انسانی نفسیات یہ ہے کہ وہ خود پر اور اپنے سے جڑی چیزوں پر تنقید گوارا نہیں کرتا اور مولانا نور عالم خلیل الامینی ؒ کے بقول "آدمی کو اپنے گوٗ (بیت الخلا) کی بدبو محسوس نہیں ہوتی”۔
اردو شروحات نے جس طرح علم اور علماء کا بیڑا غرق کیا ہے، اس سے کون ناواقف ہے؟ لیکن چوں کہ اسے دیوبند میں فروغ ملا ہےاور دیوبند اس حوالے سےخاصہ بدنام ہوچکا ہے، اس لیے اگر ہم نے اردو شروحات کو "شراب طہور” اور” وقت کی سب سے بڑی ضرورت” ثابت نہ کیا اور دیوبند کو اس بدنامی سے نہ بچایا تو بھلا ہم "دیوبندی” کس کام کے؟
کسی چیز میں جب آپ بدنام ہوجائیں تو بدنامی ختم کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ جس کام کے لیے آپ بدنام ہوے ہیں، اسے چھوڑ کر دوسرا کام شروع کردیں اور دوسرا یہ کہ اس کی ڈیفینیشن ہی بدل دیں۔ مثلا: ایک شخص کے گدھے کا کاروبار تھا، اس لیے "گدھے والا” اس کے نام کا لاحقہ بن گیا، بعد میں انھوں نے کاروبار چھوڑ تو دیا؛ لیکن اس لاحقے نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔وہ اس نام سے اب چڑنے لگے تھے، پھر انھوں نے کسی بزرگ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوے، جیب میں الائچی رکھنا شروع کردیا، چلتے پھرتے، ہر ملنے جلنے والے کو ایک الائچی پیش کردیتے۔ تھوڑے عرصے بعد اب ان کی شناخت الائچی بن چکی تھی اور وہ "الائچی والے” سے پہچانے جانے لگے۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس کی تاویلیں کرتا ہے، جسٹیفیکیشن دیتا ہے اور اس کے فوائد شمار کراتا ہے۔
کیا شروحات لکھنا غلط ہے؟ شروحات کا سرے سے کوئی مخالف نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی شرح رسول اللہ ﷺ نے کی ہے، احادیث کی شروحات ابن حجر، ابن رجب، عینی، ملاعلی قاری، علامہ انور شاہ کشمیری، شیخ زکریا رحمہم اللہ جیسے علماء نے کی ہے۔ پہلے منزل اور پروسیس کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ "قرآن وحدیث اور فقہ ” ہماری منزل ہے۔ اسی منزل کے حصول کے لیے درجات ابتدائی سے درجات علیا تک کی محنت کرائی جاتی ہے، یعنی نحومیر، ہدایۃ النحو، پنج گنج، مرقات، شرح تہذیب وغیرہ کتابیں منزل نہیں پروسیس ہیں۔ منزل میں آسانی مطلوب ہے، پروسیس میں نہیں۔ یعنی قرآن وحدیث اور مراجع فقہ کی تسہیل وتفہیم کے لیے شروحات کی ضروت ہے۔ اس کا مقصد اپنے علم وفہم کو آئندہ نسل تک منتقل کرنا بھی ہوتا ہے؛ لیکن پروسیس کی تسہیل مطلوب ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی شرح کی ضرورت ہے۔
اس کو ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں:اگر آپ "درس نظامی”یا دیوبند کے نصاب کا جائزہ لیں تو اس فن کی سب سے مشکل کتاب داخل نصاب ہے۔ مثلا اردو وعربی کی دسیوں تفاسیر موجود ہیں؛ لیکن ان میں مختصر اور مشکل ترین تفسیر جلالین کا انتخاب کیا گیا۔ نحو اور منطق کی آسان ترین کتابیں دستیاب ہیں؛ لیکن کافیہ اور سلم جیسی گنجلک اور پیچیدہ کتابیں داخل درس ہیں۔ یہی حال ہر درجے میں اور تقریبا ہر کتاب کا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ جان بوجھ کر پروسیس کو مشکل بنایا گیا ہے، نصاب وضع کرنے والے جانتے تھے کہ پروسیس جتنا مشکل ہوگا، منزل اتنی ہی آسان ہوگی، یعنی جو شخص دماغ سوزی کرکے جلالین کو سمجھ لے گا، اس کے لیے تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر کشاف اور دیگر تمام تفاسیر آسان ہوں گے۔ جو شخص سلم اور کافیہ کے اُدھیڑ بن سے واقف ہوجائے گا نحو اور منطق کی دیگر کسی بھی کتاب سے بآسانی استفادہ کرسکے گا۔یعنی نصاب کے تخلیق کاروں کا مقصد کوئی مخصوص کتاب پڑھانا یا محض اس فن کو سمجھانا نہیں تھا؛ بلکہ طلبہ کے فہم کو ڈیولپ کرنا تھا ورنہ اس فن کو سمجھنے کے لیے اتنی مشکل کتابیں وضع نہیں کی جاتیں۔ اگر محض اس فن کو سمجھنا مقصود ہوتا تو یہ مقصد تو اردو میں زیادہ حاصل ہے، پھر ان مشکل کتابوں کو پڑھانے کے بجائے اس فن کی اردو کتابیں ہی کیوں نہ پڑھا دی جائیں۔
ان سب کے باوجود ایک آدھ شرح کا ہونا عیب کی بات نہیں؛ بالخصوص جب وہ مروجہ شرح کے انداز میں نہ ہو؛ بلکہ مقصود محض تفہیم عبارت ہو، جیسے حضرت قاری صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شروحات التسہیل السامی اور التسہیل الترتیب، جو بعض مشکل عبارتوں کے حل پر مشتمل ہو اور طلبہ سے زیادہ اساتذہ کے لیے مفید ہو؛ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں شروحات کا ایسا بازار گرم ہوا کہ ایک ایک کتاب کے دو دو درجن شروحات لکھے جا چکے ہیں اور سلسلہ جاری ہے، جس استاذ سے جو کتاب متعلق ہو اور ایک دوسال پڑھالے وہ اس کی شرح لکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ شاید اس کے بغیر انھیں اچھا استاذ ہی نہ سمجھا جائے۔” مقاصد” فوت ہوچکے ہیں اور ساری انرجی ذرائع (پروسیس) پر صرف کیے جارہے ہیں۔ مارکیٹ میں مثلا: کافیہ کی ایک درجن شرح ہونے کے باوجود ایسا آپ کیا لکھ دیں گے جو اب تک انھوں نے نہیں لکھا ہے، سوائے اس کے کہ انداز مختلف ہوگا اور یقینا کچھ باتوں کا اضافہ فرمائیں گے۔ ایسی شروحات "منزل” میں تو یقینا مطلوب ہے، یعنی کنز الدقائق کی شرح البحرائق کے بعد بھی النہرالفائق کی گنجائش تھی اور پھر علامہ شامی نے حاشیہ منحۃ الخالق کا بھی اضافہ کیا۔ آپ اس پر دو چار شرح اور لکھ دیجیے؛ لیکن ذرائع اور پروسیس کی شرح در شرح کا مقصد کیا ہے سوائے اس کے کہ کافیہ میں خطبہ نہ لکھنے کی حکمت اس کے علاوہ بیان کریں جو دوسرے شارحین نے بیان کیا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر سو لوگ کا فیہ پڑھاتے ہیں اور سب کا جی چاہتا ہے شرح لکھنے کو تو سب لکھیں گے، وقت، انرجی اور سرمایہ ان کا ہے، پھر آپ کو کیا اعتراض؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا اگر بات یہیں تک رہتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا؛ لیکن شروحات ایک زبردست قسم کی بزنس بن چکی ہے، اس دوڑ میں شارحین کے علاوہ کتب خانہ والے بھی شامل ہوچکے ہیں۔ اس کا مالی اور علمی خسارہ صرف طلباء کا ہے۔ اساتذہ کو تدریس سے زیادہ بہترین شرح تیار کرنے سے دلچسپی ہے۔ طلبہ سازی سے زیادہ اپنے شروحات کی مارکیٹنگ اور انھیں مقبول عام بنانے کی فکر ہے۔ بعض اساتذہ خود بچوں کو اپنی شروحات خریدنے پر آمادہ کرتے ہیں کہ کھلے عام اسباق میں فرماتے ہیں کہ "……باقی تفصیل میری شرح میں پڑھ لینا”۔ کیا یہ conflict of interest نہیں ہے۔جو کسی بھی پیشے میں معیوب ہے اور تدریس میں انتہائی معیوب۔
