مصنف: عبد الباری القاسمی
اشاعتِ اول : 2024
صفحات : 224
قیمت : 300 روپے
مطبع : مرکزی پبلی کیشنز ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
زیرِ تبصرہ کتاب ’’اردو تنقید: نقوش و نشانات‘‘ ڈاکٹر عبد الباری قاسمی کے زور قلم کا تیسرا تخلیقی و تحقیقی مظہر ہے ۔اس سے قبل ’’تفہیم و تعبیر (تنقیدی مضامین) ‘‘ اور ’’ذکرِ سعید (سرگزشت مولانا سعید احمد اکبر آبادی )‘‘ نامی کتابیں منصۂ شہود پر نمودار ہو چکی ہیں ۔اس کتاب میں بنیادی طور پر اردو تنقید کے ابتدائی نقوش اور اس کے ماخذ کو بالاستیعاب موضوع بحث بنایا گیا ہے جبکہ مغربی، عربی و فارسی اور سنسکرت تنقید کا تعارف ضمناً پیش کیا گیا ہ۔ کتاب شمیم طارق کے تمہیدی کلمات، ابوبکر عباد کے تنقیدی شناخت نامہ، حقانی القاسمی کے مقدمہ، مصنف کی تعارفی گفتگو اور حسب ذیل چار بنیادی ابواب تنقید کی تعریف و آغاز، عربی نقد و انتقاد کا جائزہ، فارسی تنقید کی روایت اور اردو تنقید کے عربی و فارسی ماخذ پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے پہلے باب میں تنقید کی تعریف اور آغاز و ارتقاء کے ضمن میں مغربی تنقید کے اولین و نمایاں نقوش، مشرق کی مختلف تنقیدی روایت مثلاً چینی، جاپانی، سنسکرت اور اردو تنقید کا جائزہ پیش کیا ہے۔ دوسرا بات عربی نقد و انتقاد کے متنوع ادوار جیسے زمانہ جاہلیت، اسلامی، اموی اور عباسی دور اصول نقد اور ناقدین کے تنقیدی نظریات پر مشتمل ہے۔ فارسی زبان و ادب کی تنقیدی روایت اور اس کے ابتدائی اور نمایاں نقوش کو تیسرے باب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ آخری باب اردو تنقید کے عربی و فارسی مآخذ اور مصادر کی تفصیلی بحث پر مشتمل ہے۔
کتاب عبد الباری قاسمی کی ایک جامع اور تحقیقی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اردو تنقید کے تمام اہم پہلوؤں کو یکجا کر دیا ہے۔ اس کتاب میں اردو تنقید کے آغاز و ارتقا اور مختلف تنقیدی مصادر اور مآخذ سے استفادہ اور ان کے اردو ادب پر اثرات کو ایک مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے اردو تنقید کو مختلف زبان و ادب کی تنقیدی روایت کے پس منظر میں واضح کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔
کتاب کے ابتدائی حصوں میں تنقید کی ابتدا اور ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں تنقید کی مشرقی و مغربی روایت نقد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مغربی اور مشرقی تنقید کے مباحث کے ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مغربی دنیا میں تنقید کس طرح مختلف نشیب و فراز سے گزری۔ اس کے ابتدائی نقوش اور اس کی اہم خصوصیات کیا تھے۔ مصنف نے مغربی تنقید کے ابتدائی و واضح نقوش اور ان کے اثرات کو سمجھنے کے بعد مشرقی تنقید کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس میں چینی، جاپانی اور سنسکرت کی تنقید کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو اردو تنقید کی بنیادوں کو سمجھنے میں مددگار ہے۔
کتاب میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اردو تنقید اور ناقدین نے تنقیدی اصول اور معیار وضع کرنے میں عربی اور فارسی اصول نقد سے بڑی حد تک استفادہ کیا ہے اور اپنے تذکروں میں ان حوالوں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ کتاب میں اردو تنقید کی ابتدا کے حوالے سے مذکور عربی اور فارسی کے اصول نقد اور مصادر و مآخذ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردو تنقید کے اکثر اصول و نظریات ان دونوں زبانوں کے تنقیدی روایتوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
کتاب میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے تذکرہ نگاری کی ابتدا اور اس کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے مختلف اردو تذکروں کا ذکر کیا ہے اور ان میں تنقید کے عناصر کو اجاگر کیا ہے جن سے اردو تنقید کے آغاز و ارتقا اور اس کے اصولوں کے بنیادی مصادر کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
