اردو غزل ہمیشہ سربلند رہی ہے اور غزل کی یہ سربلندی جہاں اس کی ہیئت، اسلوب اور لہجے کے باعث قائم رہی ہے، وہیں موضوعات کی بوقلمونی نے بھی غزل کو ممیز وممتاز رکھا ہے، وقتی طور پر ضرور غزل کبھی کبھی نظم کے مقابلے میں کم مقبول رہی ہے؛ مگر غزل کا اجتماعی تأثر ہمشہ غزل کی مقبولیت کی اساس کو مضبوط کرتا رہا ہے۔ جدید غزل ناصرؔ کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی سے ہوتی ہوئی شہریارؔ، بشیرؔ بدر، احمد مشتاقؔ، ساقیؔ فاروقی اور ان کے معاصرین تک پہنچتی ہے تو موضوعات کی سطح پر انقلاب آفریں تبدیلی نے غزل کو مقبولیت کے نئے آسمان عطا کیے۔
جدید غزل گو حضرات کا یہ قافلہ رواں دواں تھا کہ اس میں خوش آئند اضافے کے طور پر منورؔ رانا داخل ہوئے۔ منورؔ رانا نے اپنے مختلف ومنفرد لب ولہجے، فنی دسترس، موضوع کے انتخاب، نئی تشبیہات واستعارات اور عام زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کا بہترین استعمال کرکے غزل کے منظر نامے پر خود کو منور کیا، بنگال کی خلیج سے اٹھنے والی غزل کی یہ منفرد آواز اردو غزل کے لیے نہ صرف یہ کہ نئی تھی؛ بلکہ معاصرین میں سب سے الگ اور سب سے جدا تھی، منورؔ رانا نے عام فہم باتوں، روزمر ہ کے جملوں اور محاوروں کا خوب صورت استعمال کیا ہے، یہی نہیں، بلکہ بعض ٹیڑھی میڑھی اور کھردری آوازوں کو بھی اپنے سلیقے سے کچھ اس طرح غزل میں پرویا ہے کہ ان کو خوب صورت بنادیا ہے۔ مثلاً مٹھا، رام دانا، بگیا، اوڑھنی، کھدر، سروتا وغیرہ الفاظ کو استعمال کرکے غزل کے دامن کو مالامال کیا ہے، یہی نہیں بلکہ منورؔ رانا نے غزل میں خونی رشتوں کو تقدیس عطا کی ہے، جو ان کی پہچان بن گئی ہے۔
منورؔ رانا کا پورا نام سید منور علی ہے، ان کی پیدائش ۲۶؍ نومبر ۱۹۵۲ء میں اترپردیش کے تاریخی شہر رائے بریلی میں ہوئی(وفات 14 جنوری ۲۰۲۴ء )، جہاں ہندی اور اردو کے کئی انمول شاعر اور کوی پیدا ہوئے، ان کے والد سید انور علی رانا اور والدہ عائشہ خاتون ہیں، انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ بٹوارے کا زخم بھی سہا، تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان اور رشتہ داروں میں سے اکثر لوگ پاکستان ہجرت کرگئے؛ لیکن ان کے والد محترم نے وطن سے اٹوٹ محبت کی وجہ سے ہندوستان کو ہی اپنا مسکن بنایا، عزیزوں کے ہجرت کرجانے کے بعد گھر کے حالات بہت خراب ہوگئے، جس کی وجہ سے ان کے والد نے رائے بریلی کو خیرباد کہا اور کلکتہ منتقل ہوگئے اور ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا، جہاں انھوں نے ۲۵؍ برس تک ٹرک چلایا۔
اس طرح منورؔ رانا کا بچپن اور جوانی بڑے حالات، تجربات اور مشاہدات سے گزری ہے، انھوں نے ابتدائی تعلیم ’’شعیب ودّیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج‘‘ رائے بریلی سے حاصل کی اور کلکتہ میں ہائر سکنڈری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ ہی کے ’’امیش چندرا کالج‘‘ سے بی کام کیا۔
منورؔ رانا نے ۲۰؍ویں صدی کی ۷؍ویں دہائی ۱۹۷۲ء میں شاعری کا آغاز کیا، انھوں نے اپنے پُرجلال اظہار، ریڈیائی آواز، منفرد لب ولہجہ اور فن وعروض کی صحت مند روایات کے احترام والتزام کے ساتھ ساتھ، زندگی کی سفاک حقیقتوں کا مظاہرہ کرکے نہ صرف پورے برصغیر میں مغربی بنگال کی نمائندگی کی؛ بلکہ اردو شاعری کی عالمی بستیوں میں نمایاں مقام بھی حاصل کیا۔ منورؔ رانا حضرت والی آسیؔ لکھنوی کے شاگرد رشید ہیں، آسیؔ لکھنوی اپنے عہد کے معتبر اور استاد شعرا میں شمار کیے جاتے تھے، جن کا ضرب المثل شعر ہے: ؎
