Home خاص کالم اردو زبان اور گنگا جمنی تہذیب-مولانا شمیم اکرم رحمانی

اردو زبان اور گنگا جمنی تہذیب-مولانا شمیم اکرم رحمانی

by قندیل

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
(منیش شکلا)

اس دنیا میں قسم قسم کے لوگ رہتے ہیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں، خود ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ایک سروے کے مطابق 427 ہے، تاہم کچھ زبانیں ایسی ہیں جو اپنی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پر الگ شناخت رکھتی ہیں اور پوری دنیا کے لیے مرکز توجہ بنی ہوئی ہیں، انہی زبانوں میں سے ایک زبان اردو بھی ہے – اردو کا رسم الخط گرچہ بالواسطہ سامی خاندان کی اہم زبان عربی سے ماخوذ ہے؛لیکن بنیادی طور پراردو ہند آریائی زبان ہے جس کی خمیر میں مختلف تہذیبوں، زبانوں اور فرقوں کی خوبیوں کو سمولینے کی مکمل استعداد موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہر کوئی اردو کو بڑی آسانی سے اپنا لیتا ہے تو دوسری طرف اردو بھی بڑی آسانی سے ہر کسی کو اپنالیتی ہے اور اس طرح اپناتی ہے کہ نہ سرحدوں کے اختلاف کو دیکھتی ہے نہ مذہب و ملت کی تفریق کو گوارہ کرتی ہے – میرا خیال ہے کہ اگر کسی زبان کو یہاں کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی کا حق حاصل ہوسکتا ہے تو وہ زبان صرف اردو ہی ہوسکتی ہے، اردو زبان محض علاقوں اور خطوں کو آپس میں نہیں جوڑتی بلکہ دلوں کو فتح بھی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو جدید زبان ہونے کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اوردنیا کی تمام اصناف ادب کا مواد بھی یہاں مل جاتاہے مزید خاص بات یہ ہے کہ اردو زبان کے لہجے میں پیار و محبت کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کے سوز و گداز کو ہر سمجھدار انسان واضح طور پر محسوس کرتا ہے، مجھے خود ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے جنہیں اردو ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی تھی؛ لیکن سننے میں مزہ آتاتھا۔

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اُردو آئے
(احمد وصی)

محققین کا اس بات پر بڑی حد تک اتفاق ہے کہ اردو زبان کی ابتداء مسلمان فاتحین کے آمد سے ہوئی ہے؛ البتہ جگہ کی تعین میں اختلاف ہے بعض محققین کے مطابق اردو کی پیدائش دکن میں ہوئی، بعض کے مطابق پنجاب میں، بعض کے مطابق دہلی میں اور بعض کے مطابق سندھ میں، اب پیدائش خواہ کہیں ہوئی ہو؛لیکن یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی زبان یکلخت وجود میں نہیں آتی ہے؛ بلکہ جستہ جستہ بنتی اور ترقی کے منازل طے کرتی ہے بقول بابائے اردو ”جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے،پتے نکلتے،شاخیں پھیلتی،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا ساپودا ایک تناور درخت ہوجاتا ہے؛ اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے،بڑھتی اور پھیلتی ہے۔“ (مقدمہ بابائے اردو مولوی عبدالحق از قواعد اردو)

جب مسلمان یہاں آئے اور یہاں کے باشندوں سے ان کا میل جول بڑھا تو یہاں کی رائج زبانوں میں تبدیلی ہوتی گئی جو مقامی زبانوں پر اس قدر اثرانداز ہوئی کہ ایک نئی مخلوط زبان بن گئی جیسا کہ چند معلوم چیزوں کے ملنے سے فطری طور پر ایک نامعلوم چیز بن جاتی ہے،سو بن گئی اور اسے کبھی گجری کبھی ہندوی کبھی دکنی کبھی ریختہ کبھی اردوئے معلی کہاگیا پھر اخیر میں اردو کے نام پر اس طرح اتفاق ہوگیا کہ اب وہ مخلوط زبان صرف اردو ہے، اردو کا آغاز گرچہ مسلم سلاطین کی آمد سے ہواہے؛ لیکن یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ مسلم سلاطین اپنے ساتھ اردو زبان لے کر نہیں آئے تھے بلکہ ان کی زبانوں کے ساتھ جب یہاں کے باشندوں کی زبانوں کا اختلاط ہوا تو اردو کا وجود از خود ہوا جسے یہاں کے باشندوں نے مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر بسر و چشم قبول کیا اس اعتبار سے اردو کو خالص ہندوستانی زبان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے غالباً یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ اہل علم کے ذہن و دماغ میں رہی اور جس کی وجہ سے کبھی انہوں نے اردو کو مذہبی زبان نہیں سمجھا نتیجتاً مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر باشندگان ہند نے اردو کی آبیاری کی اگر دو، سوا دو صدیوں پر محیط اردو زبان کے منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ہزارہا نام سامنے آئیں گے جو اردو کے جانثاروں کی صف اول میں شامل رہے ہیں اور غیر مسلم ہیں۔ اگر ایسے ناموں کی صرف فہرست ہی تیار کی جائے تب بھی اس کے لیے ایک دفتر کی ضرورت پیش آئے گی،اردو زبان کا شاید ہی کوئی باشعور طالب علم ہو گا،جنہیں غالب اور اقبال کی طرح منشی دیا نارائین نگم، منشی نول کشور، دیاشنکر نسیم، پنڈت برج نارائن چکبست، منشی پریم چند، کرشن چندر،رام پرساد بسمل، مہاراجہ کشن چند، تلوک چند محروم،رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، گوپی چند نارنگ، راجندر سنگھ بیدی، جو گیند پال، ہرچرن چاولہ، سریندر پرکاش، راما نند ساگر، بلراج کومل، پنڈت برج نارائن، آنند موہن زتشی گلزار دہلوی، خار دہلوی، گوپی ناتھ امن، دیویندراسیر، امرتا پریتم، بلونت سنگھ، گیان چندر جین، کالی داس گپتا رضا، ٹھا کر پونجی، گلشن نندہ، گیان سنگھ شاطر، شرون کمار ورما، خوشتر گرامی،سحر عشق آبادی، ڈاکٹر اوم پرکاش زار علامی، بشیشور پرشاد منور، لال چندپرارتھی، بھگوان داس شعلہ، امر چند قیس جالندھری، ابوالفصاحت، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، عرش ملسیانی، رنبیر سنگھ، نوین چاولہ، فکر تونسوی، رام کرشن مضطر، کے نریندر، جگن ناتھ آزاد، ساحر ہوشیار پوری، رشی پٹیالوی، ستیہ نند شا کر، کرشنا کماری شبنم، ایس آر رتن، کاہن سنگھ جمال،سدرشن کوشل، نریش چندر ساتھی، پریم عالم، کامنا پرشاد، سنجیو صراف اور سریش چندر شوق جیسے ادبا،شعرا ومحبین اردو سے واقفیت نہیں رکھتا ہوگا،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے صرف کیں اور اردو زبان کو مالا مال کیا۔

