Home نقدوتبصرہ وفیات اطبّاء ہند و پاک : حکیم وسیم احمد اعظمی کی آئندہ نسلوں تک میراث منتقل کرنے کی ایک لاجواب کوشش-شکیل رشید

وفیات اطبّاء ہند و پاک : حکیم وسیم احمد اعظمی کی آئندہ نسلوں تک میراث منتقل کرنے کی ایک لاجواب کوشش-شکیل رشید

by قندیل

 

ایک بار موبائل پر ، کسی کتاب کے بارے میں مختصر سی گفتگو کے سوا ، حکیم وسیم احمد اعظمی سے میری نہ کبھی ملاقات ہوئی ہے نہ بات ، لیکن میں ان سے اسی طرح واقف تھا جیسے ایک دنیا انہیں جانتی ہے ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی کا نام ’ طب یونانی ‘ کے حوالے سے ایک ’ لیجنڈ ‘ ہے ۔ حکیم صاحب کی طبّی اور علمی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ علمِ طب پر ان کی کتابیں داخلِ نصاب ہیں ، موصوف سینٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن کے کلینیکل اور لٹریری شعبہ سے وابستہ رہے ہیں ۔ اور کونسل کے ترجمان سہ ماہی ’ جہانِ طب ‘ کی ادارت کی ہے ۔ لیکن یہ تعارف ان کی شخصیت کا ادھورا تعارف ہے ۔ ان کی شخصیت کا مکمل تعارف اسی وقت ممکن ہے ، جب انہیں علمِ طب ، اور طب کے لیل و نہار کے ایک مورخ کے طور پر یاد یا پیش کیا جائے ۔ طب کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ قلم اٹھایا اور لکھ مارا ! یہ موضوع تحقیق چاہتا ہے ، اور تحقیق کے لیے محنت درکار ہوتی ہے ،حقائق اور کِذب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے ، اور جنہیں واقعی کسی تعصب یا کسی طرح کے کَد کی بنا پر نظرانداز کیا گیا ہے ، لیکن وہ ایسے لوگ نہیں تھے ، جنہیں نظرانداز کیا جانا چاہیے تھا ، ان سب کو ان کا جائز مقام دینا ہوتا ہے ، اور جو ناجائز طور پر مسند پر بیٹھ گیے ہیں ، یا جن کے نام کسی اور کا کام کردیا گیا ہے ، انہیں باہر کا راستہ دکھانا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے جسے تحقیق کے فن پر بھی کمال حاصل ہو اور جو تاریخ کے فن میں بھی طاق ہو ، ساتھ اْسے اپنے کام سے شدید لگاؤ ہو ، جنون کی حد تک ۔ وسیم احمد اعظمی کو طب کے موضوع سے کچھ ایسا ہی لگاؤ ہے ، اسی لیے اس موضوع پر انہوں نے اعلیٰ ترین معیار کی تحقیقی ، علمی اور تاریخی کتابیں لکھی ہیں ۔ گذشتہ دنوں بہت ہی پیارے ادیب اویس سنبھلی نے ، جنہیں میں علم دوست بھی مانتا ہوں اور کتاب دوست بھی ، مجھے حکیم صاحب کی چار کتابیں ایک ساتھ بھیج دیں ، وہ بھی حکیم صاحب کے دستخط کے ساتھ ۔ ان کتابوں میں تین جلدیں ’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ کی ہیں ۔ آج میں ان تینوں جلدوں کا ایک مختصر سا تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، حالانکہ طب میرا موضوع نہیں ہے ۔ جلد اول، حصہ اول – حرف الف ممدودہ و الف ، کی اشاعت 2019 ء میں ہوئی تھی ۔ یہ جلد 320 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 194 روپیہ ہے ۔ اس جلد کے ، اور باقی کی دو جلدوں کے بھی ، ناشر ’ اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن ، نئی دہلی ‘ ہیں ۔ اس کتاب کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ ، آخر اس کتاب کی آج کے دور میں ، جب کہ طب یونانی کی سانسیں ہندوستان میں اکھڑ رہی ہیں ، کیا ضرورت تھی ؟ کتاب کے ’ پیش نامہ ‘ میں حکیم صاحب نے اس سوال کا تشفی بخش جواب دے دیا ہے ۔ حکیم صاحب نے وفیات نگاری کو فنِ اسماء الرجال کا رہینِ منت قرار دیتے ہوئے بہت اہم نکتہ پیش کیا ہے کہ غالباً مسلمانوں کے ’’ شعور یا تحت الشعور میں اپنی میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا جذبہ رہا ہوگا ۔ اس طرزِ فکر نے مسلمانوں کی ہر طرح کی فکری ، علمی اور عملی جدوجہد کو محفوظ کر دیا ہے ۔‘‘ یہ جملہ اس کتاب کی ضرورت کو اجاگر کر دیتا ہے کہ ’یہ کام میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے ۔