دل ایسی چیز کو ٹھکرادیا نخوت پرستوں نے
بہت مجبور ہوکر ہم نے آئین وفا بدلا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اہل دل تشریح آداب وفا کرتے رہے
ہم تمہارا نام لے کر تم پہ قرباں ہوگئے
منورؔ رانا کی غزل کے تعلق سے ’’والی آسیؔ‘‘ ان کے مجموعہ ’’نیم کے پھول‘‘ کے فلیپ کور پر لکھتے ہیں:
’’منورؔ رانا نے زندگی بسر کرنے کے لیے جس طرز، رویے، سبھاؤ کو اپنایا ہے، تقریباً وہی انداز اور وہی اسلوب انھوں نے بغیر کسی مصلحت کے اپنی غزل کے لیے بھی منتخب کیا ہے۔‘‘
منورؔ رانا ایک ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے برسہا برس اپنے اشعار کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کو متأثر کیا ہے؛ بلکہ یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ دراصل رشتوں کی حقیقت کیا ہے؟ ہماری اردو غزل کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اردو غزل میں ہماری سماجی اور گھریلو زندگی کے حالات اتنے زیادہ نہیں بیان کیے گئے، جتنے کہ عشق ومحبت کی داستانیں رقم کی گئی ہیں۔ چوکھٹ اور اس کے اندر کی زندگی جہاں ایک عورت ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، بیٹی بھی ہے، بیوی بھی ہے، اس کے سارے کردار کی پاکیزگی کو کس طرح شاعری میں لایا جاتا ہے اور گھر سے باہر نکل کر غربت کس طرح فٹ پاتھ پر اپنی زندگی گزارتی ہے، اس غربت کا نقشہ، چوکھٹ کے اندر کی ماں بہنوں کی زندگی کا نقشہ، اس کو غزل میں آزادی کے بعد پہلی بار جس شخص نے بڑے معتبر لہجے میں پیش کیا ہے وہ منورؔ رانا ہیں۔
منورؔ رانا نے غزل کی ان لفظیات کو جو ہمیں ادبا سے ملیں یا وہ موضوعات جو پرانے لوگوں نے ہمیں عنایت کیے ہیں، ان کو اس خوب صورتی سے اور فن کاری سے بدلا ہے کہ ان کی فکر کی چھوٹ سے ان کے فن کا پیمانہ بھی جگمگانے لگا ہے، وہ نئے موضوعات جنھیں غزل میںلوگوں نے نہیں سمویا تھا، وہ سب منورؔ رانا کی شاعری میں ابھر کر سامنے آتے ہیں، انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے گرے پڑے موضوعات کو جگہ دی، جنھیں اردو غزل والے اچھوت سمجھتے تھے۔ مثلاً غزل میں ٹرین میں جھاڑو لگاتے ہوئے بچوں کا ذکر کرنا، بیڑی بنانے والی عورتوں کا تذکرہ، اسٹیشن پر بوجھ ڈھونے والے قلی کا ذکر، فٹ پاتھ پر لیٹے ہوئے مسافروں کا ذکر وغیرہ، اس طرح کے بہت سارے موضوعات اور الفاظ ہیں جن کو انھوں نے محترم بنادیا ہے۔ اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: ؎
بلک رہے ہیں زمینوں پہ بھوک سے بچے
مرے بزرگوں کی دولت کھنڈر کے نیچے ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کردیا
ٹوٹے پھوٹے گھر میں اک لڑکی سیانی اور ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ریت پر کھیلتے بچوں کو ابھی کیا معلوم
کوئی سیلاب گھروندا نہیں رہنے دیتا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم نہ دلی تھے نہ مزدور کی بیٹی لیکن
قافلے جو بھی ادھر آئے ہمیں لوٹ گئے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے
خوشی سے کون بچہ کارخانے تک پہنچتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مسجد کی چٹائی پہ یہ سوئے ہوئے بچے
