عارفہ مسعود عنبر
مرادآباد
وحشت کا عالم ہے کیسے عید منائیں
لاشوں کا ماتم ہے کیسے عید منائیں
درد و الم کی راتیں ہیں اور بھوک کے دن ہیں
چیخوں کی سرگم ہے کیسے عید منائیں
دہشت کا منظر ہے جب بھی نظر اٹھائیں
مرنے کا بھی غم ہے کیسے عید منائیں
سڑکوں پر مزدور بہت مجبور ہوئے ہیں
ہجر کا یہ موسم ہے کیسے عید منائیں
گلے لگا کر ماں کو دل کا درد دکھائیں
آنکھ ہماری نم ہے کیسے عید منائیں
عید کے منظر کا موسم ہے سونا سونا
ویراں سب عالم ہے کیسے عید منائیں
عنبر چہرے پر چھائی ہوئی اداسی
دل میں غم پیہم ہے کیسے عید منائیں