اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے
کامران غنی صبا
گزشتہ 6 جنوری 2020 ء کو محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی جانب سے ہوم سکریٹری جناب عامر سبحانی کے دستخط کے ساتھ بہار کے تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، جس میں بہت ہی زور دے کر تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں/ شائع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ چونکہ یہ ہدایت نامہ حکومتی فرمان ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بہار کے سبھی اضلاع کے تمام سرکاری دفاتر میں اردو کو اس کا جائز مقام مل ہی جائے گا۔ اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے عوامی بیداری انتہائی ضروری ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ سرکاری احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمارے اعلیٰ افسران کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رینگتی لیکن جب ان پر عوامی دباؤ بنتا ہے تو انہیں جھکنا پڑتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ستمبر 2019ء میں دیکھنے کو مل چکی ہے جب پٹنہ جنکشن کی جدید کاری کے دوران نیم پلیٹ سے اردو کو ہٹا دیا گیا تھا؛لیکن سوشل میڈیا پر جب بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہوئی اور سوال اٹھائے جانے لگے تو راتوں رات پٹنہ جنکشن پر اردو دوبارہ سے چمکتی ہوئی نظر آنے لگی۔ ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم آواز اٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں، جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہو۔ بہار اردو اکادمی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ تقریباً دو سال سے اکادمی خدا بھروسے چل رہی ہے۔سمینار، مشاعرے، کتابوں کی اشاعت، انعامات، بیمار شعرا و ادبا کی معاونت ساری سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ جس وقت اکادمی میں باضابطہ سکریٹری تھے، اکادمی فعال تھی۔ تب سب کی نظر اکادمی پر ٹکی تھی۔ سکریٹری کے کاموں میں کیڑے نکالے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر محاذ جنگ قائم تھا۔ ادب کے نام پر بدتہذیبی کا بازار گرم تھا۔ معاملہ کورٹ اور کچہری تک پہنچ چکا تھا۔ آج وہ سب لوگ جو اُس وقت فعال و متحرک نظر آ رہے تھے، چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اکادمی کے ساتھ ساتھ ان سب کی روحیں بھی پرواز کر چکی ہوں۔ اردو مشاورتی کمیٹی کا بھی یہی حال ہے۔
بات تھوڑی تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں تربیت کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاست دانوں کی خوشامد اور چاپلوسی کرنا، سمینار اور مشاعروں میں شامل ہونے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی مضبوط تنظیم ہے اور نہ کوئی ایسی مضبوط آواز جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ برسوں کا مشاہدہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح دوسرے شعبہ جات میں نوجوان بڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اُسی طرح اردو تحریک بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لیں۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بند کمروں میں چار آدمی کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں کر لینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ ہمارے پاس زمینی سطح پر کرنے کے لیے بے شمار کام ہیں۔ بہار میں اردو کے کتنے اساتذہ ہیں؟ اردو کی کتنی نشستیں خالی ہیں؟ اردو میڈیم کی کتابیں کیوں شائع نہیں ہو رہی ہیں؟ امتحانات میں سوالنامے اردو میں کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں؟ دوسرے موضوعات کے اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، اردو کے اساتذہ کی تربیت کیوں نہیں ہوتی؟انٹرمیڈیٹ کا نصاب ابھی تک اردو میں کیوں شائع نہیں کیا گیا ہے؟ نصابی کتابوں میں موجود اغلاط کی اصلاح کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ان جیسے بے شمار مسائل ہیں،جن پر سنجیدگی سے توجہ دی ہی نہیں جاتی۔ کیوں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریلوے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور ہوٹلوں کی عیاشی میسر نہیں ہوتی، اسٹیج نہیں ملتا۔
سرکاری دفاتر میں اردو کے نفاذ کے تعلق سے حکومت کی پہل قابلِ تعریف ہے؛ لیکن یہ اسی وقت مؤثر ہوگی جب ہر ضلع اور ہر بلاک کی اردو آبادی خاص طور پر نوجوان طبقہ بے لوث جذبے کے ساتھ اردو کی خدمت کے لیے آگے آئے۔ جہاں کہیں ان احکامات کی خلاف ورزی ہوتی نظر آئے، تو کابینہ سکریٹریٹ سے جاری مذکورہ مکتوب کی کاپی لے کر متعلقہ دفتر کے افسران سے رابطہ قائم کیا جائے۔ اس کے باوجود اگر اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا نظر آئے، تو میڈیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ جس سرکاری دفتر میں اردو کے ساتھ ناانصافی ہوتی نظر آئے، وہاں کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کی جائے۔ ٹوئٹر پر وزیر اعلیٰ اور سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو یہ تصویریں اور ویڈیوز ٹیگ کیے جائیں۔ جس دن نوجوانوں نے اردوتحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا، اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔
آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر مذہبی اور سیاسی ٹھکیداروں کو حاشیے پر پھینک دیا ہے، اُسی طرح اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے، ورنہ اردو کے نام نہاد ٹھکیدار اردو کے نام پر اپنی دکانوں کو چمکاتے رہیں گے اور اردو اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتی رہے گی۔