ان بچوں کو دیکھو، کبھی ریشم نہیں دیکھا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
فرشتے آکے ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
پیٹ کی خاطر فٹ پاتھوں پر بیچ رہا ہوں تصویریں
میں کیا جانوں روزہ ہے یا روزہ میرا ٹوٹ گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
امیری ریشم وکمخواب میں ننگی نظر آئی
غریبی شان سے اک ٹاٹ کے پردے میں رہتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے؟ مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہوجاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
رکھتے ہیں ہم کو چاہنے والے سنبھال کے
ہم ننھے روزہ دار کی مسواک ہوگئے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
میں ہوں مٹی تو مجھے کوزہ گروں تک پہنچا
میں کھلونا ہوں تو بچو ں کے حوالے کردے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
آنسو نمک ملا ہوا پانی ہی تھے مگر
آنکھوں میں رہتے رہتے خطرناک ہوگئے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
نہ میں کنگھی بناتا ہوں، نہ میں چوٹی بناتا ہوں
غزل میں آپ بیتی کو میں جگ بیتی بناتا ہوں
غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے
وہ محبوبہ بنالیتا ہے، میں بیٹی بناتا ہوں
مجھے اس شہر کی سب لڑکیاں آداب کرتی ہیں
میں بچوں کی کلائی کے لیے راکھی بناتا ہوں
منورؔ رانا گاؤں کی مٹی سے بے حد مانوس نظر آتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ گاؤں کے سیدھے سادے لوگوں کے قول وعمل میں نہ تو تضاد ہوتا ہے، نہ ریاکاری اور نہ اداکاری ہوتی ہے، اس مادّی دنیا میں اگر شرم وحیا، غیرت وحمیت، محبت و شرافت اور مروّت باقی ہے تو وہ گاؤں میں ہے، گاؤں میں بسنے والے اپنی دیوار حیات پر رنگ وروغن چڑھاکر نمائش اور بناوٹ کے اصول پر کاربند نہیں رہتے؛ بلکہ سچائی، سادگی، خلوص اور وفا پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ منورؔ رانا نے اپنے اشعار میں گاؤں کو ان ہی صفات کے لیے برتا ہے۔ ملاحظہ ہوں ذیل کے اشعار: ؎
تمھیں سچی محبت کے کئی قصے سنائے گا
ہمارے گاؤں آنا تم، وہاں اک پان والا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی موجود ہے اس گاؤں کی مٹی میں خودداری
ابھی بیوہ کی غیرت سے مہاجن ہار جاتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی لہجے میں تھوڑی سی اَنا کی دھوپ باقی ہے
ابھی تک ایک کمرہ گاؤں میں دالان والا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
گاؤں کے بھولے بھالے باسی، آج تلک یہ کہتے ہیں
ہم تو نہ لیں گے جان کسی کی، رام دکھی ہوجاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
وہ ایک شخص جو بچپن سے میرے گاؤں میں ہے
یہ جانتا نہیں کوئی کہ دیوتاؤں میں ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تمہارے شہر کی یہ رونقیں اچھی نہیں لگتیں
ہمیں جب گاؤں کے کچے گھروں کی یاد آتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم گاؤں میں جب تک رہتے تھے، یہ سب منظر مل جاتے تھے
دو چار کنویں مل جاتے تھے، دس بیس شجر مل جاتے تھے
