Home نقدوتبصرہ اتر پردیش کی سیاست میں مسلمان: ایشوریا پنڈت کی ایک نئی کتاب – پروفیسر محمد سجاد

اتر پردیش کی سیاست میں مسلمان: ایشوریا پنڈت کی ایک نئی کتاب – پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

جدید اور ہم عصر بھارت کی تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے جو محدود اور سطحی سمجھ بنا پایا ہوں اس بنیاد پر آج کے حالات میں مسلمانوں کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت اور بھارت کی اکثریت کے بڑے حصے نے مسلمانوں کے تئیں اپنا نظریہ اور رویہ کچھ ایسا بدل ڈالا ہے کہ نہرو عہد کے ناقص اور کمزور سیکولرزم پر مزید حملہ آور رہنا مسلمانوں کی مشکلیں مزید بڑھا سکتی ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد نہرو خود اپنی پارٹی کے اندر کے اکثریت پرستوں سے جتنا کچھ لڑ پائے وہ غنیمت تھا۔ اتر پردیش کے تعلق سے تو اور بھی زیادہ غنیمت۔
اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر فرقہ پرستی کے زہر کا تریاق سیکولرازم ہے اور "انڈین سیکولرازم ” ہی آزادبھارت کی مسلم اقلیتوں کے لیے ایک راستہ تھا اور ہےتو پھر اس تصور کو توانائی فراہم کرنے کے لیے یا اسے کمزور کرتے رہنے کے لیے مسلمانوں کی جانب سے جو اقدام کیے جاتے رہے، ان پر بھی تو بے باک گفتگو ہوتی رہنی چاہیے ۔ یعنی مسلم فرقہ پرستی پر بھی بہت بے باکی سے باتیں ہوتی رہنی چاہئیں۔ کیا ایسا عمل مناسب حد تک ہوا ہے؟ شاید نہیں؟

ظاہر ہے کہ سوشل سائنس اور جدید و ہم عصر تاریخ کی اکادمک تحقیق اور کالم نگاری سے تعلق رکھنے والے بیش تر مسلم احباب ہماری اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے یہ احباب بہت زیادہ پڑھے لکھے، سمجھ دار اور دیانت دار ہیں، اس لیے ان کا کوئی مخفی و خودغرضانہ ایجنڈا نہیں ہے۔ ان کی دیانت دارانہ سمجھ ہے جس کو وہ عوامی (پبلک) حلقے میں شیئرکرتے رہتے ہیں۔ ان کی رائیں اہم اور قابل غور ہیں۔ ایسی باتیں میری جانب سے محض اظہار خاکساری کے طور پر نہیں کہی جا رہی ہیں، بلکہ ان احباب کی رائیں واقعی اہم ہیں۔
ہندوؤں کے درمیان اکثریت پرستوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر نئے لائحہ عمل پر غور و فکر کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں پچھلے دنوں چند مسلم منصب داروں اور فارغین (سبک دوش) از منصب نے ایسی آوازیں اٹھانا شروع کی ہیں، جن سے بہ ظاہرایسا لگتا ہے کہ وہ مصلحت پسندانہ مفاہمت کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی آوازیں محض ذاتی مفاد، انفرادی خودغرضی اور منصب براری کے لیے ہیں یا بھارت کے عام مسلم شہریوں کے لیے ہیں؟ یہ طے کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
اس پہلو پر مزید تفصیلی گفتگو آئندہ ہو گی۔ دوسرے لوگ بھی اس پر اپنی آرا اور موقف سے نوازیں گے۔