کتاب میں اردو تنقید کے مشہور ناقدین اور ان کے نظریات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ان ناقدین میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، امداد امام اثر، مولوی عبد الرحمن، وحید الدین سلیم، اور مولوی عبدالحق جیسے اہم نام شامل ہیں جنہوں نے اردو ادب میں تنقیدی روایت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ حصہ نہ صرف ان ناقدین کے نظریات کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ان کے دور کی ادبی اور ثقافتی صورتحال کو بھی اجاگر کرتا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان ناقدین کی تنقید کس طرح اپنے زمانے کی فکری فضا سے متاثر ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں مصنف نے ان ناقدین کے نظریات کی تفہیم و تعبیر اور ان کے متعلق مختلف ارباب نقد کی رائے کے تجزیہ کے بعد اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔ چنانچہ مصنف محمد حسین آزاد کے متعلق کلیم الدین کی رائے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’آزاد سے کچھ تسامح ضرور ہوا ہے اور حالی کی طرح مرتب اور مبسوط بحث آزاد نے نہیں کی ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محمد حسین آزاد نے اردو تنقید کو تذکروں سے کافی آگے پہنچایا اور ان کے بکھرے ہوئے تنقیدی نظریات ہی مقدمہ شعر و شاعری کی شکل میں باضابطہ پہلی تنقیدی کتاب کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔ ‘‘ اسی طرح مصنف نے حالی، شبلی اور امداد امام اثر وغیرہ کے تنقیدی نظریات پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
کتاب کا ایک اہم حصہ عربی اور فارسی تنقید کی تاریخ پر مشتمل ہے جس میں مصنف نے عربی تنقید کے مختلف ادوار، ان کی روایات، اصول نقد اور ناقدین پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اسلامی، اموی اور عباسی دور کی تنقیدی روایت اور ناقدین کے نظریات کو تجزیاتی سیاق و سباق میں ذکر کیا ہے ۔ مصنف نے فارسی تنقید کے ابتدائی نقوش، اس کی ارتقائی منازل اور فارسی شعرا کے تذکروں کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ یہ حصہ اردو تنقید پر عربی و فارسی تنقید کے اثرات کو سمجھنے میں بہت اہم ہے۔
مصنف نے کتاب کے اختتامی صفحات میں اردو تنقید کے عربی و فارسی مصادر کے ضمن میں محمد حسین آزاد، حالی، شبلی امداد امام اثر، مولوی عبد الرحمن، وحید الدین سلیم، عبد السلام ندوی اور مسعود حسن رضوی ادیب وغیرہ کے تنقیدی مصادر اور مراجع کا اجمالی پیش کیا ہے۔ اس حصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح اردو ناقدین نے تنقید کی مختلف روایات مثلاً عربی، فارسی اور مغربی سے کسب فیض کیا ہے اور ان کی روشنی میں اپنے نظریات کو منور کیا ہے ۔
کتاب کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ یہ اردو تنقید کے جملہ شعبوں کو جامع اور تنقیدی نقطہ نظر سے پیش کرتی ہے۔ اس میں مختلف زبانوں میں تنقید کی ابتدا و ارتقا، اصول نقد، ناقدین کے نظریات اور مختلف تنقیدی روایات کو ایک مربوط اور مبسوط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کی تنقیدی نظر کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اردو تنقید کا ارتقا محض اردو ادب تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں دیگر زبانوں جیسے عربی، فارسی اور مغربی ادب کے اثرات کا گہرا عمل دخل رہا ہے۔ انہوں نے ان زبانوں کی تنقیدی روایات کو اردو ادب میں منتقل ہونے کے عمل کو بخوبی اجاگر کیا ہے اور اردو تنقید کے ابتدائی نقوش کو عربی، فارسی اور سنسکرت کی تنقید سے جوڑا گیا ہے جس سے اردو تنقید کی بنیادی مباحث اور اس کے مختلف ابعاد واضح ہوتے ہیں۔
یہ کتاب اردو ادب کے طلبہ، ریسرچ اسکالرز اور ناقدین کے لیے کسی آب حیات سے کم نہیں ہے۔ مصنف نے اپنی عرق ریزی اور فکر رسا سے تنقید کے مختلف پہلوؤں کو نہ صرف سپرد قلم کیا ہے بلکہ ان کی تہہ میں جا کر تنقیدی ابعاد، تاریخی تناظر اور فنی انسلاکات کو بھی واضح کیا ہے۔