خوددار انسان ہمیشہ صبر سے کام لیتا ہے، کبھی کوئی ضرورت یا حاجت اسے مجبور کرتی بھی ہے تو وہ کسی سے اپنی بات نہیں کہہ پاتا، زبان پر تالے پڑجاتے ہیں اور صبر ہی اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ منورؔ رانا نے خوددار انسان کے جذبات کی بہترین عکاسی کی ہے، دراصل یہ ان کے اندر کا خوددار انسان ہے، جو ان کی شاعری میں بھی در آیا ہے۔
جہاں تک اَنا کا تعلق ہے، تو یہ انسان کو خوددار بناتی ہی ہے، ساتھ ہی اپنی شرطوں پر کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے، اَنا انسان کا زیور ہے، جس شخص کے پاس اَنا نہیں ہوتی، وہ ذلیل وخوار ہوتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اَنا جب حدیں پار کرتی ہے تو غرور اور گھمنڈ سے ہوتی ہوئی تکبر میں بدل جاتی ہے اور تکبر انسان کو زیب نہیں دیتا۔ یہ تو صرف اور صرف اللہ کا وصف ہے؛ اس لیے جب انسان تکبر کرتا ہے تو اسے ذلت وخواری کا سامنا ہوتا ہے۔ منورؔ رانا نے اَنا کو بخوبی نبھایا ہے: ؎
اگر آداب کرلیتے تو مسند مل گئی ہوتی
اگر لہجہ بدل لیتے گورنر ہوگئے ہوتے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
خوش رہتا ہے وہ اپنی غریبی میں ہمیشہ
راناؔ کبھی شاہوں کی غلامی نہیں کرتا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
عمر بھر اس نے بھی مجھ سے میرا دکھ پوچھا نہیں
میں نے بھی خواہش کو اپنی بے زباں رہنے دیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اَنا نے میرے بچوں کی ہنسی بھی چھین لی مجھ سے
یہاں جانے نہیں دیتی، وہاں جانے نہیں دیتی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ضرورت سے اَنا کا بھاری پتھر ٹوٹ جاتا ہے
مگر پھر آدمی بھی اندر اندر ٹوٹ جاتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جہاں تک ہوسکا ہم نے تمہیں پردہ کرایا ہے
مگر آے آنسوؤ! تم نے بہت رسوا کرایا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
چمک ایسے نہیں آتی ہے خودداری کے چہرے پر
اَنا کو ہم نے دو دو وقت کا فاقہ کرایا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
وہ سربلند ہمیشہ خوشامدوں میں رہا
میں سر جھکائے رہا اور سرمدوں میں رہا
مادرِ وطن سے منورؔ رانا کی محبت اور وفاداری کا جذبہ بھی نمایاں ہے، وہ ملک میں رو بہ انحطاط اخلاقی گراوٹ سے دل برداشتہ ہوتے ہیں اور ہماری تہذیب وثقافت اور تمدن کی بقا کی کوشش میں اپنے اشعار کو زبان کا لبادہ عطا کرتے ہیں اور اپنے خاص لب ولہجے میںیوں گویا ہوتے ہیں: ؎
ضرورت روز ہجرت کے لیے آواز دیتی ہے
محبت چھوڑ کر ہندوستاں، جانے نہیں دیتی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مرا خمیر بنا ہے وہاں کی مٹی سے
جہاں کی فاحشہ بھی بے وفا نہیں ہوتی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
گلے ملتے ہیں موسم سے جہاں موسم دکھائیں گے
الٰہ آباد آنا ہم تمھیں سنگم دکھائیں گے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سرپھرے لوگ ہمیں دشمنِ جاں کہتے ہیں
ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تجھ کو اے خاکِ وطن! میرے تیمم کی قسم
تو بتادے کہ یہ سجدوں کے نشاں کیسے ہیں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مدینے تک میں ہم نے ملک کی خاطر دعا مانگی
کسی سے پوچھ لے، اس کو وطن کا درد کہتے ہیں
