نینی تال کی سیاحت کے ساتھ ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس علاقہ میں متعدد رفقائے تحریک سے ملاقات ہوئی اور وہاں انجام دی جانے والی تحریکی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوئی ـ یہ چیز بھی مجھے خوش کرنے والی تھی ـ
ہلدوانی میں جماعت کے ایک بزرگ رکن جناب عبد الحمید ادیب ہیں ـ سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے ، کافی عرصہ سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ـ ادبی ذوق رکھتے ہیں ـ دو برس پہلے ان کا سفر نامۂ حج ‘رودادِ حرم’ کے نام سے شائع ہوچکا ہےـ ان سے پہلے ہی رابطہ ہوگیا تھاـ میں نے عرض کیا : ” ہم لوگ ساڑھے دس بجے شب تک پہنچیں گے ، اس لیے راستے میں کچھ کھا لیں گے ، آپ رات کے کھانے کا انتظام مت کیجیے گاـ” کہنے لگے : ” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ہمارے مہمان ہیں ـ” ہم ہلدوانی ریلوے اسٹیشن پر اترے تو انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ منتظر پایاـ بہت شرمندگی ہوئی کہ انھوں نے اتنی زحمت کی ، جب کہ ان کی عمر 80 برس کو پہنچ گئی ہےـادیب صاحب ماشاء اللہ اب بھی سرگرم ہیں ـ تحریکی رسائل منگواتے ہیں اور خود ہی انہیں تقسیم کرتے ہیں ـ تحریکی موضوعات پر ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی ـ انہیں اس بات پر متفکر پایا کہ تحریک کی ابتدا میں لوگ جس جوش و جذبہ ، شعور اور قربانی کے ساتھ اس میں شامل ہوتے تھے وہ اب تحریک میں شامل ہونے والوں میں نظر نہیں آتاـ میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع شدہ بچوں کے لیے کہانی کی کتابیں لے گیا تھاـ ان کے پوتوں پوتیوں کو دیں تو وہ بہت خوش ہوئے _ ان کی بہوئیں بھی میری اہلیہ کے پاس آگئیں اور دیر تک گفتگو کرتی رہیں ـ اہلیہ نے انھیں چھوٹی موٹی چیزیں : اسٹال ، چوڑیاں وغیرہ تحفے میں دیں تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیاـ
ادیب صاحب نے نینی تال کی سیر کے لیے ایک ٹیکسی والے سے بات کرلی تھی ـ انھوں نے اس سے کہا : ” یہ بہت بڑے مولانا ہیں ، پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں ، انہیں بہت آرام سے لے جانا اور کسی شکایت کا موقع نہ دینا _” شاید ان کی اس تاکید کا اثر تھا کہ اس نے ہمارا بہت خیال رکھا _ وہ اتنا گُھل مل گیا جیسا ہمارا فیملی ڈرائیور ہو _ جتنا کرایہ طے ہوا تھا ، ہم نے اس سے کچھ بڑھا کر ادا کیاـ وہ بہت خوش ہواـ اس نے رخصت ہوتے ہوئے کہا : ” میں بہت دنوں سے گاڑی چلا رہا ہوں ، لیکن آپ لوگوں جیسی سواریاں میری گاڑی میں بہت کم بیٹھی ہیں ـ” میں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیاـ
سیاحت سے واپسی پر جناب فخر الدين صاحب ہمارے منتظر تھے کہ ہمیں انہی کے یہاں قیام کرنا تھا _ تحریک اسلامی سے محبت انہیں پشتوں سے ملی ہےـ بہت تپاک سے ملے _ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ، لیکن ایسا لگا کہ بہت پرانی شناسائی ہےـ میں نے ان سے سوال کیا : ” آج سے 47 برس پہلے ، جب میں درسِ گاہ اسلامی رام پور میں زیرِ تعلیم تھا اور میری عمر دس گیارہ برس تھی ، میں درس گاہ کے بچوں کے ساتھ اس علاقے میں پکنک میں آیا تھا _ وہ کون سی جگہ تھی؟” انھوں نے جواب دیا : ” وہ یہی جگہ تھی جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں ـ” ان کی اس بات نے مجھے جذبات سے مغلوب کردیاـ میں نصف صدی قبل کی یادوں میں کھوگیا ، جب ہم نے یہاں کئی دن گزارے تھے ، خوب کھیلے کودے تھے ، گنّے کے کھیتوں سے گنّے توڑ کر کھائے تھے ، یہاں گنّے کا رس نکال کر گُڑ بنایا جاتا تھا تو گنے کا رس پیا تھاـ
فخر الدین صاحب نے میری موجودگی سے فائدہ اٹھاکر کئی پروگرام رکھوا دیےـ بعد نمازِ عشا خطاب ، جس میں اطراف سے خاصے لوگ آگئے ، اگلے دن بعد نمازِ فجر درسِ قرآن اور ساڑھے دس بجے خواتین سے خصوصی خطاب ـ ان پروگراموں میں مجھے اصلاحِ معاشرہ کی ضرورت بیان کرنے کے ساتھ اس میدان میں جماعت اسلامی کی کوششوں کا تعارف کرانے کا موقع ملاـ
اتراکھنڈ کا علاقہ پہلے جماعت اسلامی ہند کے حلقۂ اترپردیش (مغرب) کے ماتحت تھاـ 2018 میں اس کا نظم الگ کردیا گیاـ اِس میقات میں مرکزِ جماعت میں ایک نیا شعبۂ توجہ طلب /کم زور حلقوں (Focused Zones) کا قائم کیا گیا ہے ، جس کے سکریٹری محترم جناب شفیع مدنی اور اسسٹنٹ سکریٹری جناب محمد نیّر ہیں ـ برادر مکرّم محمد طاہر کو اتراکھنڈ کا انچارچ اور برادر عزیز انس کو ان کا معاون بنایا گیا ہےـ سیاحت سے ہماری واپسی پر یہ دونوں حضرات بھی آگئے تھے اور آخر تک ہمارے ساتھ رہےـ طاہر صاحب نے بتایا کہ اتراکھنڈ میں جماعت کے 26 ارکان ہیں ـ زیادہ تر لوگ کاشی پور ، رام نگر اور رڑکی میں ہیں ـ کچھ دوسرے مقامات پر بھی ہیں ـ SIO, GIO, children Circle اور حلقۂ خواتین بھی قائم ہیں ـ
فخر الدین صاحب کا بڑا فارم ہےـ انھوں نے شتر مرغ ، بطخیں ، مرغے مرغیاں ، طوطے ، کبوتر وغیرہ پال رکھے ہیں ـ مرغوں نے رات بھر سونے نہیں دیاـ میں نے کہا : ” مرغ علی الصباح بانگ دیتے ہیں ، وہ تہجد اور آہِ سحر گاہی کے لیے لوگوں کو بیدار کرتے ہیں ـ یہ کیسے مرغ ہیں جو رات بھر چیختے چلّاتے ہیں؟” طاہر صاحب نے کہا : ” یہ مرغ زیادہ متّقی و پرہیزگار ہیں ، یہ رات بھر اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ـ”
بھائی نعمان بدر فلاحی اسی علاقے کے رہنے والے ہیں ـ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ریسرچ کررہے ہیں ـ ان سے بات ہو گئی تھی ـ ان کے والد محترم اور بھائی بعد عشاء خطاب کے موقع پر اور والدہ محترمہ خواتین کے خصوصی پروگرام میں آگئی تھیں ـ انھوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو واپسی میں چند منٹ کے لیے ان کے یہاں رکےـ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بھائی نعمان کے والد بھی درس گاہ اسلامی رام پور کے فیض یافتہ ہیں ـ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ میرے درس گاہ اسلامی رام پور کے استاذ مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری (مؤلف تعلیم النحو) ان کے ماموں ہیں ـ