ہمارا تعلق خیرالقرون سے نہیں ہے؛ لیکن بہرحال ہم شروحات کی ریل پیل کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا تھا کہ وہ عبارت فہمی کے لیے اپنے سینیرز کی مدد لیتے تھے، سینیرز اپنے سینرز کی اور اساتذہ کی مدد لیتے تھے۔ ہم نے اپنے اساتذہ کو بھی دیکھا تھا کہ وہ بلا جھجک اور بلا تکلف مدرسے کے ناظم/ صدر صاحب کے پاس کتاب اٹھا کر چلے جاتے تھے کہ یہ عبارت سمجھا دیجیے۔ (اتفاق سے ہمارے مدرسے کے ناظم اور صدر، دونوں صرف عہدے میں ہی نہیں، علم میں بھی سارے اساتذہ پر فائق تھے، ان میں سے ایک اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے) شروحات نے یہ سلسلہ ختم کردیا۔ اب کوئی جونیر ہے اور نہ ہی سینیر، کوئی استاذ ہے اور نہ کوئی شاگرد سب کی غرض بس شروحات سے وابستہ ہے۔ آپ کو پھر سے سوال ہوسکتا ہے کہ اگر شرح سے یہ ضرورت پوری ہو رہی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ کیوں کسی سینیر یا استاذ کا چکر لگائیں؟ اس کا جواب دینے کے بجائے میں بھی ایک سوال کرتا ہوں وہ یہ کہ پھر درس گاہیں کیوں لگائی جائیں، اساتذہ کو موٹی تنخواہیں اور سہولیات کیوں دیے جائیں؛ بلکہ طلبہ کا بھی مدرسے میں داخلہ کیوں لیا جائے؟ اگر مقصد کتاب سمجھنا ہی ہے اور یہ ضرورت شروحات سے پوری ہوجاتی ہے، پھر ڈسٹنس تعلیمی نظام کیوں نہ بنا لیا جائے کہ طلبہ گھر میں رہ کر شروحات پڑھ لیا کریں اور دارالعلوم صرف ششماہی اور سالانہ امتحانات کا انعقاد کرکے پاس ہونے والے طلبہ کو اسناد دے دیا کرے۔ ریسورسز (Resources) کی حفاظت ہوگی اور یقینا طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا کہ کئی لوگ عالم بننے کے خواہاں ہیں؛ لیکن وہ اپنی معاشی ضرورت سے فارغ نہیں ہیں۔ شرح پڑھنے کے لیے دن کے دو چار گھنٹے تو وہ نکال ہی لیا کریں گے۔ شروحات لکھنے والے کو بھی بھرپور وقت ملے گا اور وہ اور زیادہ شروحات لکھ سکیں گے۔
کسی ضرورت سے زیادہ عقیدت مند نے میرے تعلق سے لکھا کہ یہ ضرور دارالعلوم کا فاضل نہیں ہے، ورنہ ایسی بات نہ لکھتا۔ سو عرض ہے کہ میں ضرور دارالعلوم کا فاضل ہوں اور اسی وجہ سے میں نے لکھا ہے؛ چوں کہ شروحات نے کس طرح تعلیم کا بیڑا غرق کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے۔ بعض اساتذہ اپنی ذہانت ثابت کرنے کے لیے فخریہ کہتے تھے کہ میں جو تقریر کرتا ہوں وہ فلاں شرح سے ملا لو، الفاظ میں بھی یکسانیت نہ ہو تو کہنا۔ بعض اساتذہ ایسے بھی تھے کہ طلبہ جمعرات کو فرمائش کرتے (جو کہ طلبہ کی عام عادت ہوتی ہے) کہ آج مت پڑھائیے۔ حضرت فرماتے "ٹھیک ہے، مجھے اتنا (مثلا ایک صفحہ) پڑھانا تھا، اگر نہیں پڑھنا چاہتے تو یہ صفحہ شرح سے مطالعہ کرلینا۔ اگلے دن ہم اس کے آگے پڑھائیں گے” اور ایسا ہی ہوتا۔ بعض اساتذہ کی سال بھر میں پچاس فیصد بھی حاضری نہیں ہوتی تھی۔ (شنید کے مطابق کسی ماہ کی تنخواہ کٹوتیوں کے بعد انھیں دو چار ہزار روپے تک ملتی تھی؛ لیکن حضرت کو فرق نہیں پڑتا تھا کہ ان کی موٹی کمائی جلسوں اور عوامی تقریروں سے ہوتی تھی) طلبہ شروحات کے بھروسے جیتے تھے۔ ایسے بھی اساتذہ ہیں جو گھنٹہ میں اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے کر داخل ہوتے، طلبہ سے کہتے تم پڑھو اور حضرت درس گاہ سے بے خبر اپنے لیپ ٹاپ / فون میں مگن ہوجاتے۔ یہ ایشیا کے عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کا حال ہے، پھر آپ دوسرے چھوٹے موٹے اداروں کا حال سوچ سکتے ہیں۔
یہ انوار وبرکات انھیں شروحات کی ہے، جس نے اساتذہ کی حیثیت دو کوڑی کی نہیں چھوڑی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ درس گاہوں سے غیر حاضری کا تناسب روز بروز بڑھتا جا رہا ہےاور اب تو دورہ حدیث میں بھی حاضری لینی پڑتی ہے۔ اگر اساتذہ کی اہمیت جاننی ہو تو درس گاہوں سے رجسٹر ہٹا لیجیے اور اعلان کردیجیے کہ آئندہ حاضری نہیں ہوگی۔ طلبہ اپنے شوق سے حاضر ہوا کریں۔ پھر تماشہ دیکھیے۔
