Home ستاروں کےدرمیاں اردو صحافت کا ‘قطب’ – رشید ودود

اردو صحافت کا ‘قطب’ – رشید ودود

by قندیل

لاک ڈاؤن کے بعد سے ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ جہاں موقعہ ملا وہیں جمعہ پڑھا دیا اب کوئی یہ نہ پوچھے کہ پڑھتے ہو بھی کہ نہیں اس لئے کہ پڑھاتا ہوں تو پڑھتا بھی ہوں خیر بقرعید بعد کی بات ہے- میں منبر پر سر پر ٹوپی لگائے گفتگو کر رہا تھا- کان میں پھاہا اور آنکھوں میں سرمہ نہیں لگا تھا بس سادے انداز میں اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھ رہا تھا تب تک مسجد میں ایک بزرگ مصلی داخل ہوئے- پینٹ بشرٹ میں- اِن کیے ہوئے، عمر یہی کوئی ستر کے پار بس ذرا سی داڑھی، چہرہ پر وقار- عام طور پر پر مرشد کے حلیے میں کوئی شیخ الحدیث بھی مسجد میں داخل ہو تو میری صحت پر چنداں فرق نہیں پڑتا لیکن اُس دن پتہ نہیں کیوں اندر سے ہل گیا لیکن ڈھیٹ ہوں اس لیے لب و لہجہ سلامت رہا اور موضوع سے بھٹکا بھی نہیں- اُس دن میں پانی کی اہمیت پر بول رہا تھا خیر دوگانہ کی ادائیگی کے بعد سلام دعا ہوئی تو معلوم ہوا کہ قطب اللہ نام ہے اور صحافی ہیں- نام سے میں واقف تھا اس لیے فورا ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر سلوٹ مار دیا لیکن یہ سب دل ہی دل میں ہوا- اہل علم کی مجلس میں خاموشی میرے لیے مناسب ہوتی ہے اس لیے کہ اپنی جہالت کی پول نہیں کھلتی اور بہت سارا علم مل جاتا ہے سو اس دن بھی میں خاموش رہا- ان کی تمام تر گفتگو سن کر دل میں بڑی شدت سے خواہش جاگی کہ اے کاش اگر ان کا انٹرویو کر لیا جائے تو یہ خاصے کی چیز ہوگی لیکن اس دن میں بھی جلدی میں تھا اور پھر ممبئی چلا آیا-

قطب اللہ صاحب کو عمر طبعی ملی- زندگی انہوں نے اپنی شرطوں پر گزاری- ان کا انتقال بھی ہو گیا لیکن ان کے جانے سے دل میں اک خلش سی ہے کہ اے کاش ایک بار ان سے جی بھر کر باتیں کر لیتا تو میرا بڑا فائدہ ہوتا- اب سوال یہ ہے کہ قطب اللہ صاحب کون تھے؟ تعارف کراؤں گا لیکن اتنا جان لیں کہ جیسے ہی مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو بیساختہ منہ سے نکل گیا کہ "اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے” قطب اللہ صاحب دودھونیاں کے رہنے تھے یہ گاؤں اس لیے مشہور ہے کہ اسی گاؤں میں مفسر قرآن عبدالقیوم رحمانی جیسے صاحب علم نے جنم لیا- قطب اللہ صاحب کے والد مولانا محبت اللہ صاحب خود بھی عالم تھے ان کی ایک کتاب "ذوالقرنین کی تلاش” بہت مشہور ہے- کتاب کا موضوع تحقیقی ہے اور مولانا نے بلاشبہ تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے- یہ کتاب جمال شاہ کی لائبریری میں پڑھی تھی میں نے- یہ کتاب اگر دوبارہ شائع ہو جائے تو تحقیق کے طالب علموں کا بڑا فائدہ ہوگا- قطب اللہ صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں یہ کتاب تمہیں ضرور دوں گا- اب یہ وعدہ ڈاکٹر صغیر پورا کریں گے ان شاءاللہ- ذکی نور عظیم ندوی نے مولانا محبت اللہ کو اردو کا صحافی، محقق، مصنف، مترجم، ادیب اور افسانہ نگار بھی لکھا ہے-

