مصنف : ڈاکٹر عبد الباری قاسمی
سن اشاعت: 2024
قیمت: 300
صفحات: 224
ناشر : مرکزی پبلیکیشنز، نئی دہلی
دورحاضر میں اردو زبان وادب کے ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکاروں کی فہرست میں ایک نام ڈاکٹر عبدالباری قاسمی کا بھی آتا ہے جو اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں بڑے بھائی جناب ڈاکٹر عبدالباری سے میرا تعلق ایک لمبے عرصے سے ہے ابھی حالیہ دنوں میں جب دہلی جانا ہوا تو انھوں نے قومی اردو کونسل آنے کی دعوت دی. جب وقت نکال کر وہاں گیا تو تھوڑی گفت و شنید کے بعد انھوں نے اپنی تیسری کتاب اردو تنقید نقوش ونشات ہدیۃً پیش کیا-ڈاکٹر عبدالباری قاسمی نے اپنی ابتدائی تعلیم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد سے حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں سے انھوں نے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی گریجویشن، اور ڈپلومہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد )سے کی ایڈوانسڈ ڈپلومہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی سے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے لیکر قومی اردو کونسل میں اسسٹنٹ اڈیٹر کی حیثیت سے باعزت اپنی جگہ بناکر اردو دنیا میں ایک مثال قائم کیا ہے-اعزازات کی اگر بات کی جائے تو انھیں خواجہ احمد فاروقی گولڈ میڈل اور مرزا غالب ایوارڈ (دہلی یونیورسٹی ) سےکالج کلر اور ٹاپر ایوارڈ (ذاکر حسین دہلی کالج ) ٹاپر ایوارڈ برائے ایم اے، ایم فل (دہلی اردو اکادمی)اے پی جے عبدالکلام ایوارڈ (الہند تعلیم جدید فاؤنڈیشن نئی دہلی) جیسے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے – زیر نظر کتاب "اردو تنقید نقوش ونشات ڈاکٹر عبدالباری قاسمی کی تیسری تصنیف ہے، پہلی کتاب” تفہیم و تعبیر، "دوسری” ذکرسعید” جو پروفیسر مولانا سیعد احمد اکبرآبادی کی حالات زندگی، علمی و ادبی خدمات پر مشتمل ہے – عبدالباری قاسمی کی پہلی کتاب” تفہیم و تعبیر” پر آج سے تقریباً چار سال پہلےتبصرہ لکھنے کا موقع ملا تھا – آج پھر جب ان کی تیسری کتاب "اردو تنقید نقوش ونشات ” ہاتھ میں آئی تو ایک نئی کتاب کو حرفاً حرفاً پڑھ کر دل خوش ہوا اور سوچا کہ اپنے غیر مربوط الفاظ میں کچھ قلم بند کروں ویسے اس کتاب کی خوبصورتی میں” مقدمہ” ( مشہور و معروف ادیب، نقاد، صحافی حقانی القاسمی ) ” تنقید کا (مکمل ) شناخت نامہ ” (پروفیسر ابوبکر عباد صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی) "تنقید کی تاریخ، تنوع اور عبدالباری قاسمی کا مطالعہ” (مشہور نقاد و محقق شمیم طارق ) نے مزید اضافہ کردیا ہے – تنقید اور تنقیدی دبستانوں سے متعلق بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں اور مختلف ادوار میں بے شمار ادیبوں اور نقادوں نے تنقید کے فن اور آغاز و ارتقاء پر کام کیا ہے لیکن مشکل پسندی کی وجہ سے ادب کے طالب علم اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور پھر تنقید کے تعلق سے دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے جس کو سمجھنے کے لیے اسی سلسلے کی ایک کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالباری قاسمی نے سہل اور آسان زبان میں تنقید کے مختلف دبستانوں پر روشنی ڈالی ہے جو تنقید کو سمجھنے اور پڑھنے والے ہر طالب علم کیلئے بہت حد تک دوسری کتابوں سے منفرد، ممتاز، اور بے حد مفید ہے – مصنف نے اپنی تازہ ترین تصنیف اردو تنقید نقوش ونشات کا سلسلہ اردو تنقید کی روایت (آغاز و ارتقاء ) سے لیکر مغربی اور مشرقی تنقید پر روشنی ڈالتے ہوئے مغرب میں تنقید کے اولین نقوش اور واضح نقوش کا عنوان باندھتے ہوئے اپنی کتاب کی شروعات کی ہے اور مختلف روایات کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے چاہے وہ مشرقی تنقید ہو یا مغربی تنقید – مشرقی تنقید کو اہم باب مانتے ہوئے اس کے تحت چینی زبان میں تنقید، جاپانی زبان