پروفیسر مولا بخش اسیرؔ کو خدا غریق رحمت کرے۔ وہ ہمارے بے غرض اور بے ضرر دوستوں میں تھے۔ مرحوم اُردو کے معروف ناقد و محقق تھے۔ لیکن اسی کے ساتھ ان کی پہچان ایک مترنم شاعر کی بھی تھی۔ بہار (کیسریا) کے ایک کُل ہند مشاعرے میں انھوں نے اس قدر عمدہ ترنم میں لہک لہک کر اپنا کلام پیش کیا کہ وہاں موجود تمام پیشہ ورمترنم شعراء و شاعرات دم بخود رہ گئے۔ جب وہ پڑھ کر بیٹھے تو مرحوم حامد بہرائچی جو کہ اس وقت اپنی خوش گلوئی کے لیے ملک بھر میں کافی مقبول تھے، انھوں نے اعلان کیا کہ اب اس کے بعد میں اپنا کلام تحت میں ہی پیش کروں گا۔
مشاعرے کے بعد جب میں نے اسیرؔ صاحب مرحوم کی تعریف کی تو انھوں نے فرمایا کہ:
’’میں جن دنوں روزگار کی حصولیابی کے لیے تگ و دو کر رہاتھا، ان دنوں میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اگر یونیورسٹی میں ملازمت نہیں ملی تو میں مشاعرے ہی کو اپنا کیریئر بناؤںگا اور ایک ماہ میں اتنا کماؤںگا جتنا کہ ایک پروفیسر ایک سال میں بھی نہیں کماتا‘‘۔
اس واقعے کو یہاں پیش کرنے کا منشا یہ ہے کہ آج ملک اور بیرونِ ملک میں جتنے مشاعرے برپا ہوتے ہیں، اتنے شاید دینی اور اصلاحی جلسے بھی نہیں ہوتے ہوںگے۔ سامعین خواہ، وہ کسی بھی کمیونٹی کے کیوں نہ ہوں، تیزی کے ساتھ اُردو مشاعروں کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ لوگوں کا ذوق بدلا ہے۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں عوامی تفریح کے لیے کئی ذرائع تھے۔ قوالی تھی، آرکسٹرا تھا، ناچ تھا، نوٹنگی تھی۔ لیکن آج تمام چیزیں ایک ہی اسٹیج پر بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ اور یہاں ہر عمر اور ہر مزاج کے لوگ بہ آسانی حظ حاصل کرسکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جہاں عوام کی بھیڑ جائے گی وہاں پیسے کی بھی فراوانی ہوگی۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ آج ہمارے پاپولر مشاعرے شعراء اور بالخصوص شاعرات کو روزگار مہیا کرانے میں حددرجہ سَک چھَم ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ شعراء اور شاعرات کو اپنی ظاہری آرائش و زیبائش پر ترجیحی توجہ دینی ہوگی۔ نیز ایسے اشعار کا انتخاب یا جگاڑ کرنا ہوگا جو نہ صرف بزرگوں کی روحوں کو تڑپادیں بلکہ وہ نوجوانوں کے دلوں کو بھی گرمادیں۔ اس ضمن میں کلام نہیں، کلام کی پیشکش کا انداز اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے خاص مشق اور ریاض کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں ایک بات بار بار تجربے میں آئی ہے کہ بعض نام نہاد بڑے اور معیاری شعراء اس قبیل کے شعراء اور شاعرات کو مشاعروں کی پاکیزہ روایت کو آلودہ کرنے کا مجرم گردانتے ہیں۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ عوامی سروکار کی شاعری سے دور ہوتے ہیں، وہ اس زبان کو قصداً نظر انداز کرتے ہیں، جو عوام سمجھتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے مدمغ اور سقہ شعرائے کرام اس قدر مدقوق اور مخدوش انداز میں اپنا کلام پڑھتے ہیںکہ سامعین کی طبیعت مکدّر ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ مشاعرے میں شاعری پیش کرنا ایک طرح کا پرفارمنگ آرٹ ہوتا ہے، اس لیے اسی انداز میں عوامی اسٹیج پر آنا چاہیے ورنہ بصورت دیگر اپنے گھر میں ہی رہنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔
آج اسی پرفارمنگ آرٹ کے سبب دنیا بھر کے سینکڑوں شعراء و شاعرات (متشاعر اور متشاعرات بھی) دونوں ہاتھوں سے پیسے بٹور رہے ہیں۔ انھیں کسی سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کی قطعی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ کچھ شعراء تو ایسے بھی ہیں جو سرکاری نوکریوں کو چھوڑ کر مشاعرے کو اپنا کاروبار بناچکے ہیں اور آج وہ اس قدر مصروف ہیں کہ اپنے گھر شاید ہی کبھی کبھی جاتے ہیں۔ ان کی بیویاں پیسے کی مسلسل آمد کے سبب کچھ سہہ لیتی ہیں۔ لیکن شاعرات کے ساتھ معاملہ الگ ہے۔ کچھ شاعرات بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے اکثر راتیں اسٹیج پر گزارتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے شوہر اور بچے بُری طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور معاملہ قطع تعلق تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ میری دانست میں یہ صورتحال بہت ہی تشویشناک ہے، اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
مختصر یہ کہ آج زمانہ بہت خراب ہے۔ ہر آدمی روزی روٹی کی فکر میں غلطاں و پیچاںہے۔ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر پڑھے لکھے لوگوں کا ایک ہجوم سڑکوں پر بھٹک رہا ہے۔ مہنگائی آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں تک کہ جوسرکاری ملازمین ہیں، ان کی تنخواہیں بھی گھر کی ضرورتوں کا بار نہیں اٹھا پارہی ہیں۔ ایسے میں اگر ہمارے اُردو مشاعرے بہترین آمدنی والا روزگار مہیا کرانے کا ذریعہ بن رہے ہیں، تو ان سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہوسکتا ہے کہ اسٹیجی شعراء پر طعن و تشنیع اور دشنام کے پتھر پھینکے جائیں، لیکن ثابت قدمی ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی عرض کردینا ضروری ہے کہ فحش اور سوقیانہ شاعری سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ کیونکہ محض شعروں کے انتخاب سے آدمی رسوا ہوسکتا ہے تو شعر کہنے پر کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مشاعروں کی تہذیبی روایت کو ہر حال میں بچاکر رکھنا سب کا اوّلین فریضہ ہے۔ اس لیے ایسے کلام ہی مشاعروں میں پیش کرنا چاہیے جن سے اپنی خدمت بھی ہوسکے اور ادب کی بھی!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)