‘ حکیم صاحب کا ’ پیش نامہ ‘ اپنے آپ میں اطبّاء و حکما ء کی وفیات کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے ، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہےکہ یہ ’ پیش نامہ ‘ چند صفحات میں وفیاتِ اطبّاء کی مکمل تاریخ ہے ۔ اس میں اطبّاء کی وفیات پر عربی کی چند کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکیم صاحب نے اس موضوع پر اردو زبان میں ہند و پاک میں جو کام ہوا ہے ، اسے یوں سامنے رکھ دیا ہے جیسے کہ ’ کوزہ میں سمندر ‘۔ حکیم صاحب اس کتاب کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ میرے مطالعے میں اطبّاء ہند و پاک کی وفیات پر اب تک کوئی مستقل کتاب نہیں رہی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلی مستقل کتاب ہو اور نقش اوّل کی حیثیت رکھتی ہو ۔ ‘‘ جلد اول میں 296 اطبّاء کا تذکرہ ہے ۔ میں نے اس کتاب میں سب سے پہلے حکیم محمد افہام اللہ کا نام تلاش کرنے کی کوشش کی تھی ، ایک جگہ یہ نام ملا ، لیکن مجھ پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ ’ انہونہ ‘ والے ہی حکیم محمد افہام اللہ کا تذکرہ ہے یا کسی اور حکیم افہام اللہ کا ،لیکن یہ نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ایک بار حکیم صاحب نے ، جب وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے ، میرا علاج کیا تھا ، اور پتھری ، جو دوسرے ڈاکٹر نہیں نکال سکے تھے ، نکال دی تھی ۔ اس کتاب کا ، اور بعد کی جلدوں کا بھی ، مطالعہ کرتے ہوئے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی ہے کہ اس میں ہندو اطبّاء کے نام بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جیسے کہ حکیم آتما پرکاش گرجی سنیاسی ، بلکہ یہ کتاب کی فہرست میں سب سے پہلا نام ہے ۔ پہلی جلد میں ہندو اطبّا کے 23 نام شامل ہیں ۔ یہ نام دو طرح کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہیں ، ایک تو یہ کہ یونانی طب یا حکمت میں بھلے مسلمان اطبّاء کی تعداد زیادہ رہی ہو لیکن یہ طریقۂ علاج صرف مسلمانوں سے ہی منسوب یا صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں تھا ۔ دوسرا یہ کہ یونانی طب سے حکومت کا سوتیلا سلوک ،تعصب اور جانبداری اس پیتھی کے ہندو اطبّا کی خدمات سے بھی تعصب ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت حکمت سے ہندو اطبّا ء اور حکماء کا جو تعلق رہا ہے ،اس پر ریسرچ کرائے ، اور یونانی طب کو ترقی دینے کا کام کرے ،یہ کتاب اس کام میں حوالے کی کتاب بن سکتی ہے ۔
کتاب کی دوسری جلد ( جلد دوم ، حصہ اوّل – حرف ب تا ظ ) 368 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی اشاعت کا سنہ 2022ء ہے ۔ اس جلد کی قیمت 400 روپیے ہے ، جو پہلی جلد کے مقابلے کچھ زیادہ ہے ۔ اسے پہلی جلد کی طرح قومی اردو کونسل سے مالی تعاون تو نہیں ملا ہے لیکن اتر پردیش اردو اکادمی کے مالی اشتراک سے ممکن ہو سکی ہے ۔ اس جِلد میں 338 مسلمان اور ہندو اطبّا کا تذکرہ شامل ہے ۔ ہندو اطبّا کی تعداد 15ہے ، اِن میں سے اکثرشاعری بھی کرتے تھے ۔ کتاب میں ایک خاتون طبیبہ ستی النساء بیگم کا بھی تذکرہ ہے ، یہ شہنشاہ شاہجہاں کی بیٹی شاہزادی جہاں آراء بیگم کی اتالیق تھیں اور ممتاز محل کی سکریٹری ۔ علاج معالجہ میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ان کے بارے میں ایک عجیب بات یہ لکھی ہے کہ اِن کا انتقال لاہور میں ہوا اور وہیں کوئی ایک سال تک ان کے جسدِ خاکی کو محفوظ رکھا گیا پھر اسے آگرہ لا کر تاج محل سے متصل ایک شاندار مقبرہ میں دفن کیا گیا ۔ اس جِلد میں تین عیسائی اطبّا حکیم بتیس ڈسلوا ، حکیم پیڈروڈسلوا عبرتؔ اور حکیم جوزف ڈسلوایوسفؔ کا بھی تذکرہ ہے ۔ اِن تینوں کے تذکرہ میں ان کے والد کے نام بالترتیب یوں دیے گیے ہیں ، حکیم لوئس ڈسلوا ، حکیم جان ڈسلوا اور حکیم ایلیس ڈسلوا مفتوںؔ ۔ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن اطبّا کے یہاں حکمت خاندانی تھی ، اور انہیں شعر و سخن سے بھی شغف تھا ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی نے اِس جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ میں اطبّا ء و حکماء کی حیات و خدمات کے بارے میں اردو میں کیے گیے مزید کاموں کی تفصیلات پیش کی ہیں ، یعنی پہلے کی دستاویز میں مزید اضافہ کیا ہے ۔