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے (صدا انبالوی)

لوگ بھول جاتے ہیں کہ اردو زبان کا پہلا اخبارجام جہاں نما تھا جو 27/ مارچ 1822 کو کلکتے سے ایک غیر مسلم ہری ہردت نے جاری کیاتھا اردو کی ترویج و اشاعت میں بنیادی رول اداکرنے والا اہم ترین ادارہ فورٹ ولیم کالج کو بھی ایک غیر مسلم انگریز لارڈ ولزلی نے 10/جولائی 1800 میں قائم کیا تھا اردو کے لئے غیر مسلموں کی خدمات ایک نوشتہ دیوار ہے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے جب اردو کے اچھے دن چل رہے تھے تو اس وقت یہاں کی اکثریت بھی اردو ہی لکھتی، بولتی اور سمجھتی تھی اور اردو کا کارواں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی خدمات کے نتیجے میں ہی آگے بڑھ رہا تھا؛ لیکن اسی دوران سازشی عناصر نے اپناکام کرنا شروع کردیا تھااور جستہ جستہ معاملہ یہاں تک پہونچا کہ رسم الخط کے فرق نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستان کو دوزبانوں اردو برائے مسلم اور ہندی برائے ہندو میں تقسیم کردیا تھا جس کے نتیجے میں آزادی کے بعد سے لیکر آج تک اردو کو اس ملک میں وہ حق نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق تھی ہاں یہ بات سچ ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی رابطے کی زبان اردو ہی ہے،فلم انڈسٹری میں زیادہ تر الفاظ اردو کے استعمال ہوتے ہیں گانے اردو زبان کے ہی گائے جاتے ہیں، ڈائلاگ اردو میں ہی بولے جاتے ہیں، لیکن ان تمام چیزوں پر ہندی کا ٹھپہ لگا ہوا ہوتاہے جو محبان اردو کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ مجھے ہندی زبان سے کوئی دقت ہے،مجھ جیسے سینکڑوں لوگوں کو ہندی اور اردو دونوں سے محبت ہے؛ لیکن جو چیز جیسی ہے اسے اسی طرح پیش نہیں کرنا خیانت ہے، یہاں یہ بحث چھیڑنا مفید نہیں ہے کہ ہندی مستقل زبان ہے یا نہیں؛لیکن اردو کا مستقل زبان؛ بلکہ مستقل تہذیب ہونا طے ہے دلائل کی بنیاد پر شاید ہی کوئی اختلاف کرنے کی ہمت کرے؛ لیکن کیا کیاجائے کہ جب عصبیت میں انسان مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے بالکل واضح بات کوبھی ٹھکراناآسان ہوجاتا ہے، اردو زبان کے ساتھ بھی یہی ہوا اور یہی ہورہاہے؛جس کی وجہ سے یہاں کی اکثریت اردو جیسی میٹھی زبان سے محروم ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے جس پر اردو آبادی کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو جو اردو کی روٹیاں کھاتے ہیں غور کرنے کی ضرورت ہے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں بھی اُردو کے لیے بیداری پیدا کرنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے،اگر مرکزی حکومت نے مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے ذریعہ اردو کو مارنے کی کوشش کی ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ ان کے نزدیک اردو ایک مذہب کی زبان ہے؟ ان حالات میں پوری ذمہ داری اردو آبادی کو ادا کرنی ہوگی اور انہیں ایک طرف جہاں اردو پڑھنے لکھنے بولنے اور بوقت ضرورت اردو کے لیے جمہوری طریقے پر احتجاج کرنا ہوگا وہیں ذرائع ابلاغ سیمینار اور سمپوزیم کے ذریعے اردو کی درست تاریخ بتاکر غیر مسلموں میں اردو کے تئیں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنی ہوں گی۔
اللہ کا شکر ہے کہ امارت شرعیہ نے اردو زبان کے تحفظ کے لیے کچھ قابل قدر کوششیں کی ہے اورکررہی ہے دوسری تنظیموں، سماجی خدمت گاروں،چھوٹی بڑی تعلیم گاہوں اور سماج کے باثر افراد کو بھی اس سلسلے میں اپناکردار اداکرنا چاہیے ،مستقل کام کرتے رہنے سے اردو کے لئے فضا ان شاء اللہ ضرور سازگار ہوگی بقول حضرت داغ:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے معاون قاضی شریعت ہیں)

You may also like

Leave a Comment