منتری جی کے دفتر کے باہر نقاب پوش ملاقاتیوں کی بھیڑ لگی تھی۔ الیکشن کو چار سال گزر چکے تھے۔ اور اگلے الیکشن میں ابھی ایک سال باقی تھا۔ اِس لئے فی الحال جنتا کو ہی اپنی ضرورتیں لیکر اُن مِلنےجانا پڑتا تھا۔
منتری جی پوری طرح نیگیٹیو تھے۔ کوئی اندر جاکر منتری جی کو پازیٹیو نہ کردے اِس کے لئے پوری احتیاط برتی جا رہی تھی۔ دفتر کے باہر ایک ایک میٹر کے فاصلے پر گول گول دائرے بنے ہوئے تھے۔
ویسے دائرے تو گول ہی ہوتے ہیں۔ پھر بھی بتا دینا اِس لئے ضروری سمجھا کہ یہ جو ہم شاعر و ادیب ہوتے ہیں نا اکثر جیومیٹری کی کلاس میں بِنچ پر کھڑے ہی نظر آتے تھے۔
مُجھے اچھی طرح یاد ہے غالباٙٙ آٹھویں جماعت میں تھا۔ ایک دن حساب کے سر نے مُجھ سے مربّع بنانے کو کہا۔ میں نے کہا "سر، کلاس میں مربّہ کیسے بن سکتا ہے؟”
سر ناراض ہوگئے۔ بولے "چلو ہاتھ سامنے کرو۔”
میں نے کہا "سر، مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں۔”
اُس کے بعد کیا ہُوا یہ بتا کر میں اپنے مرحوم استاد کی روح کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا۔ ایک مرتبہ اپنی ایک معشوقہ کو یہ قصّہ سُنایا تھا تو اُس نے سادھوی پرگیہ بن کر سر کو ایسا شراپ دیا کہ بیچارے اگلے ہی مہینے ریٹائر ہوگئے۔
ویسے اُس روز کلاس میں پِٹنے کے بعد جب گھر آکر امّی کو سارا ماجرا سُنایا تو اُنہوں نے مُجھے پیار سے سمجھایا "کوئی بات نہیں بیٹا۔ شاگرد کو پیٹنا تو استاد کا حق ہے۔ میں تجھے آنولے کا مربّہ بنا کر دے دیا کرونگی۔ اپنے سر کو دے دینا۔ پھر وہ تجھے کبھی مُربّہ بنانے کو نہیں کہینگے۔”
اقلیدس کی اِن بھیانک شکلوں سے نجات پانے کے لئے میں نے نویں جماعت میں ہی سائنس یا کامرس کی بجائے آرٹس کا انتخاب کرلیا تھا لیکن ان اقلیدسی چڑیلوں نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ اُردو کے سر شاعری پڑھانے آئے تو وہ بھی مثلث، مُخمّس اور مسدّس سمجھانے لگے۔
خیر چھوڑیے اِس درد بھرے قصّے کو۔ ہم اصل واقعے کی طرف آتے ہیں۔
منتری جی کے دفتر میں داخلے سے پہلے ہر آنے والے شخص کے ماتھے پر پستول تان کر اس کا ٹمپریچر چیک کیا جارہا تھا۔ درجۂ حرارت اطمینان بخش ہونے کے بعد ہاتھوں پر سینیٹائیزر چِھڑکا جاتا تھا۔ اور منتری جی سے ملاقات سے پہلے ہی لوگ ہاتھ مل لیتے تھے۔
ملاقاتیوں کی قطار میں مُجھ سے ایک میٹر آگے ایک خوبصورت سی لڑکی اپنے دائرے میں کھڑی تھی۔ بلو جینز اور بغیر آستین کے لال ٹی شرٹ میں ملبوس تھی۔ اور اِس لباس پر دوپٹّے کا تو خیر تصوّر ہی فضول ہے۔ اُس کے چہرے پر ماسک اور آنکھوں پر کالا چشمہ لگا تھا۔ لیکن میں اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس کی آنکھیں جھیل جیسی گہری اور ہرنی جیسی خوبصورت ہونگی۔ جبکہ ہونٹ میر کی محبوبہ کی طرح گلاب کی پنکھڑی جیسے نرم و نازک اور گلابی ہونگے۔ اُس کی تراشی ہوئی ریشمی زُلفیں گردن پر لہرا رہی تھیں۔ جِن کی اصل رنگت کالی ہی ہوگی لیکن شاید شہناز حُسین کے پارلر میں سُنہری پینٹ کروا کر آئی تھی۔
