Home تجزیہ وقف ایکٹ میں اصلاح کی منشا- ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

وقف ایکٹ میں اصلاح کی منشا- ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

فی الحال وقف ترمیم بل جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کو جا چکا ہے ۔ جس کی حزب اختلاف نے ہی نہیں برسراقتدار حلیف جماعتوں نے بھی مخالفت کی ہے ۔ ویسے اس کی بنیاد مارچ 2023 میں اس وقت پڑی جب اشونی اپادھیائے نے پی آئی ایل دائر کر عدالت کو بتایا تھا کہ وقف ایکٹ 1995 کی ایک سے زیادہ دفعات کو چیلنج کرنے والی تقریباً 120 درخواستیں مختلف عدالتوں میں زیر التواء ہیں ۔ انہوں نے اپنی عرضی میں ایکٹ کی کئی دفعات کو چیلنج کیا تھا اور مرکز سے ٹرسٹ اور ٹرسٹی، عطیہ اور صدقات کے اداروں اور مذہبی انتظامی اداروں کے لئے یکساں قانون بنانے کی ہدایات جاری کرنے کی مانگ کی تھی ۔
اقلیتی معاملوں کے مرکزی وزیر کرن رججو نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ غریب مسلمان طویل عرصہ سے وقف ایکٹ میں ترمیم کی مانگ کر رہے تھے ۔ لیکن وہ پارلیمنٹ کو یہ بتانے سے قاصر رہے کہ مسلمانوں کے وہ کونسے طبقات ہیں جو مانگ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ وقف ایکٹ میں کی جانے والی ترمیمات سے بد عنوانی اور لینڈ مافیاؤں پر لگام لگے گی ۔ اعتراضات سے بچنے کے لئے کہا گیا کہ حکومت سچر کمیٹی اور کے آر رحمٰن کی صدارت والی جے پی سی کی رپورٹ کے مطابق کام کر رہی ہے ۔ حالانکہ ان سفارشات کی بنیاد پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشوروں کے بعد 2013 میں وقف ایکٹ میں وسیع پیمانے پرترمیمات کی گئی تھیں ۔ مجوزہ بل میں 1995 کے ایکٹ کو 32 جگہ حذف اور 44 ترمیمات کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ اس میں دفعہ 40 کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے ۔ جس میں وقف بورڈ کو کسی بھی وقف اراضی کا سروے کرنے اور اسے وقف کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ اس کے تحت بورڈ کو کسی کے حکم یا آرڈیننس کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس دفعہ میں کھوئی ہوئی یا ضبط کی گئی جائیدادوں کو واپس لینے کا بورڈ کو حق حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ بورڈ اور ٹریبونل کے بعد تنازعہ کی کسی اور عدالت میں سماعت نہیں ہوتی سوائے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ۔ دفعہ 54 بورڈ کے ایگزیکٹو آفیسر کو وقف املاک سے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کا اختیار دیتی ہے ۔ اشونی اپادھیائے نے مجوزہ وقف ترمیم بل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 44 ترمیمات کے بعد قانون بچے گا ہی نہیں ۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اس بل سے وقف ایکٹ کمزور ہوگا ۔ جبکہ بل میں ایکٹ کا نام بدل کر امید (یونیفائیڈ مینجمنٹ ایمپاور اینڈ ڈویلپمنٹ ایکٹ 2024) کرنے کی تجویز ہے ۔ اس سے وقف کی پہچان ہی ختم ہو جائے گی ۔
اصلاحات کے نام پر مجوزہ ترمیمات وقف املاک پر مرکزی حکومت کے ریگولیٹری کنٹرول کو بڑھانے کی کوشش نمایاں ہو گئی ہے ۔ وقف املاک کے ریکارڈ کو ہموار کرنے کے لئے جائیدادوں کے ڈیجیٹل مرکزی رجسٹریشن کا نظام تجویز کیا گیا ہے ۔ نئے قانون کے نافذ ہونے کے چھ ماہ کے اندر ان جائیدادوں کے متعلق تمام معلومات کو اپ لوڈ کرنا ہوگا ۔ وقف املاک کا ڈیجیٹل اندراج بظاہر تکنیکی طور پر ترقی یافتہ معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں مرکزی حکومت اس کے ذریعہ وقف املاک کی معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ جبکہ یہ ریاست کے دائرہ اختیار کا معاملہ ہے ۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات پرانے قانون کی دفعہ 40 کو ہٹانا ہے ۔ جس کے تحت وقف ٹربیونلز کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار تھا کہ آیا کوئی جائیداد وقف ہونے کے لائق ہے یا نہیں ۔ ٹربیونلز کی جگہ اب ڈسٹرکٹ کلکٹر کو ایسے معاملات میں حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ سروے کمشنر کا کام بھی ضلع کلکٹر کے ذمہ کیا گیا ہے ۔ جبکہ کلکٹر اسسٹینٹ سروے کمشنر کے طور پر کام کرتا تھا ۔ مجوزہ قانون کلکٹر راج کو واپس لانے کی کوشش ہے ۔ بقول اکھلیش یادو ایک کلکٹر کے فیصلے کو ملک آج تک بھگت رہا ہے ۔ بل میں کہا گیا ہے کہ جب تک کلکٹر کے ذریعہ وقف کے قابل سمجھی جانے والی جائیداد کی حتمی رپورٹ حکومت کو نہیں دی جاتی، متعلقہ جائیداد کو وقف نہیں سمجھا جائے گا ۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف بورڈ اس وقت تک کسی بھی جائیداد کا کنٹرول نہیں لے سکتا جب تک حکومت اس کیس کا فیصلہ نہیں کرتی ۔ ضلع کلکٹر کو یہ اختیار دینے کی بھی تجویز ہے کہ وہ کسی بھی وقف جائیداد کی نوعیت بدل کر آرڈر جاری کر سکتا ہے کہ یہ سرکاری جائیداد ہے ۔ اس کے مطابق ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔ جس کے بعد ریاستی حکومت وقف بورڈ کو حکم دے گی کہ اس جائیداد کا اندراج اوقاف رجسٹر سے خارج کر دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی ترمیمی تجاویز میں مرکزی حکومت کو ‘کسی بھی وقت کسی بھی وقف کے آڈٹ کی ہدایت’ کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ وقف بورڈ پر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ہر سال اپنے کھاتوں کا آڈٹ ریاستی حکومتوں کے تیار کردہ آڈیٹرز کے پینل میں سے کسی ایک آڈیٹر سے کرائیں گے ۔ متولیوں پر مناسب حساب کتاب نہ رکھنے پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے ۔
مرکزیت کی طرف ایک اور قدم کے طور پر وقف ٹربیونل اب تین رکنی کے بجائے صرف دو رکنی ہوگا ۔ جس میں ایک ضلع جج اور دوسرا رکن ریاستی حکومت میں جوائنٹ سکریٹری کے عہدے کا افسر ہوگا ۔ اس کے باوجود اب وقف ٹربیونلز کا فیصلہ حتمی نہیں ہوگا ۔ کوئی بھی متاثرہ فریق ان فیصلوں کے خلاف 90 دن کے اندر براہ راست ہائی کورٹ میں اپیل کر سکے گا ۔ ٹربیونل کے فیصلے کی حتمی شکل کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ متنازعہ جائیدادوں کو کلکٹر کے ذریعہ حتمی رپورٹ پیش کیے جانے تک وقف نہیں مانا جائے گا، یہ قدم وقف نظام کو غیر مستحکم کرنے کا کام کرے گا ۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب وقف کی تعریف ہی بدل دی گئی ہے ۔ اب جائیداد کا صرف قانونی مالک ہی جائیداد کا وقف کر سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہو ۔ یہ سیدھے طور پر آئین کی دفعہ 26، 29 کی خلاف ورزی ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے ‘وقف بائی یوزر’ کے تصور کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ اس کے تحت وہ جائیدادیں آتی ہیں جنہیں کسی نے وقف کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، چاہے اس کے اصل عمل میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ روایتی طور پر، املاک کو اکثر زبانی طور پر وقف کیا جاتا تھا اور رسمی دستاویزات بہت بعد میں آئے ۔ تمام قدیم وقف املاک ایسی ہیں جن کے دستاویز دستیاب نہیں ہیں ۔ ان جائیدادوں پر کوئی بھی دعویٰ کرکے تنازعہ کھڑا کر سکتا ہے ۔ اس صورت میں کلکٹر دعویداروں سے دستاویز مانگنے کے ساتھ جائیداد کی کیفیت درج کرے گا ۔ سرکاری افسر ہونے کے ناتے سرکار کی منشاء اور اپنے نظریی کی طرف اس کا جھکاؤ ہو سکتا ہے ۔ دوسری طرف، وقف املاک اور سرکاری املاک کے دعووں کے درمیان کسی تنازعہ کی صورت میں، جائیداد پر حکومت کا دعویٰ غالب ہوگا ۔ ‘کوئی بھی سرکاری جائیداد، چاہے اس ایکٹ کے بننے سے پہلے ہو یا بعد میں، اگر کسی وقت تسلیم کیا گیا ہو ۔ اس صورت میں اگر یہ وقف جائیداد ہے یا اسے قرار دیا جاتا ہے، تو اسے وقف جائیداد نہیں سمجھا جائے گا ۔ ظاہر ہے اس سے وقف کا پورا نظام غیر مستحکم گا ۔ مشہور فقیہ اور قانون کے استاد، فیضان مصطفی، بغیر کسی وجہ کے نہیں کہتے کہ، ‘سینکڑوں سال قبل وقف املاک میں جو حقوق مقرر کیے گئے تھے، وہ غیر جانبدارانہ عدالتی فیصلہ کے بغیر ایگزیکٹو حکام کے قبضے میں نہیں آسکتے ہیں’۔