اس امر سے ہر حساس اور باشعور شخص بخوبی واقف ہے کہ موجودہ عہد میں سیاست نے نہ صرف ہماری سماجی اور معاشی زندگی تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے؛ بلکہ سیاست دانوں نے ملک کی روایتی قومی ہم آہنگی، امن وآشتی اور انسان دوستی کو اپنی سیاسی بساط پر مہرے کی طرح استعمال کیا ہے؛ تاکہ ان کی سیاسی دکانیں چمک سکیں۔ منورؔ رانا کو بھی ہر لمحہ اس کا احساس ہے اور یہ احساس جب شدت اختیار کرلیتا ہے تو شاعر اسے صفحۂ قرطاس پر یوں بکھیرتا ہے: ؎
محبت کرنے والوں میں یہ جھگڑا ڈال دیتی ہے
سیاست، دوستی کی جڑ میں مَٹھا ڈال دیتی ہے
طوائف کی طرح اپنے غلط کاموں کے چہرے پر
حکومت، مندر اور مسجد کا پردہ ڈال دیتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران ہوگئیں
اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہوگئیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
سیاست نفرتوں کا زخم بھرنے ہی نہیں دیتی
جہاں بھرنے پہ آتا ہے تو مکھی بیٹھ جاتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا مرے کردار پہ شک کرنے لگے گی
اس خوف سے میں نے کبھی کھدر نہیں پہنا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم کہ شاعر ہیں، سیاست نہیں آتی ہم کو
ہم سے منہ دیکھ کے لہجہ نہیں بدلا جاتا
منورؔ رانا نے غریبی اور مفلسی کی بڑی دھوپ سہی ہے، غربت اور اس کے نیچے رہنے والے انسانوں کی زندگیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں غریبوں اور مزدوروں کے ناگفتہ بہ حالات اور ان پر ہونے والے ظلم وستم اور استحصال کے خلاف برہمی اور احتجاج کی لَو شدت اختیار کرگئی ہے؛ مگر اس میں نعرے بازی نہیں، بلکہ حقیقی زندگی کی برہنہ عکاسی ہے، جو انھیں ترقی پسند اور حقیقت نگار شاعروں میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے: ؎
مفلسی نے سارے آنگن میں اندھیرا کردیا
بھائی خالی ہاتھ لوٹے اور بہنیں بجھ گئیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
شرم آتی ہے مزدوری بتاتے ہوئے ہم کو
اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم نے بازار میں دیکھے ہیں گھریلو چہرے
مفلسی تجھ سے بڑے لوگ بھی دب جاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
کہنے کو ایک آنسو تھا بچے کی آنکھ میں
لیکن تمام رونقِ بازار لے گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اپنے گھر میں سر جھکائے اس لیے آیا ہوں میں
اتنی مزدوری تو بچے کی دوا کھا جائے گی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
معلوم نہیں کیسی ضرورت نکل آئی
سر کھولے ہوئے گھر سے شرافت نکل آئی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی میں آج اک سچی عبادت میں نے کی
یعنی اک روتے ہوئے بچے کا بوسہ لے لیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
غم سے فرصت ہی کہاں ہے کہ تجھے یاد کروں
اتنی لاشیں ہوں تو کاندھا نہیں بدلا جاتا
انسانی زندگی بڑی بھاگ دوڑ، افراتفری اور تصادم میں گزرتی ہے، انسان تمام عمر لڑنے جھگڑنے، سلجھنے اور سلجھانے میں گزار دیتا ہے؛ لیکن زندگی جوں ہی تمام ہوتی ہے، کیا ہوتا ہے؟ اس کو منورؔ رانا بتانے کی کوشش کررہے ہیں اور نصیحت بھی : ؎
تھکن کو اوڑھ کے بستر میں جاکے لیٹ گئے
ہم اپنی قبر مکرر میں جا کے لیٹ گئے
تمام عمر ہم اک دوسرے سے لڑتے رہے
مگر مَرے تو برابر میں جا کے لیٹ گئے
