Home تجزیہ کیا اردو اسکولوں کے اساتذہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ درست اردو استعمال کریں؟- حامد اقبال صدیقی

کیا اردو اسکولوں کے اساتذہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ درست اردو استعمال کریں؟- حامد اقبال صدیقی

by قندیل

میں نے چند روز قبل اردو لغت کے اینڈرائیڈ ایپ کا لِنک شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یو ٹیوب پر اردو میں تعلیمی ویڈیوز دیکھ کر جہاں مجھے خوشی ہوئی کہ اردو اسکولوں کے اساتذہ نے بہت محنت کی ہے وہیں اس بات کا شدید دکھ بھی ہوا کہ بیشتر ویڈیوز میں ہمارے اساتذہ کا تلفظ بہت غلط اور عامیانہ ہے، عام طور پر علاقائی بولی کے اثرات سنائی دیے۔ اس میں کوئی شک نہیں اور یہ بات قابلِ فخر ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مہاراشٹر بھر میں دیگر زبانوں کے اساتذہ کے مقابلے اردو کے اساتذہ نے آن لائن تدریس پر کافی محنت کی اور نت نئے طریقۂ کار اختیار کرکے آن لائن طریقۂ تدریس کو دلچسپ اور مفید بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس بات کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کل شب برِج کورس کے سائنس مضمون پر ایک وضاحتی ویڈیو دیکھ کر اِتنا دکھ ہوا کہ رات بھر نیند نہیں آئی، اردو زبان کا اتنا خراب تلفظ اور علاقائی لہجہ اردو کے طلبہ پر جانے کیا اثرات مرتب کرے گا؟ اس ویڈیو کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ بچوں تمھیں لکھنا ہونگا کہ تغذیہ کسے کہتے ہے، آئیے مشق کرتے ہے‘‘
لفظ ’’ہوگا‘‘ کی بجائے ’’ہونگا‘‘ تو خیر علاقائی بولی کے زیرِ اثر ہے اور تھوڑی سی مشق سے یہ عیب دور ہوسکتا ہے لیکن نون غنّہ پر اتنا ستم کیوں کیا جاتا ہے اس کا سبب مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ جمع کے صیغے میں ’’ہیں‘‘ کی بجائے ’’ہے‘‘ استعمال کرنا ایک عام مرض ہوگیا ہے، بے حِسی کا یہ عالم ہے کہ بارہا ٹوکنے کے باوجود بھی اردو زبان پڑھانے والے بعض اساتذہ دانستہ ’’ہیں‘‘ کی بجائے ’’ہے‘‘ استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
ہم میں سے بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ تخاطب کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ مثلاً بچّو، لوگو، دوستو وغیرہ کے آگے نون غنّہ نہیں لگتا البتہ جب ان الفاظ کو جمع کے طور پر استعمال کیا جائے تو نون غنّہ لگے گا جیسے بچّوں، لوگوں، دوستوں وغیرہ۔
ایک واقعہ یاد آگیا، شاید اس سے قبل بھی کسی مضمون میں لکھ چکا ہوں:
ممبئی کے بائیکلہ علاقے کے ایک بڑے کانوینٹ انگلش اسکول میں سائنس ٹیچر کی اسامی کے لئے ہونے والے انٹرویو میں میری ایک عزیزہ بھی شریک ہوئی جو نہ صرف انگلش میڈیم سے ایم ایس سی بی ایڈ تھی بلکہ کمپیوٹر اور ایسے ہی کچھ اضافی کورسیز بھی کرچکی تھی، اس کا انتخاب صرف اس لیے نہیں ہوا کہ اس کا انگلش کا تلفظ معیاری نہیں تھا اور ذخیرۂ الفاظ کی کمی بھی واضح تھی، انٹرویو کے دوران ہی ایک انٹرویوَر خاتون نے کھُل کر یہ بات کہہ دی تھی۔
میرے ایک واقف کار جو اردو اسکول میں سائنس پڑھاتے ہیں وہ دھڑلّے سے غلط اردو بولتے ہیں، ایک روز انھوں نے ایک سبق پڑھاتے ہوئے لفظ ’’تنو‘‘ استعمال کیا، میں چونکا، کتاب دیکھی تو پتہ چلا کہ وہ لفظ ’’تنوّع‘‘ تھا۔ میرے ٹوکنے پر ڈھٹائی سے بولے: میں سائنس کا ٹیچر ہوں، اردو لینگویج کا نہیں۔‘‘
عام طور پریہ سمجھا جاتا ہے کہ انگلش اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ معیاری انگلش بولتے ہیں، ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے، مراٹھی اسکولوں کے کسی ٹیچر کو آپ نے غلط مراٹھی بولتے نہیں سنا ہوگا۔ یہی بات ٹمل، تلگو، ملیالم، گجراتی اور بنگالی میڈیم اسکولوں کی بھی ہے۔ ان اسکولوں کے اساتذہ کم از کم اپنی مادری زبان تو صحیح بول ہی سکتے ہیں۔ تو کیا اردو اسکولوں کے سبھی اساتذہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ درست اردو استعمال کریں؟ کیا کلاس روم کی تدریس اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اساتذہ علاقائی بولی کا استعمال کریں؟ در حقیقت اردو اسکول کے اساتذہ چاہے کوئی بھی مضمون پڑھاتے ہوں، ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ درست اردو بولیں تاکہ طلبہ بھی صحیح اردو سیکھ سکیں۔
چند باتیں اور:
یہ اعتراض بہت پرانا ہوگیا بلکہ اپنی اہمیت بھی کھوچکا کہ اردو اسکولوں کے اساتذہ کے بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں، انتہائی شرمناک بات ہے کہ اردو اسکولوں کو معیار عطا کرنے کے ذمّے دار اساتذہ ہی یہ کہتے ہیں کہ اردو اسکولوں کا کوئی معیار نہیں ہے۔ یہ اعتراض بھی اب پرانا ہوگیا کہ اردو اسکولوں کے بیشتر اساتذہ اردو اخبار خرید کر نہیں پڑھتے۔ میں ایسے اساتذہ کو ’’بخیل‘‘ سمجھ کر معاف کردیتا ہوں کیوںکہ مہینے میں دو ڈھائی سو روپے تو خیرات اور صدقات سمجھ کر ہی خرچ کردیے جاتے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ بخیل بے شرم بھی ہوتا ہے، ایسے افراد نہایت بے شرمی سے اردو اخبار نہ خریدنے کی وہی گھسی پِٹی وجوہ بیان کردیتے ہیں۔
اردو اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے جن امور پر توجہ دینی چاہیے ان میں ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اسکول کے احاطے میں معیاری زبان استعمال کی جائے، معیاری زبان کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ اردو کے اخبارات، رسائل اور کتابوں کا پابندی سے مطالعہ کریں، کبھی کبھی وقت نکال کر اردو کی علمی اور ادبی تقریبات میں بھی شرکت کریں۔ بہت سے اسکولوں کی لائبریری میں اردو لغت دھول چاٹ رہی ہے ، اساتذہ ہفتے میں کم از کم ایک بار تو اس کا دیدار کرلیا کریں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like