Home خاص کالم اردو زبان کی وسعتِ دامانی – شہلا کلیم

اردو زبان کی وسعتِ دامانی – شہلا کلیم

by قندیل

 

سوال ہے:اردو تحریروں میں دیگر زبانوں کا سہارا لینے کی ضروت کیوں پیش آتی ہے،جبکہ ہماری اردو خود ایک وسیع زبان ہے؟

یہ سوال اپنے آپ میں خود ایک مدلل جواب ہے کہ "دیگر زبانوں کا سہارا لینے کی ضرورت یوں پیش آتی ہے کہ ہماری اردو ایک وسیع زبان ہے!”جس کا مختصر تاریخی پس منظر یوں ہے کہ ۱۵۰۰ قبل مسیح سے لیکر تاحال ارتقا کے مخلتف مراحل طے کرتے ہوئے سنسکرت، پراکرت ،اپ بھرنش وغیرہ کی گود میں پرورش پانے والی اردو شمالی ہند یعنی دہلی اور نواح دہلی میں پروان چڑھی ـ ہر زبان اردو کی پرورش کے ساتھ ساتھ ایک لسانی نام بھی اس زبان کی جھولی میں ڈالتی رہی اور بالآخر ہندی، ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ جیسے مختلف ناموں کا چولا بدلتے ہوئے کھڑی بولی کی کوکھ سے جنم لینے والی اور شمالی ہند کی گود میں پرورش پانے والی اصل اور ادبی زبان کا نام اردو پڑاـ (اسی پر اتفاق ہے) اس پورے ارتقائی سفر کے دوران اردو نے اپنا دامن وسیع رکھا اور ہر زبان کے پھولوں سے رس نچوڑ کر لسانی شہد تخلیق کرتی رہی ـ اردو زبان کی وسعت دامانی کا یہ عالم کہ ہندی ، عربی ، فارسی اور انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں آکر اس طور مدغم ہو گئے کہ اہل زباں کی آنکھ بھی پہلی نظر میں شناخت نہ کر سکی ـ اگر ہم اردو کی وسعت کا موازنہ دیگر زبانوں کی وسعت سے کرنے بیٹھیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ اردو وہ واحد زبان ہے جس نے دوسری زبانوں کے پورے پورے لفظ اور مکمل جملے بلا تحریف و ترمیم اپنے اندر اس شان سے سمو لیے کہ وہ بالکل بھی اجنبی نہ رہے اور اسی زبان کا حصہ بن گئےـ جبکہ دیگر زبانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے ـ دنیا کی اکثریت کے ذریعے بولی اور سمجھی جانے والی انگریزی زبان کی اہمیت کا بھلا کس کو انکار ہوگا لیکن اس زبان کی تنگ دامانی کا یہ عالم ہے کہ دوسری زبان سے کوئی لفظ مستعار لیتے وقت اسے من و عن خود میں شامل کرنے کی بجائے اس لفظ کی اصل اپنی ہئیت کے موافق ڈھال کر اپنے حلقے میں جگہ دی ـ مثال کے طور پر لٹریچر کے سب سے معروف لفظ "ناول” کو ہی لے لیجیےـ ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے لیکن انگریزی نے اس لفظ کو اصل ہیئت کے ساتھ قبول کرنے کی بجائے ذرا سی ترمیم کے ساتھ Novel میں تبدیل کرکے اپنی ضرورت کی تکمیل کی ـ
لیکن سوال اب بھی قائم ہے کہ آخر دخیل الفاظ کے ہوتے ہوئے مزید الفاظ کے استعمال کا کیا جواز ہے؟
جواز نہایت سادہ اور پختہ ہے کہ کبھی کبھار کسی زبان میں موجود لفظ لسانی اعتبار سے وہ خوبصورتی بیان کرنے سے قاصر اور معنوی اعتبار سے وہ تاکید پیدا کرنے کیلیے ناکافی محسوس ہوتا ہے جو کہ دوسری زبان کا متبادل لفظ بحسن و خوبی ادا کر سکتا ہےـ لہذا اس صورت میں اردو زبان کی وسعتِ دامانی کا فائدہ اٹھانا جائز ہے کہ یہی وہ زبان ہے جو دوسری زبانوں کے الفاظ اور جملے بغیر کسی تحریف و ترمیم کے من و عن قبول کرنے کی سکت رکھتی ہےـ
تاہم دیگر زبانوں کے الفاظ تحریر میں استعمال کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا لازم ہے کہ تحریر کردہ زبان اپنی اصل حالت میں موجود رہےـ یہ نہ ہو کہ ایک زبان لکھتے وقت دوسری زبان کے الفاظ کی کثرت سے یوں محسوس ہونے لگے گویا دوسری زبان کو اپنے حلقے میں جگہ دینے کی بجائے آپ خود اس زبان کے طبقے میں شامل ہو گئےـ یعنی تحریر میں غیر زبانوں کے الفاظ کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہو نہ کہ نمک میں آٹے کے برابر؛ یا یوں کہہ لیں کہ غیر زبان کے الفاظ کا استعمال فقط گہنے میں نگینے جڑنے کے مترادف ہو!
آخر میں اردو زبان کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں وہ بات بیان کر دینا لازم ہے جو ہم اکثر دہراتے رہتے ہیں کہ خاصے مضحکہ خیز ہیں وہ لوگ جو اردو کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے اور ہندی کو اشلوک پڑھا کر ہندو کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں، حالانکہ دونوں زبانیں دیوناگری اور نستعلیق رسم الخط کی صورت میں صرف مختلف جامے زیب تن کیے ہوئی ہیں، ان کا حسب و نسب ایک ہی ہےـ ان میں سے کوئی بھی زبان کسی بھی مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ خالص ہندوستانی زبان اور یہ ہماری تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی وراثت ہے!

 

You may also like

Leave a Comment