میں تنقید، اور سنسکرت زبان میں تنقید کو بیان کیا ہے. اردو دنیا میں تنقیدی تصورات کے تین اہم گہوارے ہیں (1) چین (2) ہندوستان (3) مغربی ایشیا. چینی زبان میں تنقید پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چینی دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے. چینی ادب میں سب سے پہلی تنقیدی کتاب ” ون ہین ٹی آولنگ” جو چھٹی صدی عیسوی میں لکھی گئی. اسی طریقے سے جاپانی زبان میں تنقید کے تصورات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس زبان میں مناظر فطرت اور قدرت کے حسین مناظر کی بہت اہمیت ہے.اور پھر سنسکرت زبان میں تنقید کے اہم نکات کو اجاگر کرتے ہوئے بھرت منی کی معرکۃالآرا کتاب” ناٹیہ شاستر” میں رس کے نظریے کو اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے – مصنف نے اردو تنقید کی مشرقی روایت میں اردو تنقید کے ابتدائی نقوش سے لیکر بیسویں صدی کے اوائل تک تنقید کا جو سارا دارومدار مشرقی شعریات پر رہا ہے اس میں چاہے شاعری ہو یا یا تذکرے، خطوط ہو یا مقدمے، ان سبھی میں جو تنقید کے نقوش ملتے ہیں اور اردو تنقید کے جو نمونے اردو شعراء کے کلام میں ملتے ہیں ان میں اردو کے بڑے شعراء ملا اسداللہ وجہی، ابن نشاطی، غواصی، ہاشمی سے لیکر علامہ اقبال اور حسرت کے کلام تک جو تنقید کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ان سب کو مثال کے ساتھ مفصل طور پر بیان کر کے اردو شعراء کے کلام پر معائب و محاسن کی نشان دہی کی ہےتذکرہ نگاری کے متعلق اگر بات کی جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تذکرہ نگاری کے آغاز وارتقاء سے لیکر تذکرہ نگاری کی روایت، فارسی میں تحریر کردہ تذکرے میر تقی میر کا "نکات الشعراء” ، فتح علی گردیزی کا تذکرہ "ریختہ گویاں”، قائم چاند پوری کا "مخزن نکات” یا پھر اردو میں تحریر کردہ پہلا تذکرہ” گلشن ہند”، اس کے بعد "طبقات شعرائے ہند”، "گلستان بے خزاں”، "گلستان سخن”، "سخن الشعراء”، اس کے علاوہ اور بھی تذکرے ہیں جن کا ذکر مصنف نے واضح طور پر کیا اور اس کے متعلق اپنی تنقیدی نظریات و تصورات کو پیش کیا ہے، اسی طریقے سے ناقدین کے نظریات ِ نقد کو ایک سہل اور آسان زبان میں پرکشش اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، خواہ وہ محمد حسین آزاد کے تنقیدی نظریات ہو، یا الطاف حسین حالی کے تنقیدی نظریات، یا پھر علامہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات–اردو تنقید کی دنیا میں بے شمار ناقدین گزرے ہیں لیکن ان میں کچھ نام ایسے ہیں جسے پڑھے اور سمجھے بغیر اردو تنقید کو پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہے. جیسے محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، یہ تین نام ایسے ہیں جسے سمجھنا اور پڑھنا تحقیق و تنقید کی دنیا میں نہایت ضروری ہے، ان کے بغیر تنقید سمجھنا ادھورا ہے – اردو تنقید کا دائرہ کافی وسیع ہے، ایسی صورت حال میں اردو تنقید کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لینا آسان نہیں ہے لیکن پھر بھی ڈاکٹر عبد الباری قاسمی نے اردو تنقید کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، چینی، جاپانی، اور سنسکرت زبان میں تنقید کے مفہوم معانی ماہیت نظریات، اور تنقید کے ابتدائی نقوش (یعنی زمانۂ جاہلیت میں تنقید کی روایت اور طریقۂ کار ) سے لیکر بیسویں صدی کے ناقدین اور محققین کا اجمالی جائزہ لے کر بہت ہی اعتدال اور جامعیت کے ساتھ سادہ اور سلیس زبان میں قلم اٹھا یا ہے-یقیناً یہ کتاب "اردو تنقید نقوش ونشات” ادب کے طالب علم اور خاص طور سے ان طلبہ کے لیے بے حد مفید ہے جو تنقید سے دلچسپی رکھتے ہیں -مجھے امید ہے کہ یہ کتاب علمی ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی،جو حضرات کتاب حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ براہ راست مصنف کے اس نمبر 3432 987152پر رابطہ کرسکتے ہیں –