وہاں موجود سبھی لوگ نظریں بچا بچا کر کسی نہ کسی بہانے سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے اور دل ہی دل میں آہیں بھر رہے تھے۔ ویسے کچھ عجیب طرح کے خیالات میرے دل میں بھی آرہے تھے لیکن دیوار پر جلی حرفوں میں لکھا تھا کہ سب لوگ اپنے اپنے دائرے میں ہی رہیں، اِس لئے میں بھی اپنے دائرے میں ہی رہنے پر مجبور تھا۔
عام طور پر مجھے کسی قطار میں کھڑا ہونا بالکل اچھا نہیں لگتا۔ لیکن اُس روز نہ جانے کیوں جی چاہتا تھا کہ قطار کبھی ختم نہ اور میں ساری زندگی یونہی کھڑا رہوں۔
لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ قطار بڑی تیزی چھوٹی ہوتی جا رہی تھی۔ ملاقاتی دو تین منٹ میں ہی منتری جی سے مِل کر باہر نکل آرہے تھے۔
اور پھر وہی ہّوا جس کا ڈر تھا۔ اُس حسینہ کا نمبر بھی آگیا۔
سیکیورِٹی والے نے حسینہ کی خوبصورت پیشانی پر ٹمپریچر ناپنے والی پستول تانی اور کہا "آپنی جیتے پارین نا۔” (آپ نہیں جاسکتیں۔)
” بٹ وائی؟ آئی ہیو ٹیکین پرائر اپائنٹمِنٹ !”
(But why? I’ve taken prior appointment !)
حسینہ نے تقریباٙٙ چیختے ہوئے کہا۔
سیکیورٹی والا اُسے بنگلہ زدہ ہندی میں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ اُس کا درجۂ حرارت زیادہ ہے۔ اِس لئے وہ اندر نہیں جا سکتی۔ لیکن حسینہ شاید ہندی بنگلہ کسی بھی زبان سے آشنا نہیں تھی۔ اِس لئے وہ انگریزی میں ہی سیکیورٹی والے سے بحث کرنے لگی۔ اور مجھے فارسی کا وہ مقولہ یاد آرہا تھا کہ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم”
اچانک سیکیورٹی والے نے امداد طلب نظروں سے میری جانب دیکھا اور کہا "دادا ، آپنی تو اِنگریجی جانین۔ ایناکے ایکٹو بوجھان نا۔’ (بھائی، آپ تو انگریزی جانتے ہیں۔ اِنھیں ذرا سمجھایئے نا۔)
میری تو جیسے لاٹری نکل آئی۔ بیٹھے بِٹھائے یا یوں کہئے کہ کھڑے کھڑائے اُس حسینہ سے مخاطب ہونے کا موقعہ مِل گیا تھا۔ ویسے تو میں نے انگریزی بھی اردو میڈیم سے ہی پڑھی ہی تھی۔ لیکن پھر بھی انگریزی بولنے کا موقعہ ہاتھ سے جانے دینا عقلمندی تو نہیں ہوتی۔ لہٰذا پوری ہمّت جمع کرکے حسینہ کو انگریزی میں سمجھانا شروع کردیا۔
"میڈم، پلیز ٹرائی ٹو انڈراسٹینڈ۔ دی آنریبل مِنِسٹر سِٹِنگ اِن سائیڈ اِز اے نیگییٹیو پرسن۔ اِف یو گو اِن سائیڈ اٹ وُڈ بی ڈینجریس فار ہِم۔ بِکاز یو آر ویری ہاٹ۔”
(Madam, Please try to understand. The Hon’ble minister sitting inside is a negative person. If you go inside it would be dangerous for him. Because you are very hot.”
اور اچانک نہ جانے کیا ہُوا۔ حسینہ کو ہندی بنگلہ دونوں زبانیں ایک دم سے یاد آگئیں۔ "بے شرم کہیں کا۔ لجّا لاگے نا۔ تیرا باڑی تے ماں بون نہیں ہے؟ ہم تم کو می ٹُو کیس میں اندر کروا دیگا۔ تم ہم کو پہچانتا نہیں ہے”ـ
حسینہ چُڑیل کا روپ دھارن کرکے چیختی چنگھاڑتی اور پیر پٹکتی ہوئی وہاں سے نکل گئی ۔ لیکن میں اب تک نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آخر اُسے غصّہ کیوں آیا؟
ویری ہاٹ-مبارک علی مبارکی
previous post