منورؔ رانا کی شاعری میں غزل گوئی ہی نے جگہ لی، ان کی غزلوں میں شوخی کم، حقیقت پسندی زیادہ پائی جاتی ہے، انھوں نے اپنے کلام میں روایتی ہندی اور اَودھی زبان کا بخوبی استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے انھیں نہ یہ کہ صرف اردو شاعری میں، بلکہ ہندی شاعری میں بھی کافی شہرت ملی۔
منورؔ رانا کی شاعری میں ’’ماں‘‘ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، انھوں نے معشوقہ کی جگہ غزل میں ماں کو لاکر رشتوں کی پاکیزگی کو جس خوب صورتی سے شاعری میں ڈھالا ہے، وہ قابل قدر ہے۔ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ اس پس منظر میں انھوں نے ماں کی عظمت اور اس کے تقدس کو اجاگر کرتے ہوئے اتنی کثرت سے اشعار کہے ہیں کہ ان اشعار کا مجموعہ ہی ’’ماں‘‘ کے نام سے اردو، ہندی اور بنگلہ میں شائع ہوکر بے حد مقبول ہوا۔ غزل میں معشوقہ کی جگہ ماں کو لانے اور اس پر شاعری کرنے کی تحریک ان کو کیسے اور کہاں سے ملی، وہ خود فرماتے ہیں:
’’جب میں کلکتہ میں پڑھتا تھا تو اکثر ہمارے جو بنگالی دوست تھے، وہ کہتے تھے کہ جب ہمارا ’’بنگلہ ساہتیہ‘‘ انگریزوں سے پنجہ لڑا رہا تھا تو تب تمہاری اردو غزل کوٹھے سے اتر رہی تھی۔ ظاہر سی بات ہے، مجھے برا تو لگتا، لیکن میں سوچتا کہ بات تو صحیح ہے، ہماری اردو غزل میں آنکھ، کان، ناک، گردن، سینہ، کمر، بازو یہ سب بہت ہوگیا۔ ’’دوپٹہ آگے سے دوہرا نہ اوڑھو، نمودار چیزیں چھپانے سے کیا حاصل وغیرہ وغیرہ‘‘ غزل بالکل کچے گوشت کی دکان ہوگئی تھی، میں نے کہا: نہیں، میری محبوبہ میری ماں ہونی چاہیے، اس کے ذریعہ ماں کے مقدس رشتے کی حقیقت بیان کرنی چاہیے۔ اور جب میں ماں پر شعر کہنے لگا تو تنقید نگار مجھ پر تنقید کرنے لگے کہ نہیں صاحب! غزل کے معنی محبوب ہی سے باتیں کرنے کے ہیں، تو میں نے کہا کہ جب ایک معمولی شکل وصورت والی عورت میری محبوبہ بن سکتی ہے تو میری ماں میری محبوب کیوں نہیں ہوسکتی! جب تلسی داس کے محبوب ’’بھگوان رام‘‘ ہوسکتے ہیں تو میری ماں میری محبوب بالکل ہوسکتی ہے اور پھر میں ’’ماں‘‘ پر شعر کہنے لگا۔‘‘ [ٹی وی پر دیے گئے انٹرویو سے اقتباس]
منورؔ رانا کی ماں کے کردار پر کی جانے والی شاعری، جسے پوری اردو دنیا میں عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جسے لوگ بڑی محبت سے سنتے ہیں، اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں: ؎
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں، رہنے دیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
کسی کو گھر ملا حصے میں، یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا، مرے حصے میں ماں آئی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
یوں تو اب اس کو سجھائی نہیں دیتا لیکن
ماں ابھی تک مرے چہرے کو پڑھا کرتی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہوجاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہوجاؤں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
دعائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل جاتی ہیں
کہ جب پردیس جانے کے لیے بیٹا نکلتا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ نہیں ہوگا تو آنچل میں چھپالے گی مجھے
ماں کبھی سر پہ کھلی چھت نہیں رہنے دے گی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تیرے دامن میں ستارے ہوں تو ہوں گے اے فلک!
مجھ کو میری ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا
اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اے اندھیرے! دیکھ لے منہ تیرا کالا ہوگیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں، گھر میں اجالا ہوگیا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
منورؔ ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہر سہولت تھی میسر؛ لیکن اس کے باوجود
ماں کے ہاتھوں کی پکائی روٹیاں اچھی لگیں
منورؔ رانا کے اس انفرادی رنگ کو بھی دیکھیے، جس میں فکر کی ندرت ہے اور اظہار کی طرفگی بھی، احساس کی شدت بھی ہے اور جذبات کی حدت بھی، ان میں تغزل کا جدید رنگ بھی ہے اور لہجے کا بانکپن بھی، تجربات کا تنوع بھی ہے اور مشاہدات کی گہرائی وگیرائی بھی: ؎
تعلق کی سبھی شمعیں بجھادیں اس لیے میں نے
تمھیں مجھ سے بچھڑ جانے میں دشواری نہیں ہوگی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بے سبب آنکھوں میں آنسو نہیں آیا کرتے
آپ سے ہوگا یقینا مرا رشتہ کوئی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اتنا سانسوں کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو
سب کے سب مٹی کے انبار میں کھو جاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے
جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے
تلوار کی نیام کبھی پھینکنا نہیں
ممکن ہے دشمنوں کو ڈرانے کے کام آئے
کچا سمجھ کے بیچ نہ دینا مکان کو
شاید کبھی یہ سر کو چھپانے کے کام آئے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مہاجرو! یہی تاریخ ہے مکانوں کی
بنانے والا ہمیشہ برآمدوں میں رہا
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
’’مہاجر نامہ‘‘ کے چند اشعار دیکھیے: ؎
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی ہے
’’میاں! آؤ وضو کرلو‘‘ یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں
وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم عجلت میں جمنا کا کنارا چھوڑ آئے ہیں
تو ہم سے چاند! اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں اک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں
وہ جو پتلی سڑک اُنّاؤ سے موہان جاتی ہے
وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں
یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبالؔ کا لکھا ترانا چھوڑ آئے ہیں
ہماری اہلیہ تو آگئیں ماں چھُٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں، سونا چھوڑ آئے ہیں
منورؔ رانا ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار اور بہترین انشاپرداز بھی تھے، جتنی خوب صورتی سے وہ شاعری کرتے تھے، اتنی ہی فن کاری سے نثر نگاری بھی کرتے تھے، ان کی شاعری سننے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی نثر بھی پڑھنی چاہیے، فیصلہ نہیں کرپائیں گے کہ وہ شاعری اچھی کرتے تھے یا نثر نگاری۔
اخبارات ورسائل میں ان کے تحقیقی مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں، اس کے علاوہ اردو ادب کے اس طویل سفر میں منورؔ رانا نے اردو دنیا کو بہت کچھ دیا۔ اترپردیش اردو اکیڈمی کے چیئرمین بھی بنائے گئے، اخبارات کی ادارت بھی کی، فلموں میں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے، اب تک نثر ونظم میں ان کی کئی کتابیں اردو، ہندی، دیوناگری اور بنگلہ زبان میں شائع ہوکر بے حد مقبول ہوئیں، جن میں ’’ماں‘‘، ’’مہاجر نامہ‘‘، ’’شہدابہ‘‘، ’’غزل گاؤں‘‘، ’’گھر اکیلا ہوگیا‘‘، ’’ڈھلان سے اترتے ہوئے‘‘، ’’بغیر نقشے کا مکان‘‘، ’’کہو ظل الٰہی سے‘‘، ’’نیم کے پھول‘‘، ’’سفید جنگلی کبوتر‘‘، ’’پھنک تال‘‘، ’’سخن سرائے‘‘، ’’جنگلی پھول‘‘، ’’چہرے یاد رہتے ہیں‘‘، ’’سب اس کے لیے‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس مدت میں منورؔ رانا کو بہت سارے ایوارڈ اور اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، امیر خسروؔ ایوارڈ، میر تقی میرؔ ایوارڈ، غالبؔ ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، سرسوتی سمان ایوارڈ، مولانا عبدالرزّاق ملیح آبادی ایوارڈ، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ، کبیرؔ ایوارڈ، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی اور ہمایوں کبیر ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ آج کے اس خود غرض دور میں منورؔ رانا جیسے قلندر صفت انسان شاعر کا وجود بڑا ہی غنیمت تھا۔