بڑے پیمانے پر خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت وقف املاک کو اپنے قبضے میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس سے قبل 2014 میں وہ کسانوں کی زمین تحویل میں لینے کے لئے بل لائی تھی ۔ جسے شدید مخالفت کی وجہ سے واپس لینا پڑا تھا ۔ اس کے بعد تین زرعی قانون بھی اس نے واپس لئے تھے ۔ یوپی میں نزول کی زمین کا بل بھی اپنوں کی مخالفت کی وجہ سے واپس لینا پڑا ۔ ریلوے اور فوج کی زمین کسرپوریٹ کو دینے کی وہ منصوبہ سازی کر چکی ہے ۔ ریل اور فوج کے بعد سب سے بڑی لینڈ ہولڈنگ وقف کے پاس ہے اس لئے اس کی نظر اب وقف زمینوں پر ٹکی ہے ۔ اسے مسلمانوں کے مذہبی اداروں کی خود مختاری چھیننے کی کوشش مانا جا رہا ہے ۔ اس بل کو لانے کے پیچھے وقف کی اصلاح اور لینڈ مافیاؤں پر لگام لگانا بتایا گیا لیکن مودی حکومت کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کر چوراہے کی زبان مں ہندو آبادی کو مسلمانوں کی چوڑی ٹائٹ کرنے کا پیغام دینا ہے ۔ اس سے بڑا واضح اشارہ کیا ہو سکتا ہے کہ نئے قانون کے تحت مرکزی وقف کونسل، ریاستی وقف بورڈ اور وقف ٹربیونلز جیسے وقف نظام کے اہم اداروں میں ‘غیر مسلموں’ کو لانے کے لئے دروازے کھولنے کی تجویز ہے ۔

ملک میں 32 وقف بورڈ کا کر رہے ہیں ۔ کچھ ریاستوں میں دو وقف بورڈ شعیہ سنی بنائے گئے ہیں ۔ جو وقف میں پندرہ فیصد کی موجودگی کے سبب بنائے گئے ہیں ۔ مجوزہ بل میں بورہ اور آغا خانیوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ ساتھ خواتین کی حصد داری کو یقینی بنانے کو کہا گیا ہے ۔ جبکہ 2013 کی ترمیمات کے مطابق بورڈ میں خواتین کو شامل کرنے کے قانون پر عمل ہو رہا ہے ۔ وقف کو اپنی جائیداد واپس لینے کا حق حاصل ہے اس پر لمیٹیشن ایکٹ 1963 لاگو نہیں ہوتا ۔ جبکہ دوسری کسی پرائیویٹ جائیداد پر اگر کوئی شخص 12 سال تک اور سرکاری املاک پر 30 سال تک بغیر تنازعہ کے قابض ہے تو وہ مالکانہ حق کا دعویٰ کر سکتا ہے ۔ نئے قانون کے مطابق وقف جائیدادوں کے قبضہ دار مالکانہ حق کا دعویٰ کر سکیں گے ۔ اس وقت تقریباً 90 فیصد وقف املاک پر قبضہ ہے ۔ اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو وقف جائیدادیں ہی نہیں بچیں گی ۔ ایسے میں بدعنوانوں اور لینڈ مافیاؤں سے اوقف کو بچانے کا سوال ہی بے معنیٰ ہو جائے گا ۔
دراصل حکومتوں کے لا تعلق رویہ او مافیا کی ملی بھگت سے وقف املاک پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ قائم ہے ۔ اب بھی حکومت کی منشاء وقف میں بہتری لانے کے بجائے نفرت کی سیاست کو ایندھن فراہم کرنا ہے ۔ بی جے پی حکومت اس کے ذریعہ لوک سبھا الیکشن میں خراب کارکردگی کی طرف سے دھیان ہٹا کر آنے والے ریاستی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنا ہے ۔ اس بات کو اپوزیشن ہی نہیں بلکہ جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی جیسی بی جے پی کی حلیف جماعتیں بھی محسوس کر رہی ہیں، حالانکہ وہ مسئلہ پر حکومت سے حمایت واپس لینے کی توقع نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ناراضگی کی وجہ سے مودی حکومت نے وقف بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ لوک سبھا میں بل لا کر اس نے اپنی بنیادی ہندو ووٹ بینک کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کی مہم جاری ہے اور مودی میں بھی جاری رہے گی ۔ لیٹرل اینٹری کے نوٹس اور ریزرویشن کے فیصلے کو حکومت دباؤ میں واپس لینے کو مجبور ہوئی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وقف ترمیم بل کی واپسی کے لیے مسلمان متحد ہو کر کتنا دباؤ بناتے ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like