یہ ایسی ہی دو رنگی ہے، جیسے حکومت ایک طرف تمباکو نوشی کےخلاف کمپین چلاتی ہے اور دوسری طرف تمباکو بنانے اور فروخت کرنے کی پرمٹ بھی دیتی ہے؛ چوں کہ اس سے پیسے آتے ہیں۔ بلاشبہ شروحات نے نصاب تعلیم کے مقصد اور اس کے روح کو ختم کردیا ہے۔ شرح وقایہ اور ہدایہ اردو شروحات کی مدد سے پڑھنے والے طلبہ سے آپ امید کرسکتے ہیں کہ وہ شامی اور فتح القدیر خود سے سمجھ لیا کرے گا؟ اب طلبہ کے نمبرات پہلے سے زیادہ آنے لگے ہیں؛ لیکن عبارت فہمی کا لیول کم سے کم تر ہوتا گیا۔ پہلے ساٹھ ستر فیصد نمبرات حاصل کرنے والے اب کے نوے پچانوے فیصد نمبرات حاصل کرنے والے سے بہتر کیوں ہے؟ وجہ صاف ہے، وہ سال بھر پڑھتے تھے، استاذ کی محنت اور اپنی تگ ودو سے کتاب سمجھتے تھے، اس لیے جو نمبرات حاصل کرتے تھے وہ ان کی سال بھر کی محنت کا ثمرہ ہوتا تھا۔ اب شروحات کے بھروسے، طلبہ سال بھر سوتے ہیں، ڈنڈیاں مارتے ہیں، دیوبند انگلش اور کمپیوٹر انسٹیٹیوٹس کو آباد کرتے ہیں، تعلیم کے علاوہ دوسری کسی بھی مصروفیت میں اپنا وقت گزارتے ہیں اور امتحان سے ایک آدھ ماہ پہلے ایکٹیو ہوجاتے ہیں، شروحات کا رٹا لگاتے ہیں اور اچھے نمبرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں؛ لیکن ظاہر ہے وقتی چیز ایک وقت تک ہی باقی رہتی ہے، اس میں پائیداری کہاں آسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے درس نظامی سے فراغت ہی اس کے مستند عالم ہونے کی دلیل تھی، اب فراغت کے ساتھ عربی ادب/ افتاء وغیرہ اختصاص ایڈ اون کے طور پر جب تک شامل نہ ہو، اسے کوئی اچھا عالم ماننے کو آمادہ ہی نہیں اور وہ حق بجانب بھی ہیں کہ اس شروحاتی دور نے طلبہ کی صلاحیتوں کو ایسا کھوکھلا کیا ہے کہ عربی چہارم، عربی پنجم، ششم کی شروحات میں بھی عبارت پر اعراب لگانا پڑتا ہے اور ترجمے کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ زوال ممکن ہے؟
شروحات کے فروغ کی وجہ صرف پیسہ ہے ۔ اس لیے شروحات لکھنے میں زبردست قسم کا کمپٹیشن ہے۔ آپ کوئی شرح لکھیے، دیوبند کے کتب خانے ہاتھوں ہاتھ اسے لینا چاہیں گے، کوئی اس کی رایلٹی خریدنے کا خواہاں ہوگا اور کوئی فیصد کے عوض؛ لیکن آپ کسی علم وتحقیق پر مبنی کتاب شائع کریں۔ دیوبند کے کتب خانے اسے ہاتھ لگانے کو آمادہ نہیں ہوں گے؛ بشرطیکہ آپ اس کی طباعت کا کلی یا جزئی خرچہ نہ اٹھائیں۔
اب تو بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے، اب تو نوٹس کی دوڑ لگ چکی ہے۔ شروحات پڑھنے میں بھی ٹھیک ٹھاک وقت صرف ہوتا تھا، اب اس زحمت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب سو پچاس روپے کے نوٹس خریدیے، سو ڈیڑھ سو سوالات حل کیجیے ۔ پورے سال نہ پڑھ کر بھی پاس نمبرات حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔بس اتنا کافی ہے۔
شروحات اور نوٹس کی مثال فاسٹ فوڈ (نوڈلز، میگی، برگر اور کوک وغیرہ ) کی ہے کہ خوبصورت الفاظ اور جاذب نظر اشتہارات کے ذریعہ کسٹمرز کو بیچے جاتے ہیں ۔اس کے مضر صحت ہونے کا سب کو علم ہے؛ لیکن برانڈز کا ان سے پیسہ بنتا ہے اور کسٹمرز کو وقتی لذت محسوس ہوتی ہے اور بھوک پیاس مٹ جاتی ہے، اس کی بناء پر کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے فوائد بیان کرے، "سوائے ان کے جو اس سے پیسے بنا رہے ہیں”۔