آنجہانی صدر جمہوریہ سروپلی رادھا کرشن کے یوم پیدائش ( 5 ستمبر )پر ہرسال پورے ملک میں ’یوم اساتذہ‘ منایا جاتا ہے اور اس موقع پر اساتذہ کو اعزاز واکرام سے نوازا جاتا ہے۔ ایک بہترین استاد ہی دراصل قوم کے مستقبل کا معمار ہوتا ہے، لیکن آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، اس میں تعلیم ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اساتذہ بھی اسی کاروبار کا ایک حصہ ہیں۔ ایسے اساتذہ خال خال ہی نظر آتے ہیں جن کا تذکرہ کیا جائے یا جنھیں صحیح معنوں میں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ مگر میں آج کے دن کی مناسبت سے آپ کو ایک ایسے استاد سے متعارف کراتا ہوں، جنھوں نے مجھے زندگی میں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ یہ تھے میرے پرائمری اسکول کے استاد جناب ساجد علی صاحب۔
مرادآباد میں اندراچوک (پرنس روڈ)پر واقع جونیئر ہائی اسکول، کٹارشہید میری ابتدائی تعلیم کی یادوں کا سب سے متحرک حصہ ہے۔ یہاں میں نے مڈل کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔ جب میں ابتدائی جماعت میں داخل ہوا تو اسکول کی حالت بہت خستہ تھی، جیسی کہ اس زمانے میں اکثر سرکاری اسکولوں کی ہوتی تھی۔ٹاٹ کی ایک پٹی پر بیٹھ کر ہم پڑھتے تھے اور لکھنے کی مشق کرنے کے لیے تختی کو روزانہ کھریا مٹی سے دھوکر لاتے تھے۔ ماسٹر ساجد علی صاحب چوتھی یا پانچویں کلاس میں ہمارے تمام مضامین کے استاد تھے۔ کلاس میں بچوں کی تعداد تقریباً 25 تھی، لیکن ان میں چارپانچ بچے ہی ایسے تھے جنھیں پڑھنے سے کوئی سروکار تھا۔ باقی موج مستی کرنے اسکول آتے تھے۔ ماسٹر ساجد علی صاحب ان چاریاپانچ بچوں کو اسکول کی چھٹی کے بعد اپنے گھر لے جاتے تھے اور وہاں ہمیں کھانا کھلاکر شام تک پڑھاتے رہتے تھے۔ انھوں نے کبھی اس کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے والدین پر اس کا احسان جتایا۔انھوں نے ابتدائی کلاسوں میں ہم پر جو محنت کی تھی، وہی آج ہمارے بہت کام آرہی ہے۔آج کے دور میں ایسے اساتذہ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