تیسری جِلد ( جلد سوم ، حصہ اوّل – حرف عین )کی اشاعت 2021ء میں ہوئی ، یعنی دوسری جِلد سے ایک سال قبل ! حکیم صاحب نے ’ پیش نامہ ‘ میں ، جو پہلی جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ ہی کی طرح وقیع ہے ، اس تعلق سے لکھا ہے ، ’’ وفیات کے لوازمے کتابوں اور مجلّات ، جرائد اور اخبارات میں بھی بکھرے ہوئے ہیں ۔ ان کی تلاش اور تحقیق بے حد ارتکاز اور عرق ریزی کا کام ہے ، مگر ہے بہت ہی پُر لطف اور پر کیف ۔ جب ہم نے ’ وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ پر کام شروع کیا تو ہمیں اس امر کا اندازہ تھا اور بس اللہ تعالٰی کا نام لے کر کام شروع کیا ۔ اس کی پہلی جلد کا پہلا حصہ ( حرف الف ممدودہ و الف) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے 2019ء میں طبع ہوا تھا ۔ اس کے ’ پیش نامہ ‘ میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ وفیات پر جس قدر لوازمے مرتب ہوتے جائیں گے ، ہم انہیں طبع کرتے جائیں گے ۔ چنانچہ ’ وفیات اطباء ہند و پاک ‘ کی جلد دوم ابھی مبیضہ کے مرحلے میں ہی ہے کہ اس کی جلد سوم کا حصہ اوّل حرف عین ، آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ہم ان شاء اللہ اس کی دیگر جلدیں بھی عنقریب پیش کر سکیں گے ۔ وما توفیقی الا بالله ۔‘‘ یہ جِلد 336 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی قیمت 400 روپیے ہے ، اور اس میں 278 اطبّا کے تذکرے شامل ہیں ۔ یہ کتاب ’ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی ، لکھنئو ، حکومت اتر پردیش ‘ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے ۔ تحقیقی کتابوں کی اشاعت کے لیے سرکاری مالی تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ یہ کام وقت بھی چاہتا ہے اور تحقیق کے لیے سفر اور کتابوں تک رسائی بھی ، اس کے لیے نقدی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام اداروں کے ہی کرنے کا ہے نہ کہ کسی فردِ واحد کے ۔ خیر حکیم صاحب یہ کام کیے جا رہے ہیں ، اللہ انہیں صحت اور اسقلال عطا کرے ، آمین ۔ اس جِلد میں حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی اور ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال ، گیا ( بہار ) کی آراء شامل ہیں ، اِن میں سے اوالذّکر کا کہنا ہے ، ’’ معاملے کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنا حکیم وسیم احمد اعظمی کے فکر و فن کا خاصہ ہے ۔‘‘ اور ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ قاری اس کتاب کو صرف ایک کتاب سمجھتا ہے لیکن راقم کے نزدیک مذکورہ کتاب ، دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ ایک تو اطبّاء اور حکما کی وفیات نگاری ہے اور دوسرے مذکورہ بالا اطبّاء اور حکما کے حالاتِ زندگی اور کارنامے سے لبریز ہے ۔‘‘ تینوں ہی جِلدوں میں حوالے کے لیے مصادر و مراجع دے دیے گیے ہیں ، جن سے نایاب اور کمیاب کتابوں کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ اطبّاء کے حالات اور خدمات کو سامنے لانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ، اس طرح حکیم صاحب آئندہ نسلوں تک ، صحت اور صالحیت کے ساتھ ، بزرگوں کی میراث منتقل کر رہے ہیں ۔ اس کام میں انہیں جن افراد سے تعاون ملا ہے ، اپنے ’ پیش نامہ ‘ میں ان سب کا ذکر کیا ہے ، جیسے مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی ، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ، حکیم نازش احتشام اعظمی ، ڈاکٹر عمیر منظر ، اویس سنبھلی وغیرہ ۔ یہ تینوں جِلدیں موبائل نمبر 9451970477 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

You may also like

Leave a Comment