قطب اللہ صاحب نے مکتب کی تعلیم اکرہرا میں حاصل کی- اکرہرا سدھاتھ نگر کا ایک مشہور گاؤں ہے یہاں کے مسلمانوں کو اللہ نے علم و فضل اور مال و دولت کی نعمت سے نوازا ہے- عبدالعظیم رحمانی، نور عظیم ندوی، ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوی، سعید اختر بستوی، ذکی نور عظیم ندوی اور نور القمر سلفی کا تعلق اسی گاؤں سے ہے- اکرہرا میں جو مکتب چل رہا تھا پہلے اس کا نام "درس گاہ اسلامی” تھا- نام سن کر آپ لوگ ضرور معنی خیز انداز میں مسکرائیں گے- یہاں مولانا دور صدیقی اس وقت اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھے- مولانا کا نام عبدالشکور تھا- بیت نار کے رہنے والے تھے- بیت نار ضلع سدھارتھ نگر کا مشہور اہل حدیث گاؤں ہے اپنے گاؤں میں مولانا نے پوری کوشش کی کہ ان کے علاوہ بھی کوئی جماعتیا پیدا ہو جائے لیکن استاذ عبدالمبین ندوی کی روایت کے مطابق سوائے ایک شخص کے اور کوئی جماعتیا پیدا نہیں ہوا-

اکرہرا کے بعد قطب اللہ صاحب نے ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور وہاں سے ندوی بن کر نکلے- لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے بھی کیا- بعد میں ایل ایل بی بھی کیا- اردو صحافت پر پی ایچ ڈی کے لیے لکھنؤ یونیورسٹی میں رجسٹریشن بھی کرا لیا تھا- مقالہ تقریباً تیار تھا لیکن مشرف سے بعض اختلافات کی وجہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی- قطب اللہ صاحب لکھنؤ میں تھے اور لکھنؤ میں اس وقت حیات اللہ انصاری کا طوطی بول رہا تھا- دونوں ایک دوسرے کے رابطے میں آئے اور پھر ایک دوسرے کے ہو کر رہ گئے وہ سفر جو قطب اللہ صاحب نے قومی آواز سے شروع کیا تھا وہ سہارا، اردو نیوز اور انقلاب سے ہوتے ہوئے عوامی سالار پر ختم ہو گیا- معصوم مرادآبادی کے مطابق قطب اللہ صاحب کی صحافتی تربیت میں عشرت علی صدیقی اور عثمان غنی جیسے جید صحافیوں کا بھی ہاتھ رہا-

افسوس قطب اللہ صاحب اپنی آپ بیتی نہیں لکھ سکے اگر لکھتے تو کم از کم شمالی ہند میں اردو صحافت کی ایک تاریخ مرتب ہو جاتی- انہوں نے قومی آواز اور سہارا دونوں کو پیدا ہوتے جوان ہوتے اور مرتے ہوئے دیکھا تھا- قومی آواز کو انہوں نے بچانے کی انتھک کوشش کی لیکن نہیں بچا سکے- معصوم مرادآبادی کی روایت کے مطابق "قومی آواز سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کو قطب اللہ نے ایک تفصیلی مضمون میں قلم بند کیا ہے، جو ’نیادور‘ کے ’اردوصحافت نمبر‘ میں شائع ہوا تھا” سہارا ان کی گود میں پلا بڑھا تھا- قطب اللہ صاحب کی جوانی لکھنؤ میں گزری- مجلس مشاورت کو بھی انہوں نے بنتے اور بگڑتے ہوئے دیکھا تھا- ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے بھی وہ بڑے مداح تھے- مسلم مجلس اور فریدی صاحب کے بارے میں وہ چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے- پہلی ملاقات میں فریدی صاحب کے تعلق سے میرے بعض سوالوں کے جواب بھی انہوں نے دیے تھے اسی وقت دل میں یہ خواہش ابھری تھی کہ انہیں اپنی یادداشت کو مرتب کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل ان کے بارے میں جان سکے- عبدالجلیل فریدی کا نام آنے پر دل مچل گیا کہ ان کے بارے میں کچھ اور لکھوں لیکن پھر کبھی- سردست طلباء اتنا جان لیں کہ آزادی کے بعد یوپی میں مسلم سیاست کو ڈاکٹر صاحب نے ہی اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا ان کے بارے میں بدر کاظمی، سید ابوالحسن علی ندوی، عبدالحمید رحمانی، حفیظ نعمانی اور اخترالواسع وغیرہ نے لکھا ہے-

قطب اللہ صاحب کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ وہ مشرق وسطی کے امور کے ماہر تھے- ان کی اس مہارت پر ہمیں کوئی شک نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی طالب علمانہ اختلاف ہے البتہ کچھ گزارشات ہیں جنہیں ہم پوری ایمانداری کے ساتھ پیش کرنا چاہ رہے ہیں- قطب اللہ صاحب ماشاءاللہ اعلی تعلیم یافتہ تھے- زمانے کا سرد و گرم دیکھے ہوئے تھے- وہ اہل حدیث باپ کے بیٹے اور خود بھی ماشاءاللہ اہل حدیث تھے- علماء سے انہیں کچھ شکایات تھیں اور میرا خیال ہے کہ یہ شکایات جائز بھی تھیں- قطب اللہ صاحب جس جماعت اہل حدیث کے نمایاں فرد تھے اُس جماعت کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اپنے جن بہترین دماغوں کو ضائع نہیں کر پاتی انہیں نظر انداز کرنا شروع کر دیتی ہے- قطب اللہ صاحب بھی اسی رائیگانی کے شکار ہوئے لیکن انہوں نے اپنی دنیا آپ بنا لی وہ قابل اور باصلاحیت آدمی تھے اس لیے دنیا نے ان کی قدر کی لیکن نہیں کی تو ان کی اپنی جماعت نے- مر گئے تو زمانے نے انہیں یاد کیا- نہیں کیا تو ان کی اپنی جماعت نے- جماعت کو توفیق تک نہیں ہو سکی کہ ان کی تعزیت میں ایک عدد پریس ریلیز ہی جاری کر دے- قطب اللہ صاحب پر ذکی نور عظیم ندوی اور ڈاکٹر عبدالغنی قوفی نے انفرادی حیثیت سے لکھا ہے لیکن انہیں سب سے شاندار خراج عقیدت معصوم مرادآبادی نے پیش کیا ہے اور حق یہ ہے کہ حق ادا کر دیا ہے-

قطب اللہ صاحب ایک نیوز ایجنسی بھی چلا رہے تھے جو عالم عرب کو ہندوستان کی خبریں فراہم کرتی تھی وہ ندوی تھے اور لکھنؤ یونیورسٹی سے انہوں نے عربی میں ایم اے بھی کیا تھا ایسے میں ان کا مشرق وسطی کا ماہر ہونا سمجھ میں بھی آتا ہے- عالم عرب میں جب ناصر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا تب ہندوستان میں البعث الاسلامی ناصر کا بخیہ ادھیڑ رہا تھا اور یہ کام اتنی شدت کے ساتھ ہو رہا تھا کہ ایک بار دلی میں واقع مصری سفارت خانہ احتجاج تک پر مجبور ہو گیا تھا کہ بلاوجہ ناصر کی کردار کشی کی جا رہی ہے- ظاہر ہے کہ یہ سب قطب اللہ صاحب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا- وہ عرب قومیت کے نقادوں میں سے تھے ہم بھی ہیں لیکن ہم بحیثیت طالب علم عرب قومیت کو ترک قومیت کا ردعمل سمجھتے ہیں- یہی یک رخی پالیسی سید ابوالحسن علی ندوی تک کی تھی- یہ صاحب عبدالرحمن کواکبی کی "طبائع الاستبداد” پر تو ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن ترک قومیت پر ذرا کم ہی چِڑھتے ہیں گو کہ انہوں نے "عالم اسلام میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش” میں ترک قومیت پر لب کشائی کی ہے لیکن وہ جارحانہ انداز نہیں ہے جو عرب قومیت کے لیے ان کے لب و لہجے میں ہے یہی حال شاہ معین الدین ندوی کا بھی تھا- محمد کرد علی کی "اسلام اور عربی تمدن” کا ترجمہ کرتے ہوئے حاشیے پر حاشیہ انہوں نے چڑھایا ہے لیکن کہیں یہ نہیں بتایا کہ عرب قومیت ردعمل تھا ترک قومیت کا- ہم نہ کسی کے حامی ہیں نہ مخالف- ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ معلومات کو یک رخا نہ پیش کیا جائے- ہمارے ممدوح قطب اللہ صاحب بھی اسی ماحول کے پروردہ تھے ابھی حال ہی ان کا ایک کالم جو انقلاب میں شائع ہوا تھا- یہ کالم ہمیں ڈاکٹر صغیر صاحب نے بھیجا تھا- اسے پڑھ کر ہم مسکرائے بنا نہیں رہ سکے تھے- اس کالم میں بھی قطب اللہ صاحب نے غزہ کے حوالے سے ایران اور "علامہ” خامنہ ای کی مساعی کا تو ذکر کیا تھا لیکن بیچارے عربوں کو اس لائق بھی نہیں سمجھا تھا کہ ان کا ذکر شر ہی کیا جائے- یہاں بھی ہم قطب اللہ صاحب کو نہیں اپنی جماعت کو معذور سمجھتے ہیں- ہماری جماعت جب اپنوں کو نظرانداز کرے گی تو یہی سب ہوگا-

قطب اللہ صاحب کی طبیعت اکل کھری تھی جس چیز کو انہوں نے سچ سمجھا اسے انہوں نے پوری دیانت اور امانت کے ساتھ پیش کیا اور یہی وصف انہیں اردو صحافت کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھا گا- ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے علاقے میں قطب اللہ صاحب جیسے عظیم اردو کے صحافی نے جنم لیا- خدا بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں-

You may also like