بنائے رکھنا ہی بہتر ہے۔ اگر ایسے مفاد پرستوں، خائنوں اور ملت کا شیرازہ بکھیرنے والوں کو سبق نہیں سکھائیں گے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے متحد ہوکر سینہ سپر نہیں ہوں گے تو آپ کی یہ ذلت جاری رہے گی اور مزید کا انتظار کیجیے۔ آپ کی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے بلکہ پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے اور سب کو صحیح سمجھ نصیب کرے۔ آمین!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)