مندرجہ بالا سیاق و سباق میں ایک کتاب پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کی مصنفہ ہیں جندل یونی ورسٹی کی ایشوریا پنڈت۔ اس کتاب کا بنیادی سر وکار اتر پردیش کی سیاست (1947 سے 1986 کے درمیان) ، اس میں مسلمانوں کے رول، ان کی حیثیت اور ان کے مقام سے ہے۔ براہ راست کہا جائے تو یہ کتاب نہرو مخالف مسلمانوں کو شاید زیادہ پسند آئے گی۔ اس کا عنوان ہے Claiming Citizenship and Nation
اس کتاب کے اختتامی باب کا خلاصہ اردو قارئین کے لیے پیش ہے:
ایک اہم نکتہ جو اس کتاب نے اٹھایا ہے، وہ یہ ہے کہ اتر پردیش کانگریس نے نہرویائی سیکولرازم کی سخت مخالفت کی۔ یہ مخالفت اسکولی نصاب میں اردو کے مقام، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب وغیرہ جیسے معاملات سے تعلق رکھتی تھی۔ کانگریس ہائی کمانڈ اور صوبائی کانگریسی لیڈروں کے درمیان سخت تنازعے تھے، خصوصا آزادی کے بعد کی ابتدائی دہائیوں میں۔ نہرویائی سیکولرازم کے تئیں صوبائی کانگریس اور اس کی حکومت سنجیدہ نہیں تھی، بلکہ مخالفت میں تھی۔
اتر پردیش کی اردو سیاست کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے بدلے ہوئے حالات میں ایڈجسٹ کرنا نہیں سیکھا۔
ایشوریا پنڈت نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ علما اور چند خواص کی سیاست کو مسلمانوں کی سیاست کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کی نمائندگی مسلمانوں کی اردو صحافت نے کی جو لکھنؤ، کانپور، پٹنہ اور علی گڑھ سے شائع ہوتے تھے۔ صدق جدید، الجمیعت وغیرہ جیسے اخباروں کے یہی سرو کار تھے: اردو تعلیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی کردار، مسلمانوں کو پولس کی ملازمتوں سے زبردستی سبک دوش کروانا، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کے گھٹتے تناسب، فسادات کے مقتولوں کے پسماندگان کو ہرجانہ ادا کرنا وغیرہ۔ ان پہلوؤں پر مزید تحقیقوں اور تفتیشوں کی ضرورت ہے۔
سنہ 1961ء میں علی گڑھ کے فسادات (جو ہندو یا مسلم طلبا نے الیکشن جیتنے کی غرض سے کروایا تھا)؛ یہ وہی عہد تھا جب دیگر یونیورسٹی کیمپسوں میں بھی سیاسی عزائم رکھنے والے طلبا کئی تحریکوں میں پیش پیش رہنے لگے تھے۔
علما، مجتہد، متولی، سجادہ نشین وغیرہ کی سیاست، جو وقف املاک کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہے تھے؛ جمیعت العلمائے ہند اور جماعت اسلامی یوں تو ایک دوسرے کی مخالف تنظیمیں تھیں، لیکن وقف کے سوال پر یہ دونوں تنظیمیں متحد تھیں۔ اس تحریک میں یہ جماعتیں اس حد تک کامیاب تھیں کہ 1960ء تک وقف ایکٹ کو پاس ہونے سے روکے رہیں اور شیعہ و سنی وقف بورڈ کو الگ الگ قائم کروا سکیں ۔ شیعہ سنی اختلافات آزادی کے بعد بھی بڑھتے رہے۔ تعلق دار اور زمین دار خاندانوں کی دولت اور اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی۔ حسین آباد ٹرسٹ کی لڑائی نے شیعوں کو متحد کیا، اور بابری مسجد کوئی واحد قومی مسئلہ نہیں تھا۔ بابری مسجد کا قضیہ ملک گیر پیمانے کا نہیں تھا، بلکہ ہندو فرقہ پرستوں نے اسے ملک گیر بنا دیا۔ (یعنی ایشوریا پنڈت نے عام لبرل اسکالروں کی طرح اس تنازعے کو ملک گیر بنانے میں مسلم لیڈرشپ کے رول سے چشم پوشی کی ہے)۔
رام مندر کی نفرت آمیز اور تشدد آمیز تحریک صرف ایک مندر کی تحریک نہیں تھی، بلکہ ہندو فرقہ پرست سیاسی اتحاد کی تحریک تھی، جو سنگھ پریوار کی وجہ سے 1980ء کی دہائی میں بہت مضبوط و مقبول ہو گئی۔ بالاصاحب دیورس (1915-1996) نے سنگھ پریوار کو وسیع تر سماجی حلقوں میں مقبول کروانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
سنہ 1953 سے 1956 کی کاکا کالیلکر رپورٹ (1955) نے ذات پات پر مبنی ریزرویشن کی مخالفت کی تھی، جب کہ منڈل کمیشن (1980) نے اس کی سفارش کی۔ سنہ 1990ء میں اس کے نفاذ نے ہندو کی غالب جاتیوں کے اندر ایک ہیجان و بحران پیدا کر دیا اور سرکاری و نجی سیکٹروں کی ملازمت کی کمی نے مسلم مخالف نفرت اور تشدد میں اضافہ کیا۔ اس کا پہلا سفاک اظہار گجرات میں ہوا، باقی کے ملک میں بہت بعد میں ہوا۔ منڈل کمیشن میں مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں کے لیے بھی گنجائش بنائی گئی، اس نے ہندو فرقہ پرست سیاست کی آگ میں گھی کا کام کیا۔ یہ تمام پہلو انڈین سیکولرازم کے بحران کی غمازی کرتے ہیں۔
ایشوریا پنڈت اس جملے پر اپنی کتاب کو ختم کرتی ہیں کہ ان تمام پہلوؤں پر مزید تحقیق کی سخت ضرورت ہے۔
ایشوریا پنڈت کی اس کتاب نے اتر پردیش کے مسلم خواص کے سیاسی کردار پر روشنی ڈالنے میں زیادہ وضاحت سے کام نہیں لیا ہے۔ جب کہ تاریخ داں گیانیش کودئسیا نے 2002 کی ایک کتاب میں اتر پردیش کو بھارت کا ہارٹ لینڈ کہا ہے۔ آبادی اور جغرافیائی سائز کے اعتبار سے بھی یہ صوبہ عظیم ہے۔ مزید یہ کہ مسلم سیاست کا بیانیہ بھی اسی صوبہ کے مسلم خواص تیار کرتے ہیں۔ اتر پردیش کے انہیں مسلم خواص کو ڈیوڈ لیلی ویلڈ نے اپنی کتاب (1978) میں کچہری میلیؤ کہا تھا۔ یہی لوگ مسلم لیگ کی طاقت تھے۔ اسی لیے مولانا آزاد نے یہ کہا تھا کہ یہ بات تو سیاسی تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ پاکستان بنوانے میں اتر پردیش کے مسلم خواص کا ہی اہم ترین کردار رہا ہے۔ چودھری خلیق الزماں (1889-1973) نے بھی اپنی کتاب (1961) شاہراہ پاکستان میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں یہ بھی جوڑ دیا جائے کہ سنہ 1930ء کی دہائی میں خلیق الزماں لکھنؤ کے میئر منتخب ہوئے تھے، جس میں ہندو مہاسبھا کی حمایت بھی شامل تھی۔
اس پس منظر میں ایشوریا پنڈت کی زیر تبصرہ کتاب بہت اہم ہے۔ برطانوی عہد میں کچہری میلیؤ نے ہی مسلمانوں کے لیے قانون سازیہ میں نمائندگی، زبان (اردو) کا تحفظ، اور دیگر اداروں میں نمائندگی و تحفظات کے لیے آوازیں اٹھائی تھیں اور گیانیش کودئسیا سے اختلاف کرتے ہوئے وہ یہ لکھتی ہیں کہ آزادی کے بعد بھی اتر پردیش کے مسلم خواص نے آوازیں اٹھائیں ( یہ اور بات ہے کہ ان کی ترجیحات میں عموما جذباتی مسائل تھے)۔ لیکن اتر پردیش کانگریس میں مسلم مخالف تعصب نسبتاً زیادہ حاوی تھا، اسی لیے اتر پردیش کے مسلم خواص بے بسی کے شکار ہوتے چلے گئے۔ حالاں کہ ایشوریا پنڈت یہ بھی لکھتی ہیں کہ سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں علما اور فتاوی کی سیاست نے مسلمانوں کی ترجیحات کو گمراہ کیا۔ ایشوریا کا انکشاف ہے کہ کانگریس کی اندھی مخالفت میں کئی دفعہ مسلم رہنماؤں نے جن سنگھ جیسی بھگوائی طاقتوں سے بھی اتحاد قائم کیا۔

یہیں پر ایشوریا کی کتاب پر کچھ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سنہ 1986ء کے بعد شاہ بانو اور بابری مسجد کو لے کر جو نتائج رونما ہوئے ان سے چشم پوشی کیوں کی گئی ہے۔ علی میاں ندوی (1914-1999) نے اپنی آپ بیتی (1988) کاروان زندگی کی تیسری جلد کے چوتھے باب میں صاف صاف لکھا ہے کہ مسلم رہنماؤں، بہ شمول پرسنل لا بورڈ کی ناعاقبت اندیشی نے سیاسی و معاشرتی "فضا میں اشتعال و اضطراب پیدا کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا”۔ علی میاں ندوی کی اس تحریر کو نکولس نیؤجنٹ کی کتاب (1990) راجیو گاندھی کے ساتھ پڑھے جانے پر ایسے انکشافات مزید واضح ہو جاتے ہیں۔ یعنی مسلم سیاست کی ناعاقبت اندیشیوں نے بھی بھگوائیت کو توانائی فراہم کرانے کا کام کیا، اس پر خود احتساب کیا جانا چاہیے۔ ایشوریا نے چھٹے باب میں اس پہلو کا جائزہ نہیں لیا ہے کہ سابق سماج وادی، پچھڑے و دلتوں کے نئے خوش حال مڈل کلاس نے بھگوائیت کیوں اپنا لی؟
باب سوئم میں اردو کے تعلق سے تفصیلی باتیں پیش کی ہیں۔ لیکن اردو کے زوال کی مکمل ذمہ داری کانگریس حکومت کے اردو مخالف تعصب پر ڈال دی ہے۔ اگر ایشوریا نے سلمی کے۔ سونٹاگ کی تحقیق (1996) اور راقم السطور کی تحقیق (2014) سے استفادہ کرتے ہوئے بہار کی اردو تحریک (1951-1989) سے تقابلی جائزہ لیا ہوتا تو ایشوریا پر یہ واضح ہوتا کہ اتر پردیش کے اہل اردو کی جانب سے کس قسم کی کوتاہیاں برتی گئیں ہیں۔
اردو اور پرسنل لا کے علاوہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریکوں کا جائزہ بھی ایشوریا نے بہت تفصیل سے لیا ہے۔ لیکن یہاں بھی انہوں نے خود یونیورسٹی والوں کی جانب سے برتی گئی کوتاہیوں سے چشم پوشی کی ہے۔ مثلا خود مسلم یونیورسٹی نے مسلم مسائل پر تحقیق کرنے اور کروانے سے گریز کیا ہے۔ 24 مئی 2010ء میں عمر خالدی نے اپنے ایک مضمون (ٹو سرکلس ڈاٹ نٹ) میں ایسی کوتاہیوں کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات اور دیگر مسائل پر مسلم یونیورسٹی کے مختلف شعبوں (بالخصوص سیاسیات، سماجیات، اقتصادیات) نے کوئی بھی تحقیق نہیں کروائی ہے۔ یعنی ایشوریا کی نہایت ہی محنت سے لکھی ہوئی یہ عمدہ تحقیقی کتاب برسر اقتدار پارٹی اور حکومت کے تعصبات کو بے نقاب تو کرتی ہے، لیکن خود مسلمانوں کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرتی ہے۔ اس سے خود مسلمانوں کے درمیان خود احتسابی کے عمل کا فقدان بنا رہے گا اور وکٹم ہوڈ (مظلومیت پسندانہ بیانیہ) کی سیاست حاوی رہے گی۔

ایسی کمیوں سے قطع نظر یہ کتاب اعلی تحقیق کی عمدہ مثال ہے۔ یہ کتاب پڑھی جانی